انتخابات میں عددی اعتبار سے‘ نوازشریف کی کامیابی‘ غیرمعمولی نہیں۔ 1997ء میں وہ دوتہائی اکثریت لے کر آئے تھے۔ لیکن اپنے ایجنڈے کے مطابق بنائی گئی پالیسیوں پر عملدرآمد سے قاصر رہے۔ اس دور کے علاقائی اور عالمی ماحول میں ان کا واحد کارنامہ ایٹمی تجربات تھے‘ جو بھارت کے جواب میں کئے گئے۔ ایٹمی طاقتیں بن جانے کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین طاقتوں کا ایک نیا توازن پیدا ہوا اور دونوں ملکوں کی قیادتو ں نے‘ اس کے نفسیاتی اثرات سے بروقت فائدہ اٹھاتے ہوئے ‘ امن کے امکانات کو ‘ حقیقت میں بدلنے کی کوشش کی۔ اسی کوشش کا نتیجہ تھا کہ بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی‘ واہگہ پار کر کے لاہور پہنچے اور انہوں نے مینارپاکستان پر موجود رجسٹر میں دو قومی نظریے پر‘ بی جے پی کی طرف سے مہرتصدیق ثبت کر دی۔ یہ بھارتی انتہاپسندوں کی طرف سے اس دیرینہ موقف میں تبدیلی تھی‘ جس کے تحت وہاں کے انتہاپسند پاکستان دشمنی پر تلے رہتے تھے۔ انہوں نے تقسیم کو دل سے قبول نہیں کیا تھا اور انہی انتہاپسندوں کی آڑ لے کر پاکستانی انتہاپسندوں نے بھارت کو ایک مستقل دشمن کی حیثیت دے رکھی تھی۔ اسی بنا پر پاکستانی معیشت کا ڈھانچہ عسکری نوعیت اختیار کرتا گیا۔ ایٹمی طاقت بننے کے بعد پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا اور یہی وہ اعتماد تھا‘ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ نوازشریف نے اعلان لاہور پر دستخط کئے تھے۔ اس دستاویز میں دونوں ملکوں کے مابین مستقبل کے نئے تعلقات کی بنیاد رکھی گئی۔ اس وقت پاکستان کے انتہاپسند طبقے اور فوج‘ بھارت کو اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کرتے تھے۔ جنرل حمید گل کے اس نظریے پر زوروشور سے عمل ہو رہا تھا کہ بھارت کے جسم سے خو ن ٹپکاتے رہو‘ ایک نہ ایک دن وہ نیلا ہو کر کمزور پڑ جائے گا۔ مگر اصل نتیجہ اس کے برعکس نکل رہا تھا۔ بھارت‘ پاکستان کے زیرسرپرستی ہونے والی کارروائیوں کو برداشت کرتے ہوئے بھی ‘ تیزرفتاری سے ترقی کرتا چلا گیا اور پاکستان اپنے محدود وسائل سے کشیدگی اور محاذآرائی کی قیمت چکاتے چکاتے خود ہی کمزور ہوتا گیا۔ نوازشریف نے یہ تباہ کن راستہ چھوڑ کر‘ امن کا خواب دیکھا۔ واجپائی کی طرف سے حوصلہ افزائی کی گئی اور ان دونوں نے پاکستانیوں‘ بھارتیوں اور کشمیریوں کو اعتماد میں لے کر تنازعہ کشمیر کے حل کا ایک خاکہ تیار کیا۔ اس خاکے کے خدوخال میں کئی مرتبہ بیان کر چکا ہوں۔ لیکن جنرل پرویزمشرف نے کارگل سیکٹر میں‘ بھارت کے زیرقبضہ علاقے پر خفیہ فوجی کارروائیاں شروع کر دیں۔ یہ دراندازی‘ واجپائی اور نوازشریف دونوں کے لئے غیر متوقع تھی۔ پاک بھارت تعلقات میں امن کا نیا نیا رشتہ ‘ جس کی بنیاد بڑی قربانیوں اور مشکلوں کے بعد رکھی گئی تھی‘ پل بھر میں ٹوٹ گیا اور دونوں ملک ایک بار پھر اسی مقام پر آ کھڑے ہوئے‘ جہاں ایٹمی تجربات سے پہلے تھے۔ اگر کارگل کے واقعات نہ ہوتے‘ تو نئی صدی شروع ہونے سے پہلے پہلے دونوں ملک تنازعہ کشمیر کے معاملے میں کسی سمجھوتے پر پہنچ چکے ہوتے اور خیال کیا جا رہا تھا کہ واجپائی اور نوازشریف دونوں نئی صدی کے پہلے سال میں نوبل امن انعام کے حقدار ہو جائیں گے۔ لیکن نوازشریف کو امن انعام‘ وزارت عظمیٰ سے برطرفی‘ اذیت ناک قید تنہائی‘ ہتھکڑیوں اور جلاوطنی کی صورت میں ملا۔ بھارت کے چند انتہاپسندوں کو چھوڑ کر‘ وہاں کی پوری سیاسی لابی‘ میڈیا اور سول سوسائٹی کو یقین ہے کہ نوازشریف کو بھارت کے ساتھ بہترتعلقات بنانے کی کوشش پر سزا دی گئی تھی اور اس مقصد کے لئے انہوں نے بے شمار تکالیف برداشت کیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں نوازشریف کی نہ صرف عزت کی جاتی ہے بلکہ پاکستان کی ہر قیادت سے زیادہ‘ ان پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ نوازشریف پاکستان کے واحد لیڈر ہیں‘ جنہوں نے 1997ء اور 2013ء میں انتخابات سے پہلے‘ یہ واضح اعلانات کئے کہ وہ بھارت کے ساتھ تنازعات ختم کر کے‘ امن اور دوستانہ تعلقات قائم کریں گے۔ وہ پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں‘ جنہوں نے انتخابی میدان میں اترنے سے پہلے ایسا جرأت مندانہ موقف اختیار کیا۔ ورنہ پاکستان میں الیکشن جیتنے کے لئے بھارت کے خلاف پرجوش تقریریں کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ نوازشریف نے 1997ء میں بھی خطرات مول لے کر‘ انتخابات سے پہلے بھارت دوستی کے اعلانات کئے اور عوام نے اس کے باوجود انہیں دوتہائی اکثریت سے منتخب کر لیا۔ عوام کے اسی اعتماد کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اعلان لاہور پر دستخط کرنے کا حوصلہ کیا۔ اس کا انجام میں بیان کر چکا ہوں۔ اس مرتبہ پھر انہوں نے انتخابات سے پہلے‘ اسی طرز کے جرأت مندانہ اعلانات کئے۔ ان کی ایک تقریر ‘ جس میں انہوں نے پاکستان اور بھارت کے مابین قدیم اور تاریخی رشتوں کے حوالے دیئے تھے اور کہا تھا کہ ہمارے لباس‘ ہمارا رہن سہن‘ ہمارے رسوم و رواج‘ ہمارے کھانے اور ہمارے تہذیبی مظاہرے‘ ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ جس پر پاکستانی انتہاپسندوں کی طرف سے بہت شور مچایا گیا اور دبائو ڈالا گیا کہ نوازشریف انتہاپسندوں کی مرضی کے مطابق اپنی باتوں کی تشریح کریں۔ لیکن وہ اپنے بیان پر قائم رہے اور اسی صورتحال میں انتخابی مہم چلائی۔ ووٹ انہیں اس مرتبہ بھی بھاری تعداد میں ملے۔ لیکن یہ 1997ء جیسی کامیابی نہیں تھی۔ اس وقت نوازشریف کو دوتہائی اکثریت ملی تھی جبکہ موجودہ انتخابات میں وہ سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کا درجہ حاصل کر پائے ہیں۔ لیکن یہ فتح 1997ء سے بڑی ہے۔ کیونکہ آج کی ملکی اور علاقائی فضا‘ نوازشریف کے خیالات اور تصورات کے لئے انتہائی سازگار ہو چکی ہے۔ آج انہیں اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کے لئے پہلے کی طرح مزاحمتوں کا سامنا نہیںکرنا پڑے گا‘ جن کا انہیں 1998-99ء میں کرنا پڑا اور نہ ہی ان طاقتوں میں یہ دم رہ گیا ہے کہ وہ نوازشریف کو معطل یا برطرف کر سکیں۔ اگر میں یہ کہوں تو شاید بے جا نہ ہو کہ اس وقت نوازشریف کی مخالف قوتیں‘ انہیں راستے سے ہٹانے کی اہلیت رکھتی تھیں اور آج وہ نوازشریف کی شکل میں ایک نجات دہندہ کو دیکھ رہی ہیں۔ کارگل ان کے لئے اب ایک ڈرائونا خواب بن چکا ہے۔ 9/11 سے پہلے کی دنیا قصہ پارینہ ہو گئی ہے۔ پاک فوج کے لئے زیادہ بڑے چیلنجز سامنے آ چکے ہیں اور وہ اپنے افسروں اور جوانوں کی جتنی قربانیاں اندرونی جنگ میں دے چکی ہے‘ پاکستان اور بھارت کی تمام جنگوں میں اسے اتنا جانی نقصان نہیں اٹھانا پڑا۔ بھارت کے ساتھ جنگوں میں تو فائربندی کے امکان موجود رہتے تھے۔ لیکن جس جنگ میں ہم آج الجھے ہیں‘ وہ لامتناہی ہے۔ اس کا کوئی انجام سامنے دکھائی نہیں دے رہا۔ دہشت گردی کے ساتھ یہ جنگ ایک فوجی حکمران کو کھا چکی ہے۔ ایک کمزور اور بے اثر منتخب حکومت اپنی تمام نااہلیوں کے باوجود‘ اپنی مدت اقتدار پوری کر چکی ہے اور فوج نے اقتدار پر قبضہ کرنے کا خیال تک نہیں کیا۔ آج فوج کو اقتدار پر قبضے کے لئے حالات سازگار نظر نہیں آ رہے اور نہ ہی بدلے ہوئے حالات میںوہ ایسا کرنے کا سوچ سکتی ہے۔ وقت بدلنے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جنرلوں کو عدالتوں میں پیش ہونا پڑا۔ ان پر فردات جرم قائم ہوئیں اور ایک سابق آمر کو متعدد مقدمات میں عام شہریوں کی طرح سپریم کورٹ ہی نہیں عام مجسٹریٹ کے سامنے بھی پیش ہونا پڑا۔ اگر اس بدلے ہوئے ماحول کو دیکھیں‘ تو نوازشریف کی موجودہ فتح 1997ء کی دو تہائی والی اکثریت کی فتح سے‘ کہیں زیادہ بڑی لگتی ہے۔ آج وہ اپنی پالیسیوں پر بڑی آسانیوں سے عمل کر سکتے ہیں۔ آج ہماری فوج ‘ بھارت کے ساتھ مستقل دشمنی کی پالیسی کو ترک کر چکی ہے اور نئے حالات میں اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ بھارت کے ساتھ جنگ اور محاذآرائی کی قیمت ادا کرنا انتہائی مشکل ہورہا ہے۔ آج نوازشریف امن کے لئے جو بھی قدم اٹھائیں گے‘ اسے عوام اور طاقت کے سارے مراکز کی تائید حاصل ہو گی۔ ماسوا چند مذہبی جنونیوں کے‘ جنہیں وقت کے ساتھ ساتھ ماضی کی تاریکیوں میں گم ہو جانا ہے۔پاکستان اور بھارت نے آزادی کے بعد‘ امن کی امید کو اتنا روشن کبھی نہیں دیکھا‘ جتنا آج دیکھ رہے ہیں۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ نوازشریف کی حالیہ انتخابی فتح‘ ان کی دو تہائی اکثریت والی فتح سے زیادہ بڑی ہے۔