2013ء کے انتخابات کا دوسرا مرحلہ اَن گنت لطیفے چھوڑ کر رخصت ہو گیا۔انتخابات کے بارے میں قائم مقام وزیراعظم اور چیف الیکشن کمشنر نے اتنے بیانات جاری نہیں کیے‘ جتنے چیف جسٹس آف پاکستان نے مختلف مواقع پر اور اجتماعات میں دیئے۔مثلاً انہوں نے فرمایا ’’الیکشن قانون و قاعدے کے مطابق کرائیں گے۔‘‘ آگے فرمایا ’’ضابطہ اخلاق پر سب سے عملدرآمد کرایا جائے گا۔‘‘ ریٹرننگ افسروں کے بارے میں کہا ’’ریٹرننگ افسروں پر اہم ذمہ داری ہے۔ عدالتی افسر تعینات کرنا عدلیہ پر اعتماد کا مظہر ہے۔‘‘ جن محکموں کے اہلکار انتخابی ڈیوٹی کی خاطر لائے جائیں گے، یہ بھی ان پر اعتماد کا مظہر ہو گا۔آئینی طور پر آج بھی انتخابات کی تمام ذمہ داریاں چیف الیکشن کمشنر پر ہیں۔ وہی انتخابات کے بارے میں بیانات دے سکتے ہیں اور وہی انتظامی امور کے معاملے میں تفصیلات اور پروگرام بتا سکتے ہیں۔ مگر یوں لگتا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ سارے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں۔ جس حد تک میں جانتا ہوں‘ انتخابی ڈیوٹی کے لئے جن محکموں سے بھی عملہ حاصل کیا جاتا ہے وہ اس وقت تک چیف الیکشن کمشنر کے ماتحت رہتاہے جب تک اپنے فرائض مکمل نہیں کر لیتا۔ ریٹرننگ افسر بے شک عدلیہ سے آئے ہوں لیکن انتخابی ذمہ داریاں جاری رکھنے تک وہ چیف الیکشن کمشنر کے ماتحت ہونا چاہئیں اور وہی یہ بتانے کے مجاز ہیں کہ وہ انتخابات کس طرح کرائیں گے؟ لیکن یہاں بھی چیف جسٹس آف پاکستان کا بیان آتا ہے کہ ’’الیکشن قاعدے و قانون کے مطابق کرائیں گے‘‘ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کرانے کی تمام تر ذمہ داریاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاس ہیں؛ حالانکہ پورا انتخابی عمل ریٹرننگ افسروں کے کنٹرول میں نہیں ہوتا۔ اس کے ان گنت مراحل ہیں اور ان سب کی ذمہ داری چیف الیکشن کمشنر پر ہوتی ہے جو خود بھی ایک آئینی ادارے کے سربراہ ہیں اور دوسرے ہر ادارے کے سربراہ کی طرح آئین کے تحت اپنے منصبی فرائض میں پوری طرح آزاد ہوتے ہیں۔ کوئی دوسرا ادارہ ان کے فرائض ازخود نہیں سنبھال سکتا۔ سپریم کورٹ سے ریٹرننگ آفیسرز لے کر پورا انتخابی عمل سپریم کورٹ کے ہاتھ میں نہیں چلا گیا۔ انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کا دخل اس وقت شروع ہو گا جب کسی بے قاعدگی یا ناانصافی کی شکایت لے کر کوئی فریق سپریم کورٹ میں جائے گا۔ اگر صدر زرداری کا تازہ بیان دیکھا جائے تو اس میں بھی ایک شکایت کا تاثر ملتا ہے۔ صدر نے کہا ہے: ’’الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسروں کا رویہ نامناسب ہے۔ نگران حکومت انتخابات کو پہلی ترجیح رکھے۔ ادارے آئینی طور پر مجھے حاصل اختیارات فراموش نہ کریں۔‘‘ ان چند الفاظ میں ایک جہان معنی پنہاں ہے۔ صدر زرداری ایک سیاسی پس منظر رکھتے ہیں۔ ان کی پارٹی اپنی حکومت کا عرصہ پورا کر چکی ہے۔ ان کی صدارت کا عرصہ بھی ختم ہونے کے قریب ہے۔ و ہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ انتخابی عمل میں کسی بھی غیر آئینی مداخلت کا تاثر پیدا ہو۔ ریٹرننگ افسروں نے جس طرح کے فیصلے کئے ہیں وہ ساری دنیا میں زیربحث آ چکے ہیں۔ جس طرح ہمارا مضحکہ اڑایا جا رہا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے پاکستانی جمہوریت کے حق میں اچھا نہیں۔ باقی امیدواروں کے ساتھ تو بہت کچھ ہو رہا ہے مگر عالمی سطح پر جن دو شخصیتوں کو اہمیت حاصل ہے‘ ان میں ایک گزشتہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان ہیں اور دوسرے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف۔ پورے پاکستان میں یکساں انتخابی قوانین نافذ ہیں اور کاغذات نامزدگی منظور کرنے کا طریقہ کار اور ضابطے بھی یکساں ہیں۔ لیکن چوہدری نثار علی خان ایک حلقے میں الیکشن میں حصہ لینے کے اہل قرار پائے اور دوسرے حلقے میں نااہل۔ اسی طرح پرویزمشرف تین حلقوں میں نااہل قرار دیئے گئے ہیں اور ایک حلقے میں اہل قرار پائے ہیں۔ دنیا اس تماشے کو کس نظر سے دیکھ رہی ہے؟ اس پر اگر بیرونی میڈیا کے تبصرے دیکھے جائیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے۔قانون میں ایسی مضحکہ خیزی کہاں ہوتی ہو گی؟ ایک ہی ملک کے اندر‘ ایک ہی قانون کے تحت‘ ایک ہی شخص ‘ ایک ہی طرح کا فارم ‘ ایک ہی طرح بھر کے ‘ ایک ہی جیسے ریٹرننگ افسر کے سامنے پیش ہوتا ہے۔ کہیں اسے صحیح امیدوار قرار دیا جاتا ہے اور کہیں غلط۔ الیکشن منعقد کرانا چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ داری ہے لیکن ریٹرننگ افسر عدلیہ سے آئے ہوئے ہیں اور سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے سپرد کئے گئے اپنے عملے کو آج بھی اپنے ماتحت تصور کر رہی ہے اور سیکرٹری الیکشن کمیشن کو برملا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ’’ریٹرننگ آفیسرز کو وہ کوئی ہدایت نہیں دے سکتے۔‘‘ یہ کس طرح کاالیکشن ہو رہا ہے؟ کل الیکشن کمیشن کے حوالے کئے گئے صوبائی افسروں کو بھی چیف سیکرٹری براہ راست احکامات دینا شروع کر دیں گے اور نگران وزیراعلیٰ ان افسروں کو جمع کر کے تقریریں کریں گے اور جو عملہ وفاقی محکموں سے لیا جائے گا اسے متعلقہ وزارتوں کے نگران وزراء خطاب کرتے نظر آئیں گے اور ہر کوئی یہ بتائے گا کہ وہ کس طرح کے انتخابات ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے؟ ریٹرننگ افسروں کے تاریخی کارنامے بھی عرصے تک یاد رہیں گے۔ ایک امیدوار سے پوچھا گیا کہ 15پھلوں کے نام انگریزی میں بتائو؟ اس کا جواب تھا ’’ایپل‘ اورنج‘ گریپ اور 12کیلے۔‘‘ مزے کی بات یہ ہے کہ ریٹرننگ افسر نے اس جواب کو درست تسلیم کیا۔ سکولوں کے بچے جب اس ’’درست‘‘ قرار دیئے گئے جواب کو پڑھیں گے تو انہیں بھی اسی طرح کے جواب دینے کی ترغیب ملے گی۔ اگر ریٹرننگ افسر آج بھی عدلیہ کا حصہ ہے تو مندرجہ بالا امیدوار کا جواب مستند ہو جائے گا۔ ہمارے نصاب میں تو پہلے ہی ایسے بہت سے لطائف شامل ہیں۔ اب مزید ایک لطیفہ شامل ہو جائے گا۔ ایک امیدوار سے سوال کیا گیا کہ ’’اگر دریا میں اس کا بیٹا‘ بیوی اور ایک عظیم مذہبی عالم ڈوب رہے ہوں اور ان میں سے کسی ایک کو بچانا ممکن ہو تو وہ کسے بچائیں گے؟‘‘ امیدوار کا جواب اخبارات میں شائع نہیں ہو سکا۔ لیکن یہ سوال اتنا ان مل، بے جوڑ ہے کہ کسی ’’غیرمعمولی‘‘ ذہن میں ہی آ سکتا ہے۔ بیٹے اور بیوی کو تو ہر شخص ‘ ہر حال میں پہچان سکتا ہے‘ خواہ وہ ڈوبتے ہوئے ہی کیوں نہ دکھائی دے رہے ہوں۔ لیکن تیسرے شخص کے بارے میں ہر کسی کو کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ ڈوبنے والا عظیم مذہبی عالم ہے یا داڑھی والا کوئی غیر مسلم؟ ایک ڈوبتے ہوئے شخص کا حلیہ دیکھ کر کوئی کس طرح اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ عالم دین ہے؟ کسان ہے؟ پروفیسر ہے؟ یا ریٹرننگ آفیسر؟ ایک اور سوال یہ ہوا کہ ’’شادی شدہ مسلمانوں پر غسل کب واجب ہوتا ہے؟‘‘ یہ سوال فحاشی کے زمرے میں آتا ہے یامسلمانوں کی بودوباش کے حوالے سے کیا گیا؟ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ ریٹرننگ افسر کے نزدیک مسلمان عام حالات میں غسل نہیں کرتا اور شادی شدہ مسلمان تو بالکل نہیں کرتا۔وہ محض خاص حالات میں غسل کرتا ہے۔ لہٰذا امیدوار بتائے کہ مسلمان پر غسل کب لازم ہوتا ہے؟ اس سوال کا منطقی جواب فحاشی کی ذیل میں آ جائے گا۔ لہٰذا میں نہیں لکھ پا رہا۔ جس جواب کو میں نہیں لکھ پا رہا، کیا ریٹرننگ افسر بھری عدالت میں وہی سننا چاہتے تھے؟ ایک امیدوار جس کا مسلمان ہونا یقینی ہے‘ اس سے یہ پوچھنا کہ ’’کیا کبھی آپ نے سور کا گوشت کھایا ہے؟‘‘ کس سوچ کی عکاسی کرتا ہے؟ اس میں تو ریٹرننگ آفیسر کا احساس محرومی زیادہ نظر آتا ہے۔ اسی طرح کا ایک اور سوال یہ ہوا ’’اگر آپ صحرا میں پیاسے مر رہے ہوں اور شراب کی بوتل ملے تو کیا آپ پی لیں گے؟‘‘ ایک ایسے صحرا میں جہاں دور دور تک پانی دستیاب نہیں‘ وہاں شراب کی بوتل کہاں سے آئے گی؟ مفروضے بھی سوجھ بوجھ سے گھڑے جاتے ہیں۔ ریٹرننگ آفیسر عدلیہ سے آئے ہوئے تھے، کیا یہ سوال کرنے والا ریٹرننگ آفیسر بھی عدلیہ سے آیا تھا؟ الطاف حسین نے ایک اور سوال کا ذکر کیا جو کچھ یوں تھا کہ ’’آپ کی بیویاں کتنی ہیں؟ اور آپ زیادہ وقت کس کے ساتھ گزارتے ہیں؟‘‘اگر انتخاب میں حصہ لینے کے لئے صرف صادق اور امین ہی چنے گئے ہیں تو بقول رحمن ملک’’ان کا نام ہی صادق اور امین ہو گا۔‘‘ ورنہ ان الفاظ کے لفظی اور علامتی مفاہیم کے تحت پاکستان میں ایک بھی صادق اور امین نہیں مل سکتا اور مولانا طاہر اشرفی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ’’یہ دونوں تعریفیں حضورﷺ کے لئے ہیں۔ دوسرا کوئی مسلمان ان کا حق دار ہی نہیں۔‘‘ انتخابات کا دوسرا مرحلہ اپنے ساتھ کئی کہانیاں اور لطیفے چھوڑ کے ختم ہو گیا۔ تیسرے مرحلے کے ساتھ کیا کچھ آتا ہے؟ انتظار کیجئے۔