دور دیس کی خبریں

پہلی‘ سب سے دلچسپ اور اہم خبر یہ ہے کہ 13اپریل کو برطانیہ کے ایک بڑے اور معتبر اخبار The Times کے قارئین جب اخبار کے صفحہ 19پر پہنچے تو وہ دنگ رہ گئے۔ یہ سارا صفحہ ایک اشتہار پر محیط تھا جس کی سرخی یہ تھی کہ ''نیتن یاہو کی موجودہ پالیسی اسرائیل کی ریاست کی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے اور اس پالیسی پر مزید عمل پیرا ہونے سے اسرائیل کے بطور ایک جمہوری یہودی مملکت وجود پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے‘‘۔ اس اشتہار پر اسرائیلی فوج کے سابق جرنیلوں‘ پولیس کے بڑے افسران‘ اسرائیل کی رسوائے زمانہ خفیہ ایجنسی موساد کے سابق سربراہان‘ حماس کی قید سے رہائی پانے والے 48یرغمالیوں اور بدستور یرغمالی بنے لوگوں کے 30قریبی رشتہ داروں نے اپنے دستخط کر کے اس بیان کی پُرزور حمایت کی تھی۔ یہ تاریخی احتجاج کرنے والوں نے پانچ مطالبات پیش کیے۔ 1 : جنگ جلد از جلد ختم کی جائے تاکہ باقی ماندہ یرغمالیوں کی رہائی کیلئے زمین ہموار کی جا سکے۔ 2: اسرائیل کی موجوہ حکومت کی غیر انسانی پالیسیوں کو بے نقاب کرنے کیلئے ایک اعلیٰ ترین سطح کا تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے۔ 3: اسرائیلی حکومت پارلیمان میں غیر مناسب اور متنازع قانونی مسودات کو قانون بنانے کی کوشش ترک کرے۔ 4: جبری بھرتی کے بارے میں اسرائیل کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے کا احترام کیا جائے۔ 5: حکومت فی الفور نئے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرے تاکہ اسرائیلی عوام کو اپنی مرضی کی قیادت منتخب کرنے کا موقع ملے۔
دوسری اور مقابلتاً قدرے غیر اہم خبر بی بی سی ریڈیو کی مشہور براڈ کاسٹر مشعال حسین کا وہ بیان ہے جو انہوں نے ایک عالمی شہرت یافتہ ماہنامہ جریدے Vogue کو دیا ہے۔ مشعال نے کہا کہ بی بی سی کی ملازمت کے دوران جو اَن گنت انٹرویو انہوں نے کیے اس میں انہوں نے لفظ ''میں نے‘‘ سے پرہیز کرتے ہوئے ہمیشہ ''ہم‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تاکہ پروگرام سننے والے (جن کی تعداد لاکھوں پر مشتمل ہوتی تھی) یہ تاثر نہ لیں کہ یہ سارا پروگرام ایک فرد نے تیار کیا ہے کیونکہ اُن کا ہر پروگرام ایک بڑی ٹیم کی مشترکہ کوششوں کا مرہونِ منت ہوتا تھا۔ دی ٹائمز نے اپنی 17 اپریل کی اشاعت میں صفحہ نمبر 13 (کل اخبار 62 صفحات پر مشتمل ہوتا ہے اور قیمت ڈھائی پائونڈ ہے جو پاکستانی روپوں میں ساڑھے آٹھ سو روپے بنتی ہے) پر مشعال کی وہ شاندار تصویر بھی شائع کی جو Vogue کی زینت بنی اور ان کے وضاحتی بیان کو صفحے پر دو تہائی جگہ دے کر نمایاں کیا۔
تیسری خبر واقعی دور دیس کی ہے‘ جو برطانیہ سے بھی آٹھ ہزار میل دور سے آئی ہے۔ ملک کا نام پاناما ہے‘ جو اُس کمال کی انجینئرنگ سے بنی ہوئی نہر کی وجہ سے مشہور ہے جو بحر الکاہل کو ایک شارٹ کٹ کے طور پر بحر اوقیانوس سے ملاتی ہے۔ آپ کو شاید علم ہو کہ امریکہ کے صدر ٹرمپ نے صدارتی حلف اٹھانے کے بعد اپنی تقریر میں یہ ارادہ ظاہر کیا تھا کہ وہ پاناما نہر پر چین کے بڑھتے اثر ورسوخ کو ختم کرنے کیلئے اس نہر پر امریکی قبضہ چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے ہوش پر جوش غالب آیا تو اُنہوں نے یہ بھی پتا کرنا ضروری نہ سمجھا کہ پاناما نہر ان دنوں کس حال میں ہے؟ اگر وہ تھوڑی سی زحمت کرتے تو اُنہیں ان کے مشیران بلاتؤقف بتا دیتے کہ یہ نہر تو پانی کی کمی کی وجہ سے شدید بحران کا شکار ہے۔ اس نہر کی لمبائی 80 کلومیٹر ہے اور ہر سال اس میں سے 14 ہزار جہاز گزرتے ہیں۔ اگر بحری جہاز یہ نہر استعمال نہ کریں تو انہیں جنوبی امریکہ کے آخری سرے (جہاں چلی اور ارجنٹائن ملتے ہیں) سے گھوم کر مزید 13 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑے گا۔ یہ نہر انسانی عقل کے کمالات کا شاہکار ہے مگر اس کو فعال بنانے کیلئے ایک سادہ سے قدرتی عمل یعنی بارش کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہر کے اندر لاکس (Locks) کا ایک سلسلہ ہے جو جہازوں کو سطح سمندر سے اُوپر اُٹھا کر انہیں نہر کے اگلے حصے تک پہنچاتا ہے اور اس عمل میں پانچ کروڑ گیلن پانی (فی جہاز) استعمال ہوتا ہے۔ جب پچھلی صدی میں یہ نہر کھودی گئی تھی تو ایک مصنوعی جھیل (جس کا نام Gatun ہے) بنائی گئی تھی جہاں بارش سے اکٹھا کیا گیا پانی جمع کر کے نہر کو سپلائی کیا جاتا۔ پاناما کو بارش کا پانی ملنا آج تک کبھی مسئلہ نہیں بنا کیونکہ پاناما بارش برسنے کے اعتبار سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے اور یہاں ہر سال تین ہزار ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے موسمیاتی تبدیلیاں پاناما میں ہونے والی بارشوں پر بُری طرح اثر انداز ہوئی ہیں اور اب پاناما میں بارش اتنی کم ہوتی ہے کہ پاناما نہر کو ملنے والے پانی کی مقدار میں شدید کمی آتی جا رہی ہے۔ اب پاناما حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اگلے چھ برس میں ڈیڑھ بلین ڈالر خرچ کر کے Rio Indio نامی دریا پر بند باندھ کر ایک ایسا ڈیم بنائے گی جو پاناما نہر کو چالُو رکھنے کا کام کرے گا۔
چوتھی خبر کا تعلق شاہ بلوط کے ایک پانچ سو سال پرانے درخت سے ہے جو لندن کے شمال میں Enfield کے ایک نادرِ روزگار جنگل Whitewebbs Wood میں صدیوں سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ تین اپریل کا دن اپنے ساتھ یہ بُری خبر لایا کہ جب حسبِ معمول سینکڑوں افراد اس درخت کے درشن کے لیے مذکورہ جنگل میں گئے تو وہ یہ دیکھ کر صدمے سے نڈھال ہو گئے کہ اُن کی آنکھوں کے سامنے یہ درخت کٹا ہوا (اور کئی حصوں میں بٹا ہوا) پڑا تھا۔ جس کسی نے اس درخت کو کاٹنے کی ذمہ داری قبول کی‘ اس نے اپنے دفاع میں یہ کہا کہ اسے جنگل کے مالکان (ایک نیم سرکاری اتھارٹی) نے اس بنیاد پر درخت کاٹنے کی ذمہ داری سونپی تھی کہ یہ درخت عرصے سے بیماریوں کا شکار ہو کر مردہ ہو چکا تھا۔ دوسری طرف احتجاج کرنے والوں کا مؤقف یہ ہے کہ ان کا محبوب درخت بھلا چنگا اور صحتمند تھا اور یہ کہ اس امر کی سرکاری تفتیش کرائی جائے کہ کٹے ہوئے درخت کو کوئی بیماری لاحق تھی یا نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب کٹے ہوئے درخت کی لکڑی ہرگز نہیں اٹھائی جا سکتی اور اب یہ معاملہ اس مرحوم درخت کے ''پوسٹ مارٹم‘‘ کے ذریعے طے پائے گا۔
پانچویں خبر اٹلی سے آئی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ نے اٹلی کے رسوائے زمانہ غنڈوں اور مجرموں کی تنظیم (Mafia) کا نام نہ سنا ہو۔ اٹلی کے جنوبی صوبے سسلی میں نشوونما پانے والے مافیا کے سربراہ کا نام Matteo Denaro تھا۔ وہ 30 سال تک پولیس کو چکما دے کر اٹلی میں کسی نہ کسی جگہ چھپا رہا‘ آخرکار دو برس پہلے گرفتار کر لیا گیا اور اُسی سال وہ جیل میں مرگیا۔ پولیس کی تازہ ترین تفتیش میں یہ دلچسپ انکشاف ہوا ہے کہ جن 30 سالوں میں پولیس مافیا کے سربراہ کی تلاش میں اٹلی میں ماری ماری پھر رہی تھی اور اٹلی کا کوئی مقام ایسا نہ تھا جہاں پولیس نے چھاپہ نہ مارا ہو‘ اس دوران بھی غنڈوں کے سردار کی گرل فرینڈ اپنے محبوب کی نقل وحرکت سے مکمل طور پر باخبر تھی اور وہ باقاعدگی سے اس سے ملاقات کا اہتمام کرتی تھی۔ اطالوی پولیس کو اس خاتون کے بارے میں اس وقت پتا چلا جب 30 سالوں کی ناکام تلاش کے بعد وہ تھک ہار کر بیٹھ چکی تھی۔ اتفاقاً جب مافیا سربراہ پکڑا گیا تو گرفتاری کے چند ماہ بعد ہی وہ جیل میں زندگی کی قید سے چھوٹ گیا اور پولیس کی اس پر مقدمہ چلا کر اسے لمبی سزا دلانے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں