پیپلزپارٹی کو بلاوجہ مطعون کیا جا رہا ہے۔ وہ الیکشن میں تھی ہی کب؟ جو ہار گئی۔جس پارٹی نے الیکشن میں حصہ لیا‘ وہ پنجاب میں جہانگیربدرمارکہ گروپ تھا۔ جسے بدر صاحب نے اپنے گہرے دوست سہیل ضیابٹ کی تحویل میں دے دیا تھا۔ یہاں پارٹی سے وہی سلوک کیا جاتا‘ جس پر سہیل ضیابٹ خوش ہوتے اور آخر کارو ہی ہوا‘ جو سہیل ضیابٹ چاہتے تھے۔ وہ اپنے مشن میں کامیاب رہے اور جہانگیربدر اپنے مشن میں کامیاب رہے۔ جس کام میں یہ دونوں ہاتھ ڈالتے‘ پنجاب میں ان کے لئے کامیابی ہی کامیابی تھی۔ وہی نعرے جو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیرشہید کے زمانوں میں لوگوں کے خون کو گرماتے اور دلوں میں جذبات ابھارا کرتے تھے‘ وہی نعرے سردی کے موسم میں برف بیچنے والے کی صدا جیسے رہ گئے۔ سردی میں ’’برف لے لو برف‘‘ کی آواز پر کون کان دھرتا ہے؟پنجاب کی حد تک تو پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم‘ شدید سردی میں بیچی جانے والی برف کی طرح تھی۔ گرماگرم سودے صرف نوازشریف اور عمران خان کی دکانوں میں تھے‘ جو انتخابی گرم بازاری میں ہاتھوں ہاتھ لئے گئے۔ پیپلزپارٹی کے لیڈر اور امیدوار تو پیروں میں مہندی لگا کر گھروں کے اندر بیٹھ گئے تھے۔ صرف ٹیلیویژن اور اخبارات میں اشتہاری مہم چلائی گئی۔ مگر یہ ایسے تھی‘ جیسے گہری نیند سے کوئی اچانک ہڑبڑا کر اٹھے اور چاروں طرف خالی خالی آنکھوں سے دیکھتا ہوا پوچھے ’’کیا ہوا؟ کیا ہوا؟‘‘ پیپلزپارٹی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ کیا ہو گیا ہے؟ حکومت میں آ کر اس نے پارٹی کا دھیان رکھا ہوتا‘ تو اسے معلوم بھی ہوتا کہ کیا ہوا؟ جس پارٹی کے بڑی وزارتوں والے وزیر‘ آنے والی صدیوں کے لئے کئی نسلوں کی بھوک مٹانے پر تلے رہے ہوں‘ اسے تو ویسے ہی الیکشن کا خیال دل سے نکال دینا چاہیے۔ میں بھی کس خوش فہمی کا شکار ہوں؟ ان کے دل میں الیکشن کا خیال تھا ہی کب؟ جو وہ اسے نکالتے۔ پیپلزپارٹی کی موجودہ پلٹن کے سامنے نہ کوئی پارٹی تھی اور نہ ہی اس کا مستقبل۔ ہر کوئی اپنا اپنا مستقبل سنوارنے میں لگا رہا۔ ہمارے دوست ممتاز عالم گیلانی جیسے چند سرپھرے کونے میں بیٹھے دال چپاتی کھا کے وقت گزارتے رہے۔ وہ آج بھی اپنے لوگوں کے درمیان ہیں ۔ اقتدار اور دولت میں کھیلنے والے اپنا کھیل ختم کر کے گھروں کو جا چکے ہیں۔ ان میں سے کسی نے الیکشن کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ پارٹی کو امیدوار ڈھونڈ ڈھونڈ کے ٹکٹ دینا پڑے۔ مشکلات کے زمانے میں لاہور کے منور انجم‘ بی بی کے میڈیا ایڈوائزر ہوا کرتے تھے۔ جنہوں نے اپنے دفتر کو پارٹی کا میڈیا آفس بنا کر چلایا اور پھر یہی کام چلتا رہا۔ دفتر کا کام ٹھپ ہو گیا۔ جب حکومت آئی‘ تو بی بی شہید ہو چکی تھیں۔ منور انجم گھر بیٹھ گئے۔ بی بی کے نام پر اقتدار بٹورنے والے اس کام میں لگ گئے‘ جو ’’دونوں ہاتھوں‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ منور انجم دور کے تماشائی بن کر رہ گئے۔ انتخابات آئے‘ تو انہیں پہلی خوشخبری ملی کہ ’’آپ کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا گیا ہے۔‘‘ کسی نے یہ تک نہیں پوچھا کہ ان کے پاس زرضمانت جمع کرانے کے پیسے بھی ہیں کہ نہیں؟ کاغذات جمع کرانے کا دن آیا‘ تو منور انجم حساب لگا رہے تھے کہ بجلی اور گیس کا بل دینے کے لئے پیسے بچائوں یا کاغذات نامزدگی جمع کرائوں؟ فیصلہ بجلی اور گیس کے حق میں کرنا پڑا۔ جب وزیراور مشیر بننے والے اپنے کئی کئی گھر بھر رہے تھے‘ نوید چوہدری اس وقت اپنی پینٹ بنانے کی فیکٹری کے اڑتے اور بہتے ہوئے رنگوں کو بچانے میں لگے تھے۔ پارٹی کی خدمت میں سارے رنگ اڑ گئے اور جب پنجاب کی قیادت کو یقین ہو گیا کہ نوید چوہدری‘ فیکٹری اونر سے‘ پارٹی کے مفلس کارکن بن کر سڑک پر آ گئے ہیں‘ تو انہیں الیکشن لڑنے کے لئے ٹکٹ دے دیا گیا۔ ٹکٹ پارٹی نے دیا۔ پیسے بچوں نے دیے اور نوید چوہدری پارٹی کے دشمنوں سے ٹکرا کے پاش پاش ہو گئے۔اب وہ اپنے آپ کو تسلی دے رہے ہیں کہ ’’مستقبل ہمارا ہے۔‘‘ پیپلزپارٹی جو بہت ہی ذہین اور سمجھدار لوگوں پر مشتمل تھی‘ جس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ جس کی قیادت کی دوسری صف میں ڈاکٹرمبشر حسن‘ عبدالحفیظ پیرزادہ‘ خورشید حسن میر‘ میاں محمود علی قصوری‘ جے اے رحیم‘ محمد حنیف رامے‘ پیار علی الانا اور دیگر ان گنت پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ شامل تھے۔ ان کی جگہ جب منظوروٹو‘ مشتاق اعوان‘ حاجی چن‘ رحمن ملک‘ ڈاکٹر عاصم ‘ جہانگیراور ان کی طرح کے دوسرے ’’قلندر‘‘ آ گئے‘ تو دمادم مست قلندر ہو گیا۔ اس پارٹی کا حال دیکھئے جس کی رہنمائی میاں منظوروٹو کر رہے ہوں اور وہ اس خیال میں مست ہو کہ ’’مستقبل ہمارا ہے۔‘‘ بھٹوصاحب کی پھانسی کے بعد‘ پارٹی کے جانثاروں اور سرفروشوں نے مخالفوں کو للکارا تھا ’’ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔ تم کتنے بھٹو مارو گے۔‘‘ اس نعرے کے ساتھ ان کا جوش اور ولولہ تازہ ہو جاتا اور ان کی جدوجہد میں تیزی آ جاتی۔ لیکن جہانگیربدر اور منظوروٹو کی جہاندیدہ قیادت میں جب یہی نعرہ لگایا گیا‘ تو درست ثابت ہو گیا۔ ہر گھر سے بھٹو نکل گیا۔ الیکشن والے دن ہر گھر سے نوازشریف اور عمران خان ہی نکلے۔ ظاہر ہوا کہ بھٹو تو ہر گھر سے اسی وقت نکل گیا تھا‘ جب پیپلزپارٹی میں منظوروٹو داخل ہوئے۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد جب زرداری صاحب یہ سوچ رہے تھے کہ وہ اپنے لئے کونسا منصب منتخب کریں؟ تو میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ پاکستان میں کسی بھی سیاسی پارٹی کا سربراہ ‘ اپنے لئے وزارت عظمیٰ کا انتخاب کرتا ہے۔ آپ کے لئے بھی یہی مناسب رہے گا۔ کیونکہ سیاست صرف اسی منصب پر رہ کر کی جا سکتی ہے۔ حالات 8ویں ترمیم والے صدر کے حق میں نہیں رہ گئے۔ آپ کو یہ ترمیم ختم کرنا پڑے گی اور آپ یونانی دوا بن کر رہ جائیں گے۔ لیکن خدا جانے انہیں کیا سوجھی کہ وہ صدر بن بیٹھے۔ بچے ان کے چھوٹے تھے۔ بھٹو خاندان‘ اقتدار کی جانشینی کی جنگ میں بی بی شہید کا حریف بن چکا تھا۔ آصف زرداری‘ بی بی کے سیاسی وارث بن کر سامنے آ گئے تھے۔ اگر وہ بھی منصب صدارت کی نذر ہو جاتے‘ توپھر یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شاہ محمود قریشی ہی رہ جاتے۔ مگر یہ بھٹو کی پارٹی کیوں چلاتے؟ نتیجہ وہی ہوا‘ جو ہونا تھا۔ جب زرداری صاحب نے صدر بن کر پارٹی ‘ ضیا کے جانشینوں کے حوالے کی‘ تو وہ ملک کے دوصوبوں میں حکمران تھی۔ تیسرے صوبے میں ان کی اتحادی جماعت کی حکومت تھی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن)۔ وفاقی حکومت پیپلزپارٹی کی تھی۔ زرداری صاحب ‘ پارٹی کو بھول کر جمہوریت کے پالن ہار بن گئے۔ باقی لوگ سیاست کرتے رہے۔ وہ جمہوریت بچاتے رہے۔ جب سارا میڈیا ان کی تکابوٹی کرنے پر تلا تھا‘ میں صرف ایک نکتے پر ان کی حمایت کرتا رہا اور وہ یہ کہ جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے ہونا چاہئیں‘ خواہ وہ کسی طرح بھی ہوں۔ یہ کوشش تو کامیاب رہی۔ وفاق اور صوبوں میں جہاں جس کی حکومت تھی‘ وہ اقتدار کے مزے بھی لوٹتا رہا اور اپنی پارٹی کو متحد رکھنے کے ساتھ ساتھ منظم بھی کرتا گیا۔ملک کو اس کا آئین مل گیا۔ عدلیہ کو اس کے اختیارات اور آزادی مل گئی۔ فوج کا وقار ایک بارپھر بلند ہو گیا۔ لیکن زرداری صاحب کا ایوان صدر ‘ شاہی جھگی میں بدل گیا۔ پیپلزپارٹی والوں کو حالیہ انتخابات میں کچھ نہیں ملا۔ ایک بھرم تھا‘ وہ بھی نہ رہا۔ صرف منظوروٹو اور جہانگیربدر رہ گئے۔ ’’ایہناں دا کوئی کی وٹے؟‘‘ سندھ میں پیپلزپارٹی کو جو ووٹ ملے‘ وہ نہ پارٹی کے ہیں اور نہ ہی موجودہ لیڈروں میں سے‘ کسی کے۔ یہ ووٹ صرف سندھ کے غریب اور مفلوک الحال مردوں اور عورتوں کے ووٹ ہیں‘ جو انہوں نے بھٹو اور ان کی شہید بیٹی کے نام کی لاج رکھنے کے لئے ہدیہ عقیدت کے طور پر پیش کئے ہیں۔ اقتدار کے مزے لوٹنے والے ظالموں نے تو ان غریبوں کو بھی بھٹو کے نام سے بیگانہ کرنا چاہا۔ غریب ہوتے ہی اتنے ڈھیٹ ہیں کہ محبت اور وفا کا راستہ نہیں چھوڑتے۔ موجودہ لیڈروں نے بھٹو کو ہر گھر سے نکال دیا ہے‘ ہر جھگی سے نہیں نکال سکے۔ بھٹو جو ہر گھر سے نکلا کرتا تھا‘ اب کے صرف جھگیوں سے نکلا۔