صدارتی الیکشن کے موقع پر میں نے امیدواروں کی فہرست سے‘ سرتاج عزیز کا نام نکل جانے پر ان کی ایک حالیہ کتاب ’’خوابوں اور حقائق کے درمیان‘‘ (Between Dreams and Realities)کا پھر سے مطالعہ کیا اور ان کی یادداشتوں کے کچھ حصے قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہا۔لیکن سوچا کہ الیکشن کی گرما گرمی میں سرتاج صاحب کی تلخ یادوں کی اشاعت‘ شاید مناسب نہ رہے اور فیصلہ کیا کہ یہ اقتباس الیکشن ختم ہونے پر شائع کروں گا۔کل طبیعت کافی خراب رہی۔ مجبوراً ناغہ کرنا پڑا۔ آج وہ حصے پیش کر رہا ہوں۔ یہ اقتباس عدالتی بحران ختم ہونے کے بعد کا ہے جو جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں پیدا ہوا تھا۔صدر فاروق لغاری اپنے منصب سے الگ ہو چکے تھے اور چیئرمین سینٹ جناب وسیم سجاد نے نگران صدر کی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔سرتاج عزیز کی یادداشتوں کے چند حصے پیش خدمت ہیں۔ ’’جب اس بحران کی گرد بیٹھ گئی‘ میں نے اپنے متعدد ساتھیوں سے طویل گفتگو کی۔ ہم سب نے اس پر اتفاق کیا کہ نوازشریف نے دہشت گردی کے مقدمات چلانے کے لئے ایک علیحدہ عدالتی نظام قائم کرنے کی کوشش کی‘ تو اپوزیشن کے اہم عناصر نے سمجھ لیا کہ محاذآرائی کی گنجائش پیدا ہو گئی ہے اور انہوں نے بحران کے امکان کو حقیقت میں بدلنے کے لئے سازشیں شروع کر دیں تاکہ صدر اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے اختیارات استعمال کریں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے اصرار شروع کر دیا کہ پانچ ایڈیشنل ججوں کی فوری طور سے تقرری کی جائے تاکہ سپریم کورٹ میں ججوں کی کل تعداد 17 ہو جائے۔ ظاہر ہے وہ ججوں کی تعداد پوری کر کے آئینی پٹیشن کی سماعت کے لئے فل بنچ قائم کرنا چاہتے تھے۔صدر فاروق لغاری‘ پرائم منسٹر کے اس اقدام پر ناخوش تھے۔جس کے تحت انہوں نے 13ویں ترمیم پاس کی‘ جس میں صدر کے اسمبلیاں توڑنے کے اختیار کو محدود کر دیا گیا۔‘‘ ’’3 جون 1997ء کو جب کہ 6 ماہ بعد صدر لغاری کو استعفیٰ دینا تھا‘ اس روزپارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں ایک رکن نے اچانک کھڑے ہو کرتجویز پیش کی کہ جب بھی الیکشن منعقد ہوں‘ سرتاج عزیز کومنصب صدارت کے لئے امیدوارنامزد کر دیا جائے۔ یہ تجویز میرے لئے اچانک حیرت کا سبب بنی کیونکہ اس وقت کوئی صدارتی الیکشن ہونے نہیں جا رہا تھا۔ لیکن اس تجویز کا اراکین کی طرف سے بھرپور خیرمقدم کیا گیا۔بعد میں اس موضوع پر کوئی بات نہ ہوئی۔ اگلے روز چند اخباروں میں ایک چھوٹی سی خبر آ گئی کہ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی میں یہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ اگلے صدارتی الیکشن میں سرتاج عزیز ‘ مسلم لیگ کی طرف سے امیدوار ہوں گے۔ ظاہر ہے یہ صدر فاروق لغاری کو پیغام دینے کا ایک بھدا طریقہ تھا۔ اس کے تھوڑے ہی دنوں بعد 2دسمبر 1997ء کو صدر فاروق لغاری نے استعفیٰ دے دیا اور اخباروں میں آئندہ کے صدارتی امیدواروں کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہوئیں۔ بہت سے بااثر ممبران قومی اسمبلی نے‘ جن میں چوہدری نثار علی خان اور الٰہی بخش سومرو شامل تھے‘ میرے امیدوار بنائے جانے کی حمایت کی اور بالواسطہ یہ دلائل بھی دیئے کہ صدر اور چیئرمین سینٹ دونوں ہی پنجاب سے ہیںاور قومی اسمبلی کے سپیکر سندھ سے۔ لہٰذا صدر کو کسی چھوٹے صوبے سے ہونا چاہیے۔بہت سے اخباروں نے بھی مجھے امیدوار بنانے کی تجویز کے حق میں دلائل دیئے۔ لیکن امیدوار کا انتخاب کرنا صرف ایک آدمی کے اختیار میں تھا اور وہ تھے وزیراعظم نوازشریف۔ اکرام سہگل نے اپنے ایک انگریزی مضمون بعنوان \"Who Is Who In The Presidential Race\" میں لکھا ’’سرتاج عزیز ایک بیوروکریٹ ‘ ٹیکنوکریٹ‘ قانون ساز‘ وزیر رہ چکے ہیں اور اب سیاستدان ہیں۔ یہ ساری ذمہ داریاں ادا کرنے کے دوران‘ انہوں نے ایک ایمانداراور مضبوط شخص کی حیثیت سے شہرت پائی۔ سرتاج عزیز روزمرہ کی سیاست میں کبھی ملوث نہیں ہوئے اور صاف ستھرے انداز میں سیاست کی۔ انہوں نے اپنے لئے کبھی لابنگ نہیں کی‘ جیسا کہ دوسرے کر رہے ہیں۔ وہ ایک آزمودہ انسان ہیں‘ جو سیاسی عمل کے ذریعے آگے بڑھے۔ منصب صدارت کے لئے انتہائی موزوں رہیں گے۔ سرتاج عزیز ایک محب وطن شہری ہیں۔ وہ ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر اپنے ملک کی خدمت انجام دیں گے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ سارے بااثر سیاسی گروپ اس مثالی پاکستانی شہری کو ملک کا صدر بنانے کی حمایت کریں گے۔‘‘ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وزیراعظم اس معاملے میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیرکرامت سے بھی بات کر چکے ہیں۔ مختلف امیدواروں کے نام بھی دونوں کے زیرغور آئے۔ وزیراعظم کے سامنے 15 امیدواروں کی جو فہرست پیش کی گئی‘ اس میں میرا نام سرفہرست تھا۔ اس دوران وزیراعظم‘ دوسری سیاسی پارٹیوں سے مشاورت کرتے رہے۔لیکن انہوں نے اپنے پسندیدہ نام کا کسی سے تذکرہ نہیں کیا۔ لیکن وزیراعظم ایک ایسی شخصیت کے بارے میں سوچ رہے تھے‘ جو زیادہ اہمیت کی حامل بھی نہ ہو اور ان کی وفادار رہے۔ 15دسمبر کو 9 بجے شب وزیراعظم نے اپنے منتخب شخص کا نام بتا کر وہاں پر موجود سب لوگوں کو حیران کر دیا۔ انہوں نے 3 سیاستدانوں کو مدعو کیا تھا۔ غوث علی شاہ‘ گوہر ایوب خان اور میں۔ میں نے کہا ’’ہم تمام آپ کے اعتماد پر پورا اتریں گے۔ میں نے گزشتہ 12برس کے دوران انتہائی خلوص کے ساتھ پارٹی کی خدمت کی ہے۔ ‘‘ وزیراعظم خاموش ہو گئے اور تھوڑی دیر کے بعد بولے ’’وزیرخزانہ! آپ میرے اصلاحاتی پروگرام میں انتہائی اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر آپ کو صدر بنا دیا گیا‘ تو مجھے آپ جیسا وزیرخزانہ نہیں مل سکے گا۔‘‘ اتفاق کی بات ہے کہ امیدواروں کی جو فہرست وزیراعظم نے فراہم کی تھی‘ اس میں رفیق تارڑ کا نام نہیں تھا۔18دسمبر کو رفیق تارڑ کے کاغذات نامزدگی ‘ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر نے مسترد کر دیئے تھے۔ کیونکہ چند اخبارات نے انہیں عدلیہ میں جوڑتوڑ کا مرتکب قرار دیا تھا۔ لیکن لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی بنچ جس کی سربراہی جسٹس ملک محمد قیوم کر رہے تھے‘ نے الیکشن کمشنر کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس طرح رفیق تارڑ امیدوار بن گئے۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جب جنرل پرویزمشرف نے نوازشریف کو حراست میں لے کر اقتدار پر قبضہ کیا‘ تو اس وقت اخبارات میں وزیراعظم کے اس فیصلے پر بحث چھڑ گئی کہ انہوں نے رفیق تارڑ کو صدر کیوں بنایا؟یہ دلیل بھی سامنے آئی کہ رفیق تارڑ کی جگہ کوئی دوسرا صدر ہوتا‘ تو وہ جنرل مشرف کے برطرفی کے آرڈر پر دستخط کرنے سے پہلے وزیراعظم کو مشورہ دیتا کہ جنرل مشرف کی سری لنکا سے واپسی کا انتظار کر لیا جائے اور جب وہ آ جائیں‘ تو صدر‘ وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف مل کر اختلافات ختم کرنے کا کوئی راستہ نکال لیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔‘‘ یہ تو آپ نے پڑھ لیا کہ وزیراعظم نوازشریف نے بطور وزیرخزانہ سرتاج عزیز کو کس طرح ناگزیر قرار دیا تھا۔ اب ایک اور اقتباس پیش خدمت ہے۔ ’’مجھے وزارت خزانہ سے ‘ وزارت خارجہ میں کس طرح بھیجا گیا؟ اس پر میڈیا میں دلچسپ بحث چلی۔ مجھے اگست 1998ء میں وزارت خارجہ کی ذمہ داریاں دی گئی تھیں۔ یہ جنوری 1998ء کا واقعہ ہے کہ میں ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کی میٹنگ کے وقت وزیراعظم کے ساتھ تھا۔ نیویارک میں وزیراعظم کی جو دوطرفہ میٹنگیں ہوئیں‘ ان میں ایک میٹنگ یو این میں امریکہ کے مستقل نمائندے رچرڈسن کے ساتھ ہوئی۔ گفتگو کے دوران رچرڈسن نے افغانستان کی صورتحال کے بارے میں سوال کیا۔ نوازشریف نے مجھے جواب دینے کے لئے کہا۔ جب ہم میٹنگ کے بعد کار میں واپس جا رہے تھے‘ نوازشریف نے میرے دیئے ہوئے جواب کی تعریف کی اور کہا ’’میرے خیال میں کابینہ میں اگلی تبدیلیوں کے وقت آپ کو وزیرخارجہ بنایا جائے‘‘۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ’’آپ کی ٹیم کے ایک رکن کی حیثیت سے‘ آپ جو بھی ذمہ داری مجھے دیں گے‘ میں اسے خلوص دل سے نبھائوں گا۔ لیکن صرف چند ماہ پہلے آپ نے مجھے صدر پاکستان بننے کا اعزاز نہیں دیا۔ اس وقت آپ نے کہا تھا کہ آپ کو میری جگہ لینے کے لئے کوئی وزیرخزانہ نہیں ملے گا۔‘‘ اس پر نوازشریف قدرے سراسیمہ ہوئے اور فوراً ہی کہا ’’وہ بھی درست تھا۔‘‘ اتنی دیر میں وہ جگہ آ گئی ‘ جہاں ہمیں لنچ کے لئے پہنچنا تھا۔ یہ سوال ایک مرتبہ پھر مئی 1998ء میں زیربحث آیا۔ ‘‘ سرتاج عزیز لکھتے ہیں کہ اس مرتبہ اچانک وزیراعظم نے سرتاج عزیز سے پوچھا ’’وہ بتائیں کہ بطور وزیرخزانہ آپ کی جگہ لینے کے لئے کون موزوں رہے گا؟‘‘ اور پھر خود ہی یہ پوچھاکہ ’’حفیظ پاشا کیسے رہیں گے؟‘‘ ظاہر ہے سرتاج عزیز ابھی تک سوچ رہے ہوں گے کہ ان کے لئے وزیراعظم نے مستقبل میں کونسا منصب سوچا ہو گا؟‘‘