خبر کی بھنک پڑنے پر ایک صحافی‘ اس کی حقیقت جاننے کے لئے کس طرح پاگل ہوتا ہے؟ اس کا تازہ تجربہ مجھے گزشتہ روز ہوا۔ ایک اڑتی سی خبر آئی کہ کل جب لوگ گھروں میں بیٹھے ہوں گے‘ ان سے ایک ایسا ٹیکس وصول کر لیا جائے گا‘ جس کا بجٹ کی خبروں میں کہیں ذکر تک نہیں آیا۔ شاعر اپنے کسی پیارے کی تلاش میں بے تابی کی کیفیت یوں بیان کرتا ہے کہ اس کا پتہ میں نے ہر اس شخص سے پوچھا کہ جس کے نین نشیلے تھے مجھے نشیلے نینوں والوں سے تو غرض نہ تھی لیکن خفیہ ٹیکس کا پتہ پوچھنے کے لئے‘ بیتابی میری بھی کچھ اسی طرح کی تھی۔ اسی لگن میں ایک اہم شخصیت سے بھی بات کر بیٹھا کہ ’’آپ کے کافی بڑے بڑے کاروبار ہیں۔ اپنے انکم ٹیکس ایڈوائزر سے پوچھ دیجئے کہ ایسا کوئی خفیہ ٹیکس لگا دیا گیا ہے؟‘‘ اس محترم شخصیت کو بُرا لگا کہ میں اپنے لئے ان سے خبر ڈھونڈنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ بہرحال میں اپنی دھن میں لگا رہا اور آخر اسلام آباد کے رپورٹنگ سیکشن نے خبر ڈھونڈ نکالی ‘ جو آج ’’دنیا‘‘ کے صفحہ اول پر موجود ہے اور وہ یہ کہ 10لاکھ روپے سے زیادہ کے منقولہ اثاثے رکھنے والوں پر 0.5 فیصد کی شرح سے ایک ’’چور ٹیکس‘‘ ٹھوک دیا گیا ہے‘ جو بنک اکائونٹس میں سے کاٹ لیا جائے گا۔ جس نے کسی بھی بنک میں فکس ڈیپازٹ رکھا ہوا ہے‘ یہ ٹیکس بنکوں کی چھٹیوں کے دوران چپکے سے وضع کر لیا جائے گا۔ جہاں جہاں ‘ جس کی جو رقم پڑی ہے‘ خواہ وہ بچت سکیم میں ہی کیوں نہ ہو‘ اس میں سے ٹیکس کی وصولی کر لی جائے گی اور جتنے لوگ کاریں‘ یا دوسری گاڑیاں رکھتے ہیں‘ ان کی مالیت کے حساب سے نیا ٹیکس دینا پڑے گا۔ جس کے پاس 20لاکھ کی گاڑی ہے‘ اس پر 10ہزار کا نیا ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے اور اگر بنک میں کسی نے ایک کروڑ روپیہ فکس کرا رکھا ہے اور اس کی آمدنی سے 64ہزار کے قریب نفع لے کر اپنا گزاراکرتا ہے‘ اسے بھی اب 50ہزار اس مد میں دینا پڑیں گے۔آج کل چھوٹی سے چھوٹی کار بھی‘ پندرہ بیس لاکھ سے کم میں نہیں ملتی۔ اگر ہم کار کی اوسط قیمت 20لاکھ لگا لیں‘ تو اس کا مالک 10ہزار کا ٹیکس ادا کرنے کا پابند ہے۔ یہ ٹیکس انکم سپورٹ پروگرام کے فنڈ میں جائے گا اور اس کی وصولی ہر سال کی جائے گی۔ کہنے کو تو یہ بہت معمولی ٹیکس ہے۔ مگر اس شخص سے پوچھئے‘ جس کی تنخواہ پر اندھادھند ٹیکس لگا دیئے گئے ہیں اور جسے اپنی ٹیکسوں سے بچی ہوئی تنخواہ میں 17فیصد سیلز ٹیکس دے کر اشیائے ضرورت خریدنا پڑیں گی‘ اس پر اگر آپ 10ہزار کا اضافی ٹیکس بھی ٹھوک دیتے ہیں‘ تو اس بیچارے پر کیا گزرے گی؟کسی نے کہا کہ یہ ٹیکس کن لوگوں کے لئے ہو گا؟ جواب ملا کہ ’’بھوکے ننگوں کے کام آئے گا۔‘‘ جب بھوکے ننگوں کی تفصیل مانگی گئی ‘تو جواب ملا ’’یہی ایم پی اے‘ ایم این اے اور سینیٹرز۔ کیونکہ یہ فنڈز تقسیم کرنے کے لئے انہی کے حوالے کئے جائیں گے اور ان کی سپردگی میں گئے ہوئے فنڈز کہاں جاتے ہیں؟ یہ لندن‘ دبئی اور جنیوا والوں سے پوچھئے۔‘‘ بہرحال شہریوں کے ساتھ مہنگائی اور نئے ٹیکسوں کے علاوہ یہ خفیہ واردات بھی ہو گئی ہے۔ بات خبروں کی تلاش سے چلی تھی‘ تو مجھے ایک اور واقعہ یاد آ گیا‘ جو مجھ ایسے مشقتی صحافیوں کے لئے دلچسپ ہو گا۔ یہ 1967ء کا واقعہ ہے۔ میں روزنامہ ’’حریت‘‘ کراچی میں بطور فیچر رائٹر کام کر رہا تھا۔ اس زمانے میں پاکستانی اخباروں کے پاس بیرون ملک وار رپورٹنگ کے انتظامات نہیں ہوتے تھے۔ ہمیں صرف ایجنسیوں کی خبروں اور تصویروں پر انحصار کرنا پڑتا۔ عرب اسرائیل جنگ میں پاکستانی قارئین کی فطری طور پر گہری دلچسپی ہوتی ہے۔ ہم میدان جنگ کی مشاہداتی خبریں ‘ بیرونی ملکوں کے نشریاتی ذرائع سے لیا کرتے تھے‘ جس میں ٹی وی شامل نہیں تھا۔ اس وقت پاکستان ٹیلی ویژن بھی ابتدائی مرحلوں میں تھا۔ ایک دن اچانک مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ بین الاقوامی پروازوں پر قسمت آزمائی کی جائے؟ تب کراچی میں رات کے وقت‘ ہر بیس تیس منٹ کے بعد کوئی نہ کوئی انٹرنیشنل پرواز اترتی تھی۔ میں جا کر مسافروں کے باہر نکلنے والے راستے پر کھڑا ہو گیا۔ جس مسافر کے ہاتھ میں کوئی اخبار ہوتا‘ میں اس سے درخواست کر دیتا کہ اگر یہ اخبار اس کی ضرورت کا نہیں‘ تو براہ کرم وہ مجھے دے جائے۔ عموماً یہ اخبار غیرملکیوں کے پاس ہوتے تھے اور اکثر مسافر مجھے یہ تحفہ دے جاتے۔ میں دو تین اخبار اکٹھے کر کے‘ ان کا مطالعہ کرتا اور مجھے نئی نئی تصویروں کے ساتھ میدان جنگ کی خصوصی رپورٹیں بھی مل جایا کرتیں اور اگلے روز میرے اخبار میں جنگ کی تازہ ترین تصاویر اور محاذ کی رپورٹیں موجود ہوتیں۔ دو دن تو میری یہ واردات کامیاب رہی۔ تیسرے دن دو بجے صبح میں ایئرپورٹ پہنچ کر مسافروں کے باہر نکلنے والے گیٹ کے سامنے گیا‘ تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ مجھ سے پہلے‘ میرخلیل الرحمن مرحوم خود کھڑے‘ مسافروں سے اخبار لے رہے تھے۔ سارا ملک جانتا ہے کہ وہ پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے بانی تھے۔ لیکن خبر کے لئے صحافی کی جستجو میں کوئی مقام اور رتبہ خلل نہیں ڈال سکتا۔ 1958ء میں میرے صحافتی کیریئر کی ابتدا ہوئی۔ ان دنوں لائل پور کے چار اخباروں میں سب سے مضبوط اور خوشحال اخبار ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ ہوا کرتا تھا۔ اس کے مالک چوہدری شاہ دین تھے۔ یہ واحد اخبار تھا جہاں یکم تاریخ کو پوری تنخواہ مل جاتی تھی۔ ورنہ اس وقت کے بڑے بڑے اخباروں میں بھی تنخواہ قسطوں میں ملا کرتی تھی اور یہ قسطیں بھی مہینے کی 60ویں یا 70ویں تاریخ کو مکمل ہوتی تھیں۔اس زمانے میں کارکن مہینے کی 45تاریخ کو تنخواہ کی آخری قسط ملنے پرخدا کا شکر ادا کیا کرتے۔ قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم مہینوں کی تاریخیں کس طرح شمار کرتے ۔ یہ تفصیل برسبیل تذکرہ آ گئی۔ جو واقعہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ رپورٹرانہ واردات تھی۔ میں اپنے اخبار کا چیف رپورٹر (ایک ہی رپورٹر تھا۔ وہی چیف رپورٹر کہلاتا)تھا۔ لائل پور میں ایک زبردست قسم کا میلہ مویشیاں ہوا کرتا ۔ جس میں پورے علاقے کے صحت مند گھوڑے‘ بھینسیں‘ گائیں اور دیگر پالتو مویشی اور جانور لائے جاتے تھے۔ اس وقت کے وزیراعظم سرفیروزخان نون تھے۔ وہ خود بہت بڑے زمیندار تھے اور اچھے مویشیوں کی عمدہ پہچان رکھتے تھے۔ ان کے مزاج کو دیکھتے ہوئے عموماً مویشیوں کا جو بڑا میلہ لگتا‘ اس کے منتظمین سرفیروزخان نون کو مدعو کر لیتے اور وہ اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر‘ ایسے میلوں میں ضرور شریک ہوتے۔ اس دور میں ہر اعلیٰ شخصیت کا پروٹوکول مقامی پولیس کے ذمے ہوتا۔ میں نوجوان رپورٹر تھا اور ضلعی انتظامیہ میں خاص جان پہچان بھی نہیں تھی۔ میں نے میلے کے مقام پر پہنچ کر موقع پر موجود پولیس والوں سے درخواست کی کہ وہ مجھے وزیراعظم سے ملوا دیں۔ میں ان سے خبروں کے لئے ایک دو سوال کرنا چاہتا ہوں۔ کوئی درخواست لکھ کر نہیں لایا۔ مگر جونیئر پولیس افسروں نے مجھے وی آئی پی ایریا سے دور رہنے کا حکم دیا۔ اس زمانے کی سکیورٹی بہت ڈھیلی ڈھالی ہوتی تھی۔ لوگ لاہور اور کراچی کے ہوائی اڈوں پر‘ اپنے سفر کرنے والے عزیز و اقارب کے ساتھ ٹہلتے ٹہلتے جہاز کے زینے تک چلے جاتے تھے اور انہیں زینے سے جہاز کے دروازے میں جاتے ہوئے دیکھ کر ہاتھ ہلاتے اور ٹہلتے ٹہلتے واپس آ جایا کرتے۔ میلہ مویشیاں کا وی آئی پی ایریا‘ ایک بڑے سے ٹینٹ پر مشتمل تھا‘ جس کے نیچے دریاں بچھا کر صوفے لگا دیئے گئے تھے اور بڑے ٹینٹ کے اندر ایک چھوٹا سا ٹینٹ ریفریشمنٹ کے لئے لگایا گیا تھا۔ میں پولیس سے آنکھ بچا کر بڑے ٹینٹ کے اندر چلا گیا اور وہاں جب چھوٹے ٹینٹ پر نظر پڑی‘ تو میں نے قریب جا کر اس کے اندر جھانک لیا۔منظر دیکھ کے اندر گھس گیا۔ وزیراعظم کو لاہور سے بذریعہ کار لائل پور آنا اور آتے ہی ریسٹ روم کا رخ کرنا تھا۔ یہ بہت خطرے کا کام تھا۔ وہاں ایک لکڑی کے اونچے ستون پر ایک گول سا برتن پڑا تھا‘ جسے بیسن کہہ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک بڑے سٹول پر پانی سے بھرا لوٹا اور صابن رکھا تھا اور ٹینٹ کے بانس پر تولیا ٹنگا ہوا تھا۔ جب وزیراعظم اندر آئے تو مجھے دیکھ کے ہکابکارہ گئے۔ میں نے تیزی سے آگے بڑھ کر معذرت کی اور اپنا تعارف کرا کے فوراً دو سوال جڑ دیئے۔ وزیراعظم صاحب کے ماتھے پر شکن تک نہ آئی۔ انہوں نے فوراً میرے سوالوں کے جواب بھی دیئے اور مجھے تھپکی دے کر رخصت بھی کیا۔ جب میں باہر نکلا‘ تو سامنے ضلع اور صوبے کے اعلیٰ پولیس افسران اور بیوروکریٹ کھڑے تھے۔ مجھے دیکھ کر وہ اتنے حیرت زدہ ہوئے کہ کسی نے نہ کچھ پوچھا اور نہ کہا اور میں نے بھاگ کر سائیکل سٹینڈ سے اپنا سائیکل نکالا اوردفتر کی طرف تیزرفتاری سے روانہ ہو گیا۔ یہ اخبار دوپہر کے وقت شائع ہوتا تھا اورہے۔ میں نے صبح ساڑھے دس بجے ساری کارروائی مکمل کر کے وقت پر خبر دے دی۔ آج سوچتا ہوں‘ تو اپنی اس حرکت پر تعجب ہوتا ہے۔ جہاں میں وزیراعظم سے انٹرویو لینے گیا تھا‘ اسے عام حالات میں بھی بات کرنے کی جگہ نہیںسمجھا جاتا۔