چیف ایگزیکٹو افغانستان اور افغان مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا پہلا دورۂ پاکستان‘ جس میں ان کے ہمراہ ایک اعلیٰ اختیاراتی افغان وفد ہے‘ افغانستان کو ایک مستحکم ریاست کے طور دیکھنے والوں اور عالمی امن کے متمنی افراد کے لئے ٹھنڈی اور فرحت بخش ہوا کا جھونکا ہے۔ اس دورے کو بجا طور پر خطے کی سلامتی اور خوش حالی کی جانب بڑھنے والا اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ امن کی خواہش اور جنگ و جدل سے نفرت کرنے والی قوموں کے لئے افغان امن معاہدہ کامیابی کی ضمانت ہے۔ اس سے پاکستان اور افغانستان جیسے دو مسلم برادر ممالک کا ایک دوسرے کے قریب ہونا دونوں اقوام کے لئے انتہائی مسرت اور اطمینان کا باعث بنے گا۔ ماسوائے بھارت اور اس کے ایک دو اتحادی ممالک‘ پوری دنیا شروع دن سے یہ کہتی اور دل سے تسلیم کرتی تھی کہ افغانستان میں امن بھارت کی بیٹھک اور مداخلت سے نہیں بلکہ پاکستان کی مدد اور دوستی سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اسی لئے پاکستان نے 2018ء میں اپنی پُرخلوص کوششوں سے واشنگٹن اور افغان طالبان کے درمیان ٹوٹے ہوئے رابطوں کو پھر سے بحال کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا، اس کے لئے افغان طالبان پاکستان کے ہمیشہ ممنون رہیں گے۔
جب سے افغان امن معاہدہ ہوا ہے‘ بھارت اپنی انگلیاں چبا رہا ہے، اسے اپنے اربوں ڈالر ڈوبتے اور تمام ناپاک ارادے خاک میں ملتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ظاہر شاہ کے جانے کے ایک مدت بعد‘ بھارت کو پاکستان کے خلاف افغانستان میں پھر سے واک اوور ملا اور اس آزادی اور واک اوورکا فائدہ اٹھاکر اس نے پاکستان کی مغربی سرحدوں سے ملحق افغانستان کے محفوظ پہاڑوں، غاروں اور ٹیلوں میں اپنے فوجی‘ گوریلا تربیتی اڈے اور دہشت گردی کے لئے درکار دنیا کے جدید ترین اسلحے اور گولہ بارود کا ذخیرہ کر لیا۔ 2001ء میں نائن الیون کے نتیجے میں امریکی، نیٹو اور ایساف فوجوں کی افغانستان پر یلغار کی صورت میں بھارت کی لاٹری نکل آئی اور اس نے سابق افغان صدر حامد کرزئی کی مدد سے افغانستان میں جگہ جگہ ایسے محفوظ فوجی اور تخریبی ٹھکانے بنا لیے جہاں بیٹھ کر وہ بلوچستان، سندھ، پنجاب اور کے پی سمیت گلگت بلتستان میں اپنے ایجنٹ اور بارودی مواد داخل کرنے لگا۔ بھارتی جاسوس اجیت دوول اور بدنام زمانہ بھارتی ایجنسی را نے انہی ٹھکانوں کو استعمال کرتے ہوئے کے پی، بلوچستان اور گلگت بلتستان میں فرقہ پرستی کو ہوا دے کر پاکستان کے امن اور ہم آہنگی کو تباہ کیا۔
افغانستان میں مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے اور مسلمانوں کے طور طریقوں کا مذاق اڑانے میں بھارت کوئی کسر نہیں چھوڑتا، مقصد اس کا اس کے سو اکچھ نہیں ہوتا کہ افغانستان میں مسلمانوں کے مختلف گروپوں کے جذبات کو اپنے وظیفہ خوروں کے ذریعے بھڑکا کر آگ اور خون کا کھیل جاری رکھے۔ بنیادی طور پر بھارت کا مشن ہی یہ ہے کہ ہر طور طریقہ استعمال کر کے افغانستان کو عدم استحکام اور خانہ جنگی کا شکار رکھا جائے اور ماضی میں جب بھی افغانستان میں امن کی کوئی شمع روشن ہونے کے امکانات پیدا ہوئے تو بھارت نے مختلف حربوں اور ہتھکنڈوں سے اس کو جلنے سے پہلے ہی بجھا دیا۔ اب جب امریکا طالبان امن معاہدہ اپنے استحکام کی جانب بڑھ رہا تھا تو بھارتی ایجنسیوں نے اشرف غنی سے ایسا حکم جاری کرا دیا جس کی رو سے شناختی کارڈ پر ولدیت کے خانے میں باپ کے نام کے ساتھ ماں کا نام بھی لکھا جایا کرے گا۔ افغانستان جیسے نیم قبائلی قدامت پسند معاشرے میں یہ بات روایات کے خلاف سمجھی جاتی ہے اور پھر عوام کو اعتماد میں لیے بغیر ایسا حکم نامہ جاری کرانا کسی بھی طور دانشمندی نہ تھی۔ اس پر افغانستان میں شدید ردعمل سامنے آیا اور افغان طالبان کے ترجمان نے کھل کر کہا کہ وہ اشرف غنی کے اس حکم کی تکمیل کبھی بھی نہیں ہونے دیں گے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کیا جنوبی ایشیا سمیت کسی اور مسلم ملک میں یہ قانون موجود ہے؟ بھارت‘ جس نے این ڈی ایس کی ایک کارکن کو استعمال کرتے ہوئے یہ قانون نافذ کرایا ہے‘ اس پر مغرب سے داد لینا چاہ رہا ہے اور بھارتی توقعات کے عین مطابق مغرب کا لبرل معاشرہ اس پر واہ واہ کے ڈونگرے برسا رہا ہے حالانکہ پورے افغانستان میں غصے اور مزاحمت کی بجلیاں کڑک رہی ہیں۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو اس قانون کو اچانک اور بے موقع نافذ کرنے کا مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ افغان امن معاہدے کو انتشار و افتراق کی آگ میں جلا کر بھسم کر دیا جائے۔
کل تک حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ ایک دوسرے سے لاکھ مخالفتوں کے باوجود‘ اپنی اپنی جگہ بھارت کو خوش کرنے کے لئے افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں کی قطاریں لگانے کی ریس میں شریک تھے اور ان قونصل خانوں کے لیے‘ جتنا چاہیں اور جس قسم کا بھی چاہیں‘ سٹاف لانے کی کھلی اجا زت دی گئی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را اور اس کے سپیشل کمانڈوز کے دستے قطار اندر قطار گولہ بارود کے ڈھیر کے ساتھ افغانستان میں اپنے مراکز بنانے میں جت گئے۔ بیت اللہ محسود سے لے مولوی نیک محمد، خالد خراسانی اور ملا فضل اللہ تک‘ یہ تمام عالمی دہشت گرد افغانستان میں بھارت کے ان خفیہ ٹھکانوں میں مہمانِ خصوصی کے طور پر قیام پذیر ہو کر ہی پاکستان کے اندر دہشت گردی اور بم دھماکوں کے لئے خود کش حملہ آوروں کو تیار کرتے رہے ہیں۔افغانستان کے حالیہ انتخابات کے بعد غلط فہمیوں نے ایک وقت یہ صورت حال بھی پیدا کر دی کہ ایک ہی ملک میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی صورت میں دو صدور ایک دوسرے کے سامنے لا کر بٹھا دیے کیونکہ افغانستان کی صدارت کا دونوں نے ہی اپنی اپنی جگہ حلف اٹھا لیا تھا اور یہ سب کچھ ایسے وقت ہوا جب کئی عشروں کے بعد‘ افغانستان کو امن کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے طالبان، امریکا اور یورپی یونین میں مکمل ذہنی ہم آہنگی موجود تھی۔ اس موقع پر بھارت اور مودی سرکار کے تمام خفیہ پلان‘ جو اس نے پاکستان اور چین کے خلاف تیار کر رکھے تھے‘ دھواں بن کر تحلیل ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ افغانستان کا مستقل امن پاکستان کا وہ خواب ہے جس کی حسرت عرصہ دراز سے مچل رہی ہے۔ افغانستان میں ہر وقت برستی آگ، بارود اور دھویں کی بارش اور جگہ جگہ پڑی انسانوں کی کٹی پھٹی لاشیں اس کے ہمسایوں کو چین سے کیسے رہنے دے سکتی ہیں؟ یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کے ہمسائے میں ہر وقت لڑائی جھگڑا اور سر پٹھول ہوتی رہے اور آپ کی زندگی بے اطمینان نہ ہو۔ دسمبر 2018ء میں پاکستان کی معاونت سے افغان طالبان اور واشنگٹن کے درمیان ہونے والی گفتگو میں یہ طے پا چکا تھا کہ جولائی 2021ء میں امریکی فوجیں افغانستان سے واپس چلی جائیں گی جبکہ طالبان افغانستان میں دیرپا امن اور بھائی چارے کے قیام کیلئے افغانستان کے تمام دھڑوں اور عسکری گروپوں سے بات چیت کریں گے، جن میں سب سے بڑا متحارب فریق شمالی اتحاد بھی شامل ہو گا۔
اس سے قبل جولائی 2015ء میں بھی اسلام آباد میں افغان حکومت اور افغان طالبان‘ دونوں کو امن کیلئے ایک میز پر بٹھانے کیلئے پاکستان کی کوششیں یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ افغانستان کی ترقی، خوشحالی اور امن و سکون کی بحالی میں پاکستان نے کس قدر ہمدردی و خلوص کا مظاہرہ کیا ہے؛ تاہم اس امن بات چیت کو اس وقت دھچکا لگا جب اچانک ملا عمر کی موت کی خبر سامنے آئی، ابھی طالبان اس صدمے سے باہر نہیں نکلے تھے کہ ملا عمر کے جانشین ملا اختر منصور کو 2016ء میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ اس کے بعد ایک طویل وقفہ آ گیا اور بالآخر 2018ء میں امریکی صدر ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان نے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے ٹوٹے ہوئے رابطے دوبارہ بحال کرنے شروع کیے۔ افغان امن کاوشوں پر اقوام متحدہ کا پاکستان کو پیش کیا جانے والا خراجِ تحسین تاریخ اور ریکارڈ کا حصہ رہے گا۔