شعبہ صحافت سے عارف نظامی بھی نگران کابینہ کا حصہ بن گئے۔ خوشی ہے کہ انہیں اپنے ہی شعبے کی وزارت ملی۔ آج دفتر میں ان کا پہلا دن ہے۔ صرف خیر مقدم ہی کیا جا سکتا ہے۔ نجم سیٹھی پرانے ہو چکے ہیں‘ ان پر میرے کالم بھی پرانے ہونے لگے ہیں۔ مسعود اشعر نے لکھا ہے کہ سیٹھی صاحب اول طالب علم تھے‘ بعد میں صحافی بنے۔ بطور طالب علم انہوں نے بلوچستان کی قومی جدوجہد آزادی میں حصہ لیا۔ پھر اپنا جریدہ شروع کر کے صحافی بنے۔ سیاستدان کبھی ریٹائر نہیں ہوتا‘ وہ اوّل و آخر سیاستدان ہوتا ہے۔ صحافی بننے کے بعد بھی سیٹھی صاحب اپنے بنیادی شوق سیاست سے لاتعلق نہیں ہوئے‘ صرف چلمن کے پیچھے رہ کر سیاست کرتے رہے۔ جیسے ہی موقع ملا وہ اپنے پرانے پڑوسی، فاروق لغاری کی مدد سے نگران وزیر بننے میں کامیاب ہو گئے۔ فاروق لغاری نے انہیں جو کام دیا وہ ان کے منصوبے کا جوہر تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ بے نظیر بھٹو شہید اور ان کی پارٹی کو میدان اقتدار سے باہر نکال کر طویل مدت کے لیے اپنی سربراہی میں حکومت چلائیں۔ سیٹھی صاحب کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ بے نظیر حکومت کی کرپشن پکڑیں‘ مقدمات قائم کر کے اُنہیں اور ان کے ساتھیوں کو سزائیں دلوائیں۔ کامیاب ہو کر لغاری صاحب کے ساتھ مل کر حکومت چلائیں۔ نواز شریف کو اس منصوبے پر عملدرآمد کی خبر مل گئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق لغاری صاحب باری باری دونوں بڑے لیڈروں کو راستے سے ہٹانا چاہتے تھے۔ پیپلز پارٹی دفاعی پوزیشن میں آ چکی تھی اور اپنے بچائو کے لیے جدوجہد میں مصروف تھی۔ نواز شریف نے مزاحمت شروع کر دی۔ کابینہ کے اندرکئی نگران وزیروں نے نگران حکومت کو طول دینے کے خلاف موقف اختیار کر لیا۔ اس موقف کی سب سے زیادہ مخالفت دو وزیروں نے کی اور یہ دونوں صحافت کے کھاتے میں وزیر بنے تھے۔ کابینہ کو تقسیم ہوتے دیکھ کر وزیر اعظم ملک معراج خالد ڈٹ گئے اور واضح کر دیا کہ وہ کسی صورت اپنی حکومت کو مقررہ عرصے سے زیادہ بر قرار نہیں رہنے دیں گے۔ انہیں کامیابی ہوئی۔ الیکشن بروقت ہو گئے اور جمہوری نظام کچھ عرصے کے لیے بچ گیا۔ اس مرتبہ دونوں صحافیوں نے نگران حکومتوں کو مقررہ عرصے سے زیادہ قائم رکھنے کی مخالفت کی ہے۔ سب سے پہلے سیٹھی صاحب نے اعلان کر دیا کہ وہ نگران حکومت کو طول دینے کے فیصلے کی حمایت نہیں کریں گے اور عرصہ پورا ہوتے ہی وزارت اعلیٰ چھوڑ دیں گے۔ یہی بات وفاقی وزیر اطلاعات عارف نظامی سے پوچھی گئی تو وہ ان سے بھی تیز نکلے اور کہا کہ ’’ایسا ہونے لگا تو میں وقت سے پہلے حکومت سے الگ ہو جائوں گا‘‘ لگتا ہے دونوں وزرا کو علم ہے کہ انتخابات کے بعد نگران حکومت کو بہرحال ختم ہونا ہے۔ بہتر ہے خود ہی بیان جاری کر دیا جائے تاکہ وقت آنے پر گھروں کو سر بلند واپس جائیں۔ سیٹھی صاحب نے خلاف توقع ایک دھماکہ کر ڈالا۔ یہ تھا بسنت کے جشن سے پابندی اٹھانے کا حکم۔ لاہوریوں کے تو دل خوش ہو گئے۔ وہ خوشی سے ناچنے لگے لیکن بسنت کے مخالفین فوراً ہی میدان میں اتر آئے۔ پہلے ایسے لوگوں کی آواز پر کوئی دھیان نہیں دیتا تھا۔ لوگ خوب مست ہو کر بسنت مناتے اور پتنگیں اڑاتے تھے۔ لاہور میں بسنت کے موج میلے اتنے مشہور ہوئے کہ بیرونی دنیا کے سیاحوں نے ادھر کا رخ کر لیا اور وہ بڑی تعداد میں بسنت کے موقع پر پاکستان آنے لگے۔ نتیجے میں لاہور میں ہوٹلوں میں مہمانوں کی گنجائش نہ رہی اور چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں کی قسمت بھی جاگ اٹھی۔ سیاحوں کی شاپنگ نے لاہور کے بازاروں اور مارکیٹوں کی رونقیں بڑھا دیں۔ بیرونی مہمان پائونڈ اور ڈالروں میں جی بھر کے خریداریاں کرتے اور شہر کے دکانداروں کا منافع کئی گنا بڑھ جاتا۔ مختلف کھانے پکا کر بیچنے اور پتنگیں اور ڈور بنانے والوں کے وارے نیارے ہو گئے۔ بسنت کے چند روز میں معاشی سرگرمیاں اتنی بڑھ جایا کرتیں کہ لاہور کے بعض گھرانوں کو تو پورے سال کا خرچ مل جاتا۔ ایک مخصوص طبقہ عوام کو خوشحال دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ وہ مختلف بہانوں سے اپنے میلے اور جلوس برپا کرتا اور اسے خیروبرکت کا ذریعہ بتا کر لوگوں کو شمولیت کی دعوتیں دیتا۔ ان جلوسوں، تقریبوں اور اجتماعات میں یہ طبقہ خوب نفع کماتا لیکن یہ رونقیں بے رنگ ہوتیں اور عام شہری کے لیے اس میں دلچسپی اور خوشی کا کوئی سامان نہیں ہوتا تھا۔ جب بسنت کی رونقیں بڑھنے لگیں اور میلوں نے رنگ جمائے تو اس طبقے نے بسنت کو غیراسلامی تہوار قرار دے کر اس کی تقریبات پر پابندی لگانے کے مطالبے شروع کر دیئے اور بسنت منانے والوں پر حملے کر کے تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ غالباً یہی لوگ تھے جنہوں نے قاتل ڈور اور تار کا استعمال شروع کرا کے پتنگیں اڑوائیں۔ ظاہر ہے کہ باریک تار اور تلوار کی دھار جیسی ڈور عام شہریوں، بچوں اور بزرگوں کی گردنیں کاٹنے لگیں۔ تار اور ڈور کا زیادہ نشانہ موٹر سائیکل سوار بننے لگے۔ بے گناہوں کا یہ خون ناحق ناقابل برداشت تھا۔ اس پر میڈیا اور سول سوسائٹی نے احتجاج شروع کر دیا اور انتظامیہ نے بجائے سماج دشمن عناصر کی سرکوبی کرنے کے بسنت پر ہی پابندی لگا دی۔ دنیا بھر میں موسمی، تہذیبی اور مقامی نوعیت کے میلے ٹھیلے لگتے ہیں۔ جلوس نکلتے ہیں۔ ہنگامے ہوتے ہیں لیکن انتظامیہ اپنی مستعدی اور عمدہ کارکردگی کے ساتھ صورتحال کا سامنا کرتی ہے اور مجرمانہ واقعات کو روک کر اپنے پُرہنگام شہروں کو نقصان سے بچاتی ہے۔ ایسا بہت کم سننے میں آیا ہے کہ کسی شہر کی انتظامیہ نے تہذیبی، ثقافتی یا علاقائی اجتماعات کو بدامنی کے خطرے کے ڈر سے روکا ہو۔ انسانی قلب و روح کو سکون، فرحت اور مسرت پہنچانے والے تمام فنی اور ثقافتی مظاہروں کو بے رحمی سے ختم کیا جا رہا ہے۔ فلم انڈسٹری تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ سٹیج پھکڑ بازی اور ذومعنی فحش جملوں کی وجہ سے آوارہ گردوں اور اوباشوں کی تفریح کا ذریعہ بن گیا ہے۔ آرٹ کا ہر شعبہ زوال پذیر ہے۔ عام آدمی کے لیے تفریح اور دل کو خوش کرنے والی ہر طرح کی سرگرمیاں ختم ہونے لگی ہیں۔ ایسی صورت میں لوگ گھٹن، نفسیاتی دبائو اور ذہنی پریشانیوں کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ جھنجھلاہٹ، تلخی اور عدم برداشت میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ سڑکوں اور گلیوں میں معمولی معمولی بات پر لڑتے جھگڑتے ہوتے نظر آتے ہیں۔ تشدد کا رجحان فروغ پذیر ہے۔ دہشت گرد گروہوں کو اپنی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھانے کے لیے افراد ی قوت دستیاب ہونے لگتی ہے۔ معاشرے کو جتنا تنگ نظری اور عدم برداشت کا عادی بنایا جائے گا‘ اس میں دہشت گردی کے رجحانات اسی طرح بڑھتے جائیں گے۔ بسنت سے پابندی ہٹا کر بیمار معاشرے کو آسودگی اور خوشی سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرنے کی کوشش ایک دلیرانہ اقدام تھا لیکن یہ دلیری کرنے کے لیے پہلے ذہنوں کو تیار کرنا ضروری تھا۔ اس وقت تنگ نظری اور عدم برداشت کو فروغ دینے والی قوتیں اتنی طاقتور ہیں کہ وہ عام شہری کے لیے معمولی سی خوشی کا موقع بھی برداشت نہیں کرتیں۔ سب سے پہلے ان طاقتوںکے اثرات کم کرنے کے اقدامات کیے جاتے اور اس کے بعد بسنت سے پابندی ختم کی جاتی تو زیادہ مناسب ہوتا۔ اچانک پابندی ختم ہونے پر تنگ نظری کے پرچارک پوری طاقت سے حملہ آور ہوں گے اور حکومت ان کے آگے مشکل ہی سے ٹھہر سکے گی اور اگر انہیں ایک نئی فتح مل گئی تو خیر اور مسرت کی قوتوں کو مزید زک پہنچے گی اور انتہا پسندوں کے حوصلے مزید بڑھیں گے۔ نجم سیٹھی کو دھیرے دھیرے آگے بڑھنا چاہیے۔ عارف نظامی کو وزارت اطلاعات ملنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ وہ ہر اعتبار سے اس کے حقدار ہیں۔ ان کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں۔ بحریہ ٹائون کے ملک ریاض حسین نے خاموشی سے ہزاروں ضرورت مندوں کے لیے ’’دستر خوان‘‘ کے نام پر کئی شہروں میں عمدہ کھانے فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ان کی کوشش یہ رہتی ہے کہ اس خدمت کا چرچا نہ کیا جائے۔ وہ اسے اپنا اور خدا کا معاملہ سمجھتے ہیں لیکن جب کوئی انسانیت دشمن طاقت، غریب کے پیٹ پر اس مقصد سے لات مارتی ہے کہ ملک صاحب کو تکلیف پہنچائی جائے تو آواز اٹھانا مجبوری بن جاتا ہے۔ اسلام آباد میں پمز کے سامنے ایک ریسٹورنٹ اپنے خرچ سے تعمیر کر کے ملک صاحب نے چھ ہزار افراد کے لیے پُرتکلف کھانوں کا انتظام کر رکھا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں مریض، ان کے ساتھ آنے والے عزیز و اقربا اور ارد گرد کے مزدور اور غریب لوگ اس جگہ سے اچھا کھانا کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں لیکن ایک ذاتِ شریف بھوکوں کے سامنے سے کھانا ہٹانے پر تل گئی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ملک صاحب ان کھانوں پر خرچ ہونے والی نقد رقم بیوروکریسی کے سپرد کر دیں۔ ظاہر ہے اس کے بعد منتظمین کا ہی پیٹ بھرے گا، غریب بھوکے رہ جائیں گے۔ پہلے ہی سے بیوروکریسی‘ جو سرکاری خزانے سے اربوں روپے مختلف مدوں میں حاصل کرتی ہے وہ اصل جگہ پر خرچ نہیں ہوتے۔ ملک صاحب کی یہ چھوٹی سی رقم بھی بڑے بڑے پیٹوں میں چلی جائے گی۔ خدا جانے بعض لوگ آزار پسند کیوں ہوتے ہیں؟ مجھے پتہ ہے کہ ملک صاحب نشتر ہسپتال ملتان، جناح ہسپتال لاہور، گنگا رام ہسپتال لاہور، ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی میں بھی اسی طرح کی غریب پروری کر رہے ہیں اور کسی ہسپتال کی انتظامیہ کو کوئی شکایت نہیں۔ ملک صاحب نے اسلام آباد دستر خوان لگانے کے لیے سی ڈی اے سے باقاعدہ اجازت لے رکھی ہے اور ان کی یہ پیش کش بھی موجود ہے کہ جب سی ڈی اے، اس پلاٹ کو استعمال کرنا چاہے گی تو اسے بلاتاخیر خالی کر دیا جائے گا۔ پھر غریبوں کے منہ کا نوالہ چھیننے کی کوشش کیوں ہو رہی ہے؟ میڈیا اور سماجی خدمات میں مصروف سول سوسائٹی کی تنظیمیں اس انسانی مسئلے پر فوری توجہ دیں اور بھوکے اور غریب لوگوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کی کوششوں کو ناکام بنائیں۔