"NNC" (space) message & send to 7575

دشمنوں کے درمیان

جمہوریت کی روایت یہی ہے کہ نئی حکومت کو پہلے 100 دن کا گریس پیریڈ دیا جاتا ہے۔ یعنی ان سو دنوں میں حکومت سے غلطیاں بھی سرزد ہو جائیں‘ تو انہیں نظرانداز کر دینا چاہیے۔ یہاںتک تو درست ہے۔ لیکن جب حکومت نے کچھ کیا ہی نہ ہو اور واقعات کے قومی زندگی پر اثرات بھی شروع ہو جائیں اور ان پر ملکی حکومت کا کنٹرول بھی نہ ہواور نتائج ملک و قوم کے لئے اچھے بھی نظر نہ آتے ہوں‘ تو گریس پیریڈ کی شرائط کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ میرا اشارہ دو بڑے واقعات کی طرف ہے‘ جو اچھی علامتیں نہیں کہلا سکتے۔ پہلا واقعہ ڈرون حملے کی صورت میں ہوا۔ سب جانتے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے نوازشریف ‘ اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈرون حملے بند کرانے کے وعدے کرتے رہے۔ ان وعدوں کے ساتھ وہ بھاری اکثریت میں عوامی ووٹ لے کر کامیاب ہوئے اور امریکہ کی طرف سے اس کامیابی پر ڈرون حملے کا تحفہ پیش کیا گیا۔ ظاہر ہے یہ سفارتی خوش ذوقی کا مظاہرہ نہیں تھا۔ اس ڈرون حملے کی آڑ میں تحریک طالبان پاکستان نے مذاکرات کی جو پیشکش کی تھی‘ اسے واپس لینے کا اعلان کر دیا گیا۔ حالانکہ ڈرون حملے میں پاکستان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اور نئی حکومت اس واضح پالیسی کے ساتھ آئی تھی کہ وہ ڈرون حملے بند کرانے کی کوشش کرے گی۔ نوازشریف جو اس وقت حکومت میں بھی نہیں آئے تھے‘ ان پر شک کیا بھی نہیں جا سکتاکہ پرویزمشرف کی طرح انہوں نے درپردہ رضامندی دے دی ہو گی۔ وہ حکومت میں تھے ہی نہیں۔ وزارت خارجہ کے ساتھ ان کا رابطہ نہیں ہوا تھا‘ جس کے ذریعے وہ کوئی پیغام پہنچاتے۔ جو امریکی نمائندے انہیں ملے تھے‘ وہ محض خیرسگالی کی رسمی ملاقاتیں تھیں۔ یہ سفارتی آداب کے منافی ہوتا ہے کہ ایک منتخب لیڈر‘ سفارتی نمائندوں کے ساتھ رازداری کی باتیں کرنے لگے۔ نوازشریف منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور دو مرتبہ امور مملکت کے نازک ترین پہلوئوں کا احاطہ کرتے رہے ہیں۔ ان سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ غیررسمی ملاقاتوں میں کوئی غیرمتعلق یا غیرذمہ دارانہ بات کریں گے۔ پہلا ڈرون حملہ امریکی سٹریٹجی کا حصہ تھا‘ جس میں پاکستان کوبہرحال ایک برا پیغام دیا گیا۔ اگر تحریک طالبان پاکستان کے عسکری ماہرین‘ ذرا بھی غوروفکر کرتے‘ تو انہیں معلوم ہوتا کہ اس حملے کے پس منظر میں طالبان اور پاکستانی حکومت کے درمیان تلخی اور دوری پیدا کرنے کا مقصد کارفرما تھا۔ ایک ایسی پاکستانی حکومت‘ جو ٹی ٹی پی کے لئے سابقہ حکومت کے مقابلے میں قدرے نرم گوشہ رکھتی ہے‘ اسے اپنے اعلانات کے مطابق پیش قدمی کا موقع دینا‘ دونوں متحارب فریقوں کے لئے دانشمندانہ اقدام ہوتا اور طالبان نے جس طرح بغیر سوچے سمجھے‘ الیکشن میں کامیاب ہونے والی نئی قیادت کے ساتھ بے رخی کا مظاہرہ کیا‘ اس کا فائدہ کس کو ہوا؟ یقینی طور پر امریکہ فائدے میں رہا۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ تحریک طالبان اور پاکستانی حکومت کے درمیان کوئی رابطہ قائم ہو۔ دوسری طرف مذاکرات کی پیش کش واپس لے کر طالبان نے امریکی مقاصد کو آگے بڑھایا۔ میں تو ایک مدت سے لکھ رہا ہوں کہ پاکستانی علاقے میں دو طرح کے طالبان سرگرم ہیں۔ امریکی طالبان اور پاکستانی طالبان۔ پاکستانی طالبان وہ ہیں‘ جو افغانستان میں جا کر کارروائیاں کرتے ہیں اور امریکی طالبان وہ ہیں‘ جو پاکستان کے مفادات پر ضربیں لگاتے ہیں۔ ان میں سوات کا مولوی فضل اللہ بھی ہے‘ جسے اتحادی افواج کے زیرقبضہ علاقوں میں نہ صرف پناہ دی گئی ہے بلکہ اسے پاکستان کے خلاف مسلسل تیاریاں کرنے اور نئی بھرتی کرنے میں ہر طرح کی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ یہ کرزئی یا فضل اللہ کے کارنامے نہیں کہ وہ پاکستان کے علاقوں میں داخل ہو کر ہماری سرحدی سکیورٹی فورسز کو بڑی تعداد میں یرغمالی بنائیں اور انہیں ہانکتے ہوئے افغانستان کے اندر لے جا کر‘ شہید کر دیں اور پھر ان کی گردنیں کاٹ کر میزوں پر سجائیں اور ان کی ویڈیوز بنا کر تشہیر کریں۔ یہ سب کچھ بیرونی افواج کی سرپرستی میں ہوتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کا ہر آپریشن‘ پاکستانی مفادات کے خلاف ہو رہا ہے۔ بے نظیربھٹو کو اسی گروہ نے قاتلانہ حملہ کر کے شہید کیا۔ اس کا واحد مقصد پاکستان کو سیاسی بحران کے اندر دھکیلنا تھا۔ وہ بحران شروع ہو جاتا اگر نوازشریف انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلے پر قائم رہتے۔ حملہ آور یہی چاہتے تھے کہ ایک قومی لیڈر کو منظر سے ہٹا دیں۔ دوسرا سیاسی عمل سے باہر ہو جائے اور پاکستان سیاسی بحران میں بری طرح سے گھر جائے اور قومی یکجہتی پارہ پارہ ہو کر ‘ پاکستان کو انتشار کے طوفان میں پھنسا دے۔ لیکن پاکستان کے خیرخواہوں کی کوششیں کامیاب رہیں اور نوازشریف نے آخری وقت پر ‘ انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر کے‘ اپنی اور حریف پارٹی دونوں کو سیاسی حقیقت کے طور پر برقرار رہنے کا موقع دیا۔ اگر نوازشریف کا بائیکاٹ برقرار رہتا‘ تو انتخابات کی مشق بے معنی ثابت ہوتی۔ آصف زرداری جنہیں اچانک اتنی بڑی سیاسی ذمہ داریوں اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا‘ تو ان کے لئے غیرہموار پاکستانی سیاست کے اندر توازن قائم کرنا ممکن نہیں تھا۔ انتخابی عمل سے عوام کا اعتماد اٹھ جاتا اور یکطرفہ طریقے سے قائم کی گئی اسمبلیاں معاملات کو گرفت میں لینے کے قابل نہ رہتیں۔ دونوں بڑی جماعتوں کے انتخابی عمل میں شریک ہونے کی وجہ سے پاکستان سیاسی عدم استحکام سے محفوظ رہ گیا‘ جو بے نظیرکے قاتلوں کا منصوبہ تھا۔ میرے دوست جانتے ہیں کہ مجھے حالیہ انتخابات کے انعقاد پر کئی شکوک و شبہات تھے اور میں کہا کرتا تھا کہ اگر انتخابات ہو بھی گئے‘ تو ان کے بعد بھی حالات میں استحکام پیدا ہونے کا امکان نہیں۔ میں نے یہاں تک بھی لکھ دیا تھا کہ حالیہ انتخابات کے بعد‘ جو سیاسی ڈھانچہ کھڑا کیا گیا ہے‘ اس کی بنیادوں میں بارود ہے‘ جو کسی وقت بھی عدم استحکام کی لہر پیدا کر سکتا ہے۔ فی الحال وہ لہر تو نہیں اٹھی لیکن تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیاں اور امریکہ کے ڈرون حملے منفی مقاصد کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ امریکیوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ نئی پاکستانی حکومت ڈرون حملے جاری رہنے کے نتیجے میںپوری طرح قدم نہیں جما سکے گی۔ اسے اپوزیشن کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عوام کے سامنے اس کی کمزوریاں ظاہر ہونے لگیں گی اور ایسی صورتحال میں ملک کو جو بڑے مسائل درپیش ہیں‘ انہیں حل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ پاکستانی معیشت کو اس وقت ایمرجنسی ٹریٹمنٹ کے لئے جن دوائوں کی ضرورت ہے‘ ان کا حصول مشکل ہو جائے گا۔ماہ رواں کے آخر میں آئی ایم ایف کی ٹیم‘ پاکستان کے مالیاتی جائزے کے لئے یہاں آ رہی ہے۔ اگر ڈرون حملوں کے پیچھے کارفرما پالیسیوں کو جانچا جائے‘ تو آئی ایم ایف کی طرف سے کسی شفابخش دواکی امید نہیں کی جا سکتی۔ علاج کی ابتدا کرنے کے لئے سب سے پہلے آئی ایم ایف کی طرف رجوع کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں۔ انٹرنیشنل ڈونرز اور عالمی مالیاتی ادارے‘ اپنے فیصلے کرنے سے پہلے‘ آئی ایم ایف کی رپورٹیں ضرور دیکھتے ہیں اور اگر آئی ایم ایف کی طرف سے منفی رپورٹ سامنے آ جائے‘ تو پھر دیگر ذرائع سے مالی سہولتیں حاصل کرنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ جن دوست ملکوں سے نئی سیاسی قیادت مدد حاصل کرنے کی امید رکھتی ہے‘ وہ آئی ایم ایف کے طرزعمل کو کس نظر سے دیکھیں گے؟ لیکن قیاس یہی ہے کہ عالمی مالیاتی فضا ہمارے لئے سازگار نہیں رہ گئی۔ بھارت کی طرف سے ابھی تک کوئی حوصلہ افزا اقدام نہیں ہوا۔ پاک بھارت کشیدگی کی موجودہ فضا‘ جو عارضی طور پر بظاہر سازگار دکھائی دے رہی ہے‘ کسی ٹھوس بنیاد سے محروم ہے۔ یہ ایک چھوٹے سے واقعہ پر بھی مسموم ہو سکتی ہے اور اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان معمول کے حالات پیدا ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیں گے تو بھی ہمارے لئے عالمی مالیاتی فضا میں بہتری نہیں آئے گی۔ابھی تک میں نے موجودہ حکومت کے کسی فیصلے پر تنقید نہیں کی۔ میں صرف ان عوامل اور واقعات کی نشاندہی کر رہا ہوں‘ جو دوسروں کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں یا ہوں گے۔ مناسب یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت اپنی ترجیحات کا تعین گزشتہ چند روز میں ہونے والے واقعات کو سامنے رکھ کر کرے۔ جو ترجیحات ابھی تک سامنے آئی ہیں‘ میرے خیال میں دوسرے ریاستی ادارے ان سے پوری طرح مطمئن نہیں لگ رہے۔امریکہ نے ‘ تحریک طالبان کے جس لیڈر کو ہدف بنایا ہے‘ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا حامی تھا اور جس جنگجو نے اس کی جگہ لی ہے‘ وہ پاکستان کے ساتھ جنگ میں شدت پیدا کرنے کے حق میں ہے۔ڈرون حملوں اور تحریک طالبان پاکستان کے انتہاپسندوں کے مابین کوئی نہ کوئی کڑی‘ کہیں نہ کہیں ضرور ملتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں