یہ اس زمانے کی بات ہے جب ٹی وی کا مطلب پی ٹی وی ہوتا تھا۔ یہ کالم 3 مارچ 1986ء کو شائع ہوا تھا۔ اس زمانے میں پی ٹی وی والوں کو صدر ضیا اور وزیراعظم جونیجوکے درمیان توازن رکھنا پڑتا۔ حال میں یہی صورتحال شوکت عزیز اور پرویزمشرف کے دور میں پھر پیدا ہوئی۔ آج آئین بحال ہو چکا ہے۔ عزیزی پرویزرشید پرانی مشکلوں سے محفوظ تو شاید رہ جائیںلیکن جو تھینک لیس جاب ان کے ذمے ہے‘ اس کا مزہ ‘ جلد چکھنا شروع کر دیں گے۔ ’’بھارتی وزیراعظم مسٹر راجیو گاندھی نے شکایت کی ہے کہ دور درشن والے ان کی خواہش کے خلاف ان کی پبلسٹی کرتے ہیں۔ انہوں نے بارہا منع بھی کیا کہ باز آجائیں لیکن دوردرشن والے مانتے ہی نہیں۔ پاکستان ٹی وی والوں کا بھی حال یہی ہے۔ یہاں بھی حکمران ذاتی تشہیر کے بہت خلاف ہیں۔ انہوں نے بھی ٹیلی ویژن کو بہت منع کیا کہ ان کی پبلسٹی نہ کیا کریں۔ اس کے باوجود جو حکمران ہاتھ آیا‘ یہ کیمرے دھو کر اس کے پیچھے پڑ گئے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان ٹیلی ویژن کو ملک میں اس لئے لائے تھے کہ انہیں فائدہ ہو گا۔ ٹی وی نے اپنے اس محسن کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ بہانے بہانے اس کی شکل دکھانا شروع کر دی۔ اس وقت یہ محدود چینل تھا۔ زیادہ اثر نہ کر سکا۔ یہی وجہ تھی کہ ایوب خان کی اقتدار سے علیحدگی کے چند برس بعد ہی لوگوں کو ان کی یاد آنے لگی اور لوگوں سے زیادہ ٹرکوں کو آنے لگی۔ ہائی وے پر چلتا ہوا ہردسواں بارہواں ٹرک‘ ان کی تصویر سامنے لئے یہ گانا پڑھاتا گزرے گا تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد یحییٰ خان نے ٹی وی کا دائرہ اثر پھیلایا۔ انہیں میک اپ کا بھی شوق تھا۔ سنا ہے موصوف کئی کئی گھنٹے آئینے کے سامنے بیٹھ کر فتنہ سامانی کیا کرتے تھے۔ انہیں بھی قوم کو مخاطب کرنے کا بڑا شوق تھا۔ ٹی وی والوں نے اس شوق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کیمرہ یحییٰ خان پر جما دیا۔ وہ بھی منع کرتے تھے کہ ان کی پبلسٹی نہ کی جائے۔ ٹی وی کے لوگوں نے ان کی بھی نہیں مانی۔ معلوم نہیں ان میں اتنی دیدہ دلیری کہاں سے آ جاتی ہے؟ شاید ہی کوئی دوسرا سرکاری ملازم اتنی جرات کر سکتاہو کہ ملک کا سربراہ اسے کہہ رہا ہو کہ ’’دیکھو! میں نہیں چاہتا کہ میری پبلسٹی کی جائے‘‘ اور وہ اس کی خواہش کے خلاف یہ کام کر دے۔ بات صرف ہمت کی ہے۔ ٹیلی ویژن والے بڑی ہمت سے‘ من مانی کرتے ہیں۔ لیکن انتظامیہ کا سربراہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ دوسرے ملازمین بھی حوصلہ کریں تو اس قسم کی حرکات کر سکتے ہیں۔ حکمرانوں کا کہا ٹالنا اتنا مشکل کام نہیں۔ راجیوگاندھی کو اب تو کھلم کھلا کہنا پڑ گیا کہ دوردرشن والے ان کی نہیں مانتے۔ خدا جانے مزید کتنے حکمران اس برقی ذریعہ ابلاغ کی ستم رانیوں سے تنگ آئے ہوں اور ان کا دل چپکے چپکے جلتا ہو۔ وہ آنسو نہ بہاتے ہوں۔ فریاد نہ کرتے ہوں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خواہش کے اظہار کا فرق اصل بات ہے۔مثلاً حکمران کی کوئی ملاقات‘ میٹنگ یا دوسری سرگرمی ٹی وی پر نہ دکھائی جا سکے تو بہت سے لوگ‘ جن میں وزیراطلاعات اور سیکرٹری نشریات جیسے معززین شامل ہوتے ہیں‘ اپنی خواہشات کا اظہار کرتے ہیں جو اس قسم کی ہوتی ہیں کہ ’’کیوں نہ آپ کو برطرف کر دیا جائے۔ کیوں نہ آپ کو قید کر لیا جائے۔‘‘ وغیرہ ۔ اخلاق سب کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ انتظامی سربراہ کا اخلاق ظاہر ہے زیادہ مرصع ہو گا۔ چنانچہ وہ پبلسٹی نہ کرنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے‘ تو انداز کچھ اس قسم کا ہوتا ہے ’’آپ نے کل کی تقریب کی کوریج بہت اچھی کی۔ بھئی! سائیڈ کے زاویئے سے مجھے پکچرائز نہ کیا کرو۔ میرا ناک چھوٹا دکھائی دیتا ہے‘‘ اور پھر محفل میں موجود لوگوں پر نظر ڈال کے ’’ہاں مسٹر! ہروقت مجھے ہی نہ دکھاتے رہا کرو۔ کیا کروںجی؟ بہت کہتا ہوں مگر رکتے ہی نہیں۔‘‘ یہاں مجھے اپنی بیوی یاد آ گئی۔ ہر نئی فلم وہ شوق سے دیکھتی ہے لیکن جب عورتوں میں معتبر بن کے بیٹھی ہو تو کہتی ہے۔ ’’اے بہن! مجھے تو فلم کا ذرا شوق نہیں۔ کیوں منے میں کبھی فلم دیکھتی ہوں؟ بڑا اچھا ہے میرا بیٹا ۔ جھوٹ بالکل نہیں بولتا۔‘‘ پاکستان ٹیلی ویژن نے زیادہ ترقی جناب بھٹو کے دور میں کی۔ نہ صرف اس کا حلقہ ناظرین وسیع ہوا بلکہ رنگین بھی ہو گیا۔ ان کے احسانوں کا بدلہ ٹیلی ویژن نے یہ دیا کہ انہیں ٹی وی میں قید کر کے رکھ دیا۔ پیارے عوام‘ جو انہیں اپنے درمیان دیکھنے کے خواہش مند تھے صرف ٹی وی کے ذریعے انہیں دیکھ پاتے۔ کوئی کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو؟ اگر ہر وقت آپ کو اس کی شکل دکھائی جائے تو کتنا ہٹ ہونے لگتی ہے۔ بھٹو صاحب بھی یہ بات جانتے تھے۔ انہوں نے بھی یقینا منع کیا ہو گا کہ غیر ضروری تشہیر نہ کی جائے لیکن جب تک وہ اقتدار میں رہے ان لوگوں نے ایک نہ مانی۔ جیسے ہی انہیں اقتدار سے الگ کیا گیا ٹی وی والے ان کی خواہش کا احترام کرنے لگے…… تیری بات مانی تیرے جانے کے بعد ہر حکمران کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ جب تک وہ اقتدار میں رہتا ہے‘ ٹی وی کے لوگ اس کی خواہش کو پامال کر کے اس کی تشہیر کرتے ہیں۔ اس کا دل بھی جلاتے ہیں اور ناظرین کا بھی۔ مگر وہ چلا جائے تو اس کی خواہش اس شدت سے پوری کرتے ہیں کہ خود اپنے ادارے کا ماضی دکھاتے ہوئے اس حکمران کا حوالہ تک نہیں دیتے‘ جس نے اسے جدید عہد کی سہولتوں سے نوازا ہو۔ اب کچھ گڑ بڑ ہو گئی ہے۔ پتہ نہیں چلتا ہے کہ وزیراعظم کی خواہشات زیادہ پامال ہو رہی ہیں یا صدر کی؟ 85ء کے آئین میں توازن لا کر سب الٹ پلٹ کر دیا گیا ہے۔ ایک دن سبی کی تقریب دیکھیں تو لگتا ہے توازن وزیراعظم کی طرف ہے۔ دوسرے دن دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ توازن صدر کی طرف چلا۔ ہر روز یہی ہوتا ہے۔ توازن ادھر‘ توازن ادھر۔ توازن ادھر‘ توازن ادھر۔ گردن تھک گئی مگر پتہ نہیں چلا کہ توازن کدھر ہے۔ ہمارے ایک دوست نے ٹیلی ویژن صرف وی سی آر دیکھنے کے لئے رکھا ہے۔ اس کے اوپر ایک پلاسٹک کور ہے۔ جب وی سی آر نہ چل رہا ہو تو سکرین پر یہ کور گرا دیا جاتا ہے۔ اس کور کے اوپر سکرین کے سائز کے مطابق ایک چوکھٹا بنا ہوا ہے۔ اس میں صدر ضیاالحق کی تصویر چسپاں تھی۔ جب وی سی آر بند ہوتا ‘ تو ٹی وی کور گرا کے صدر صاحب کی تصویر سکرین کے آگے لٹکا دی جاتی اوروہ کہتے ’’پاکستان ٹی وی چل رہا ہے۔‘‘ مگر توازن کے بعد وہ پریشان ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ کور پر صدر کی تصویر لگائیں یا وزیر اعظم کی؟ میں نے مشورہ دیا کہ ’’طارق عزیز کی تصویر لگا لیں۔ بھٹو ہو‘ ضیاالحق ہو یا کوئی اور‘ طارق عزیز ہر دور میں ان ہوتے ہیں۔ ان کی تصویر ٹی وی سکرین پر لٹکا کر آپ اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ ’’پاکستان ٹی وی چل رہا ہے۔‘‘ پاکستان ٹی وی کے بارے میں میرے جذبات اپنے دوست سے مختلف نہیں مگر میں تصویروں کے چکر میں پڑنے کی بجائے سادہ طریقہ اختیار کرتا ہوں۔ جب ٹی وی دیکھنا ہو عینک اتار لی (اپنی)۔ ایک بار ریسلنگ کا پروگرام دیکھتے ہوئے میں لاتیں چلا رہا تھا کہ اچانک ٹی وی بند ہو گیا۔ میں نے جوش و خروش میں کمی کئے بغیر پوچھا۔ ’’ٹی وی کیوں بند ہو گیا؟‘‘ ’’ٹی وی نہیں واشنگ مشین بند کی ہے۔ آپ مشین کے شیشے میں کپڑے دھلتے دیکھ رہے تھے۔ ایسی حرکتیں کیوں کرتے ہیں آپ؟‘‘ بیگم نے سوال کیا۔ ایک طرف راجیو گاندھی پبلسٹی سے بیزار ہیں‘ دوسری طرف میرے یار کلدیب نیر نے لکھا ہے کہ بھارت کے جنرلوں میں پبلسٹی کی خواہش بڑھ گئی ہے۔ یہ بڑی ہی کم بخت خواہش ہے۔ بڑے بڑوں کو مغلوب کر لیتی ہے۔ آج ہی حاجی غلام احمد بلور نے اس عمر میں باچا خان کو ٹی وی پر لانے کی کوشش کی۔ فرماتے ہیں ’’ٹی وی پر ان سے مناظرہ کر لیں۔‘‘ یہ چھوٹا سا ڈبہ بڑا غضب ڈھاتا ہے۔ ان دنوں وزیروں کا موسم ہے۔ ملک میں طرح طرح کے وزیر لگے ہیں۔ ٹی وی والے کیمرے لئے بھاگے بھاگے پھر رہے ہیں۔ فصل ماشاء اللہ بہت اچھی آئی ہے۔ ساری کاریں بھر گئی ہیں۔ لیکن وزیروں کے ڈھیر پڑے ہیں۔ اللہ نے ساڑھے آٹھ سال کے صبر کا پھل بہت دیا ہے۔ ان وزیروں کی خواہش بھی یہی ہے کہ ان کی پبلسٹی نہ کی جائے۔ ٹی وی کے افسر ان کی جان بھی نہیں چھوڑتے۔ کہتے ہیں کیمرے کم پڑ گئے‘ یہاں ملکی مفاد کی پروا کون کرتا ہے؟ ہر وزیرچاہتا ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ سرگرمیاں ٹی وی پر دکھائی جائیں تاکہ پبلسٹی سے بیزاری کا اظہار کرے۔ یہاں انہیں پبلسٹی کے لالے پڑے رہتے ہیں۔ بیزاری کا اظہار کس سے کریں؟ پبلسٹی ہو تو اس سے بیزار ہوں۔‘‘