"NNC" (space) message & send to 7575

زرداری صدر نہ بنتے تو……

سال رواں صدر زرداری کی سیاست کے لئے فیصلہ کن ثابت ہوتا نظر آ رہا ہے۔ آصف زرداری‘ جنہوں نے بے نظیرشہید کے بعدانتہائی ناسازگار حالات میں قیادت کا منصب سنبھالا تھا ۔ انہیں فوراً ہی انتخابی میدان میں اترنا پڑا۔ پیپلزپارٹی‘ اکثریت تو حاصل نہ کر سکی لیکن زرداری صاحب نے سوجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے‘ نہ صرف نئے نئے سیاسی اتحاد قائم کر کے ‘ قومی اسمبلی میں اکثریت بنا لی بلکہ دو تہائی ووٹروںکی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے اور میثاق جمہوریت کی بنیاد پر اپنی بدترین مخالف جماعت کو بھی ‘ تحفظ جمہوریت کے محدوددائرے میں حمایت پر آمادہ کر لیا۔یہ اتفاق رائے تمام سیاسی جماعتوں کے مشترکہ مفاد میں بھی تھا‘ ایک محدود دائرے میں یہ اتفاق ‘قومی سیاست کا تاریخی واقعہ بن گیا۔ ملک میں پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت نے اپنا عرصہ اقتدار مکمل کیا اور اس دوران آئینی ترامیم کے تاریخی کارنامے سرانجام پائے۔ ان ترامیم میں صوبائی خودمختاری اور نیشنل فنانس کمیشن کے تاریخ ساز فیصلے‘ قومی تاریخ کے یادگار واقعات رہیں گے۔ صوبائی خودمختاری اور نیشنل فنانس کمیشن کے فیصلوں کے نتیجے میں صوبوں کے دیرینہ مطالبات پورے ہو گئے اور وفاق اور صوبوں کے درمیان روایتی تکرار‘ تلخیاں اور رنجشیں پیدا ہونے کا سلسلہ باقی نہ رہا۔ بے شک یہ وسیع تر قومی مفاد میں سرانجام دیئے گئے کارنامے تھے۔ ان کا سہرا دو قومی لیڈروں‘ صدر آصف زرداری اور قائد حزب اختلاف جناب نوازشریف کے سر ہے۔ دونوں لیڈروں کو اس کی قیمت بھی چکانا پڑی۔ نوازشریف کو کم ‘ صدر زرداری کو زیادہ۔ نوازشریف کو فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ برداشت کرنا پڑا ۔ مگر وہ صبر کے ساتھ یہ الزام سنتے رہے لیکن جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے سے نہ صرف گریزاں رہے بلکہ موقع بہ موقع غیرجمہوری قوتوں اور ان کے کارندوں کے حوصلے پست کرنے کی خاطر یہ بیان بھی دیتے رہے کہ جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوا‘ تو مزاحمت کرنے والوں میں وہ سب سے آگے ہوں گے۔ جمہوریت کی حمایت کو نئی سیاسی طاقت‘ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے ہتھیار کی حیثیت سے استعمال کیا اور ان پر فرینڈلی اپوزیشن اور مل کر ’’باریاں‘‘ لینے والے سیاستدان کا الزام لگا کر ‘ مخالفانہ مہم کا ہدف بنا لیا۔ نوازشریف نے 2008ء کے انتخابات کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں کمی کر دی اور اطمینان سے آئندہ انتخابات کا انتظار کرنے لگے۔ لیکن عمران خان نے ایک سال پہلے ہی سیاسی سرگرمیاں تیز کر کے‘ نوازشریف کو میدان میں نکلنے پر مجبور کر دیا۔ بار بار کے طعنے سن کر شیر باہر نکلا‘ تو انتخابی مہم ختم ہونے تک‘ اس نے مخالفت کے سارے جھکڑوں کو لپیٹ کے‘ اپنی پارٹی کے امیدواروں کی فتح کے راستے ہموار کر دیئے۔ صدر زرداری اتنے خوش قسمت ثابت نہ ہوئے۔ ان سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ خود وزیراعظم بننے کی بجائے‘ انہوں نے اپنے لئے صدارت کا منصب پسند کیا۔ اس فیصلے کے حواری اب بھی یہ کہتے ہیں کہ وہ صدر نہ بنتے‘ تو انہیں مقدموں میں گھیرا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ شکست خوردہ ذہنیت کی عکاسی ہے۔ زرداری صاحب ‘صدر نہ بنتے تو بطور وزیر اعظم انہیں سیاسی جنگیں لڑنے کی ساری آزادیاں حاصل ہوتیں۔ صدر بن کر انہوں نے اپنے آپ کو بے دست و پا کر لیا۔ مخالفین نے ان کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ توپوں کے رخ ایوان صدر کی طرف کر دیئے اور ہر کسی نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق صدر پہ توپیں داغنا شروع کر دیں۔ میڈیا نے گریس پیریڈ کے 100 دن پورے ہونے سے پہلے ہی‘ ان کی برطرفی کا مطالبہ میدان میں اتارا اور پیش گوئیاں آنے لگیں کہ ان کی حکومت چند ہفتوں میں ختم ہونے والی ہے۔ مخالفین کے دو مہینے پسندیدہ تھے۔ جنوری میں وہ مارچ کے مہینے کی ڈیٹ دے کر پیش گوئی کرتے کہ زرداری حکومت ختم ہو جائے گی۔ مارچ خیریت سے گزرتا‘ تو اگلی پیش گوئیوں کے لئے دسمبر کا مہینہ مقرر کر دیا جاتا۔ دسمبر‘ اس حوالے سے اتنا زیربحث آیا کہ اس پر نظمیں لکھی جانے لگیں۔ مارچ اور دسمبر آتے رہے‘ جاتے رہے۔ پیش گوئی کسی کی پوری نہ ہوئی۔ لیکن پیش گوئیاں کرنے والوں کے حوصلے یا ڈھٹائی کی داد دینا چاہیے کہ وہ ایک دن بھی اپنی ناکامی پر مایوس یا شرمندہ نہیں ہوئے۔ ہر بار منہ کے بل گرتے۔ہاتھ جھٹکتے۔آنکھ بچا کر کھڑے ہوتے۔ ادھر ادھر دیکھ کے کپڑے جھاڑتے۔ ماتھے کا پسینہ پونچھتے۔ گھٹنوں اور ٹھوڑی کی چوٹیں سہلاتے اور آنے والے مقررہ مہینے کی کسی تاریخ کا تعین کر کے‘ حکومت جانے کی نئی پیش گوئی کی گردان کرنے لگتے۔ لیکن پنجابی محاورے کے مطابق ’’کوئوں کی کائیں کائیں سے‘ ڈھول نہیں پھٹتے۔‘‘ یہ مخالفین 5سال کائیں کائیں کرتے رہے۔ ان کے گلے بیٹھ گئے لیکن جمہوریت کا مست ہاتھی‘ جھومتا جھامتا اپنی روایتی سست رفتاری سے منزل کی طرف بڑھتا بڑھتا‘ انتخابی عمل میں داخل ہوا۔ نئی اسمبلیاں بنوائیں اور اپنی سونڈ کا مکا بنا کر لہراتے ہوئے‘ پھر سے اگلی منزل کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ ہاتھی کو منزل تک پہنچانے کے عمل میں نوازشریف اور ساری اپوزیشن‘ زرداری صاحب کے ساتھ تھی۔ یہ مرحلہ بخیروخوبی طے ہو گیا۔ لیکن زرداری صاحب کے لئے اصل مسائل‘ ان کے وزرائے اعظم‘ وزیروں اور مشیروں نے پیدا کئے۔ زرداری صاحب خود وزیراعظم بنتے تو ججوں کی بحالی کا اعلان کرتے ہی‘ اپنے فیصلے کا فالواپ بھی شروع کر دیتے۔ چوہدری اعتزاز احسن اور وکلا تحریک کے دوسرے نمایاں لیڈروں کو ساتھ لے کر وہ ججوں کے گھر جاتے۔ انہیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر سپریم کورٹ پہنچاتے۔ صوبوں میں یہی کام گورنرحضرات کرتے اور باہمی خیرسگالی کی ایک ایسی فضا پیدا ہو جاتی‘ جسے زرداری صاحب کی خوشگوار شخصیت بہتری کی طرف رواں دواں رکھتی۔ ایوان صدر کے پنجرے میں بیٹھ کر صدر زرداری اپنے مشیروں‘ وکیلوں اور وزرائے اعظم کے محتاج بن کر رہ گئے۔ فیصلے ان کے ہاتھوں میں نہیں رہے اور کسی دوسرے کو کیا پڑی تھی کہ وہ قانونی جنگ انہیںتحفظ دینے کے لئے لڑتا۔ ہر ایک نے اس قانونی جنگ میں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق کام کیا اور ہر قدم مسائل کو الجھاتا چلا گیا۔ قانونی جنگ کی قیادت وزیراعظم زرداری کے ہاتھ میں ہوتی‘ تو معاملات الجھ ہی نہیں سکتے تھے۔ ان کی حکومت اور پارٹی کی ساکھ کو وزرائے اعظم اور بعض وزراء اور مشیروں کی اندھی‘ بے تحاشااور ندیدی کرپشن نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ ان کی میڈیا ٹیم کسی بڑے کام کی مناسب تشہیر میں ناکام رہی۔ سوئس حکومت کو خط لکھنے کا جو معاملہ بلاوجہ الجھایا گیا‘ جب وقت آیا تو ایک ہی ملاقات میں خودسپریم کورٹ نے اس کا مسودہ منظور کر لیا اور بات ختم ہو گئی۔ زرداری صاحب خود وزیراعظم ہوتے اور عدالت میںاپنے لائق قانونی مشیروں کے ذریعے قانون کا سامنا کرتے‘ تو یہی کام ابتدائی مراحل میں ہو سکتا تھا۔ ان کے ساتھیوں اور مشیروں نے ایک چھوٹے سے معاملے کو الجھا کر ان کے سیاسی بال و پر کاٹ دیئے اور وہ قانونی چیلنجزکی بے ثمر مدافعت میں وقت ضائع کرتے رہے۔ صدارتی مجبوریوں نے انہیں پارٹی سے بھی دور کر دیا۔ خطرات کے نام پر‘ ان کی آزادانہ نقل و حرکت ختم کر دی گئی۔سیاسی رابطوں سے وہ محروم ہو گئے۔ اپنے دونوں وز رائے اعظم کی کرپشن کی کہانیاں اب وہ سن چکے ہوں گے۔ مجھے تو 3سال پہلے معلوم ہو گیا تھا کہ ایجنسیوں کی طرف سے یوسف رضاگیلانی کے کارناموں پر مشتمل کئی فائلیں صدر زرداری کو بھیجی گئی تھیں۔ اس وقت کالموں میں دو تین مرتبہ اس کا ذکر کیا۔ لیکن انہوں نے کسی انتباہ اور کارروائی کے بغیر وہ فائلیں جوں کی توں وزیراعظم ہائو س بھجوا دیں۔ میرا خیال ہے‘ انہیں یقین ہی نہیں آیا۔ وجہ یہ ہے کہ انتخابات کے بعد‘ جب میری صدر صاحب سے ملاقات ہوئی اور میں نے سابق وزیراعظم کی دل دہلا دینے والی ایک جراتمندی کا قصہ سنایا‘ تو صدر صاحب نے میری بات کا یقین نہیں کیا۔ مصیبت یہ ہے کہ وہ ابھی تک صدارتی حصار میں قید ہیں۔ کبھی موقع ملے اور وہ عام لوگوں سے ملنے جلنے لگیں‘ تو انہیں پہلا نہیں تو ملنے والادوسرا شہری‘ گیلانی خاندان کی کہانیاں سنا دے گا۔ پیپلزپارٹی کا ووٹ بنک ختم نہیں ہوا‘ وہ اپنی پارٹی کے لیڈروں کی کرپشن سے ناراض ہی نہیں‘ بیزار بھی ہے اور اتنا غصے میں ہے کہ اس بار ووٹ بھی مخالفین کو ڈال دیا۔ زرداری صاحب ‘ موجودہ عہدے کی مدت پوری کر کے‘ جب عوام میں جائیں ‘ تو پہلے مرحلے میں ووٹروں کی ناراضی ختم کرنے پر توجہ دیں۔ ان کے سیاسی اثاثے آج بھی موجود ہیں۔ لیکن بدنام زمانہ ساتھیوں کو دور ہٹا کے وہ اپنے ورکروں کے درمیان جائیں گے‘ تو پارٹی نہ صرف دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکتی ہے بلکہ ماضی کی طرح مضبوط اور منظم ہو کر انتخابی میدان میں بھی فاتحانہ شان سے داخل ہو سکتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں