"NNC" (space) message & send to 7575

ٹائمنگ کا فرق

کسی بھی معاملے میں‘ ٹائمنگ کی اہمیت کیا ہوتی ہے؟ اس کا اندازہ وزیراعظم نوازشریف کی حالیہ تقریر سے ہوا‘ جو انہوں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے 98دنوں کے بعد کی۔ اگر وہ اپنے سابق ریکارڈ کے مطابق وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی‘ اپنی پہلی تقریر کر دیتے‘ تواس کا اثر اور ہوتا اور 74 دنوں کے بعد تقریر کا اثر جو ہوا‘ وہ آپ کے سامنے ہے۔ حلف اٹھاتے ہی تقریر کرنے میں فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنا ایجنڈا(اگر کوئی ہو) اس یقین کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں کہ کسی کے پاس اس پر شک کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ صرف امیدیں ہی امیدیں پیدا ہوتی ہیں اور عوام مجبور ہوتے ہیں کہ وقت کا انتظار کریں۔ اقتدار میں دو اڑھائی مہینے گزار لینے کے بعدیہ سہولت باقی نہیں رہتی۔ پھر لوگ توقع کرتے ہیں کہ آپ نے ساٹھ ستر دنوں میں یقینا کچھ کر لیا ہو گا اور اب اپنے کام کا ریکارڈ لے کر‘ عوام کے سامنے آئے ہیں۔ وزیراعظم کی نئی تقریر کے ساتھ یہی ہوا۔ یہ تقریر پہلے دن کرنے والی تھی اور کی گئی 74ویں دن۔اسے کہتے ہیں ٹائمنگ کا فرق۔ خود نوازشریف کا اپنا ریکارڈ یہ بات سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ 1997ء کا الیکشن 3 فروری کو ہوا۔ وزارت عظمیٰ کا حلف 17فروری کو اٹھایا گیا۔ گویا نوازشریف کے پاس اپنے ایجنڈے کی تیاری کے لئے 15 دن سے بھی کم کا وقت تھا۔ ان 15دنوں میں انہوں نے پہلی تقریر کے لئے جو تیاریاں کیں‘ ان میں بہت سی اصلاحات کے اعلان کا فیصلہ کیا گیا۔ تقریر میں فیصلوں کا اعلان ہی نہیں کیا گیا۔ اگلے ہی دن ان پر عملدرآمد بھی کر دیا گیا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‘ اعلان کردہ فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے جو احکامات جاری کئے گئے‘ ان کی تعداد 64 تھی۔ گویا عوام کو پتہ چلا کہ دوتہائی اکثریت سے منتخب ہونے والے وزیراعظم کے عزم و ارادے کی کیفیت کیا ہے؟ اور ان کے کام کرنے کی رفتار کیا ہو گی؟ یہ تھا 1997ء کے وزیراعظم نوازشریف کا عوام سے پہلا خطاب اور اس کے ٹھوس اثرات۔ گزشتہ کل کے خطاب کی صورتحال کچھ یوں تھی کہ 11 مئی کو عام انتخابات کے نتائج آنے لگے‘ تو نوازشریف بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے نظر آئے۔ رات تک واضح ہو گیا تھا کہ وہ ملک کے وزیراعظم بننے جا رہے ہیں۔ 5 جون کو انہوں نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔ گویا منتخب ہونے کے 24 دنوں کے بعد۔ ان کے پاس اپنے ایجنڈے کو حتمی شکل دینے اور اس پر عملدرآمد کی تیاریاں کرنے کے لئے 24 دن دستیاب تھے۔ لیکن حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے عوام کو فوراً اعتماد میں لینے کی اپنی ہی پرانی روایت پر عمل سے گریز کیا۔ اگر وہ حلف اٹھاتے ہی‘ عوام سے خطاب کر دیتے‘ تو وہ مستقبل کے بارے میں اپنے عزائم اور ارادوں کا کسی حساب کتاب کے بغیر اعلان کر سکتے تھے۔ ان کی شہرت ایک کام کرنے والے لیڈر کی تھی۔ انہوں نے پچھلے دونوں ادوار میں عملی طور پر کام کر کے دکھائے ہوئے ہیں۔ اپنی اس شہرت اور ریکارڈ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ بے یقینی کے شکار عوام میں نیا اعتماد پیدا کر سکتے تھے۔قوم جن بحرانوں میں گھری ہوئی ہے‘ لوگوں کو اس کا پورا اندازہ تھا۔ وہ اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کے لئے ایک سال کی مہلت بھی مانگتے‘ تو عوام بڑی خوشی سے انہیں یہ مہلت دیتے اور مستقبل پر یقین رکھتے ہوئے‘ اچھے دنوں کا انتظار کرنے لگتے اور یہ ایک سال کچھ کر دکھانے کے لئے بہت تھا۔ مگر انہوں نے فوراً عوام کو اعتماد میں لینے کا موقع استعمال نہیں کیا۔ اس کے برعکس عوام کو 74دن تک امیدوبیم کی کشمکش میں مبتلا رکھا۔ اس کشمکش کا اندازہ آپ خبروں اور میڈیا میںآنے والے تبصروں سے کر سکتے ہیں۔ ہر کوئی حیرت کا اظہار کر رہا تھا کہ وزیراعظم‘ عوام کو اعتمادمیں کیوں نہیں لے رہے؟ اور پھر بجا طور پر یہ توقعات پیدا ہونے لگیں کہ وزیراعظم ‘ قوم سے خطاب کرنے میں اس لئے تاخیر کر رہے ہیں کہ وہ کچھ کرنے کے بعد‘ عوام کے سامنے جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اب یہ تقریر نئے وزیراعظم کی نہیں تھی۔ یہ تقریر 24 دنوں تک تیاریوں کی مہلت اور اقتدار سنبھالنے کے بعد اڑھائی مہینے تک اصلاحات نافذ کرنے کا وقت حاصل کرنے کے بعد کی گئی تھی۔ گویا عوام جس تقریر کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے‘ وہ اس میں ایسے اعلانات سننے کی امید رکھتے تھے‘ جن پر عملدرآمد کی اطلاع دی جاتی۔ مگر جو تقریر کی گئی وہ ایسی تھی‘ جیسے وزیراعظم نے ایک ہی دن پہلے حلف اٹھایا ہو اور وہ عوام سے وعدے کر رہے ہوں کہ آنے والے دنوں میں وہ کیا کرنے جا رہے ہیں؟ مگر اس تقریر میں ایک بھی فیصلہ‘ ایسا نہیںسنایا گیا جس پر اگلے ہی دن عملدرآمد کا حکم جاری کیا جا سکتا ہو۔ ریاستی پالیسیوں کے حوالے سے جن تبدیلیوں کے اعلانات کئے گئے‘ بے شک وہ بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر ان کا اعلان حلف اٹھاتے ہی کر دیا جاتا‘ تو عوامی توقعات کی کیفیت اور ہوتی۔ لیکن اقتدار کے 74دنوں کے دوران صورتحال میں بڑی تبدیلیاں آ گئیں۔ مثلاً اگر یہ اعلان وزیراعظم پہلے ہی دن کرتے کہ ’’دہشت گردی ختم کرنے کے لئے مذاکرات کریں گے یا طاقت کا استعمال۔‘‘ یہ بہت بڑا اعلان ہوتا۔ اس سے نہ صرف عوام کے حوصلے بلند ہوتے بلکہ اعتماد بھی پیدا ہوتا کہ حکومت فیصلہ کن موڑ پر آ گئی ہے۔ لیکن اب اس اعلان میں عزم کی پختگی‘ مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی۔ کیونکہ نوازشریف کے وزیراعظم بننے کے بعد‘ دہشت گردوں نے کئی وارداتیں کر دی ہیں۔ مذاکرات کے لئے وہ اپنی پیش کش واپس لے چکے ہیں۔ دہشت گردی کی بڑی بڑی وارداتیں کر کے انہوں نے حکومت کو چیلنج کر دیا ہے۔اب ’’مذاکرات یا طاقت‘‘کی چوائس ہی موجود نہیں۔ مذاکرات ممکن ہوتے‘ توشروع ہوچکے ہوتے۔ اب تو صرف طاقت کا استعمال رہ گیا ہے۔ کل کی تقریر میں اگر وزیراعظم دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا اعلان کرتے‘ تو بات بن سکتی تھی۔ اسی طرح وزیراعظم نے انتخابی مہم کے دوران بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کا جو اعلان کیا تھا اگر وہ حلف اٹھاتے ہی اپنے پہلے خطاب میں اس عزم کا اعلان کرتے‘ توعوام ایک بہت بڑی تبدیلی کی توقع کر سکتے تھے۔ مگر اب بھارت میں موڈ اور حالات دونوں بدل چکے ہیں۔ وہاں کا میڈیا‘ اپوزیشن اور بااثر حلقے ‘ پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم کو بھڑکا رہے ہیں اور لائن آف کنٹرول پر روزانہ بھارتی فوجیں گولہ باری کر رہی ہیں۔ موجودہ ماحول میں بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کا اعلان امید خام معلوم ہوتا ہے۔اس اعلان کو کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھنا مناسب ہوتا۔بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے حق میں بات کرتے ہوئے‘ انہوں نے بھارتی قیادت کو احساس دلایا کہ ماضی کی جنگوں نے ہمیں برسوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ مگر دانش مندی کی یہ بات ایسے وقت میں کی گئی‘ جب بھارت ہم پر آگ برسا رہا ہے۔ اسی طرح قوم سے خطاب میں وزیراعظم نے خارجہ پالیسی پر نظرثانی کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی سلامتی کو درپیش مسائل اور دیگر قومی مسائل خارجہ پالیسی سے کسی نہ کسی طرح منسلک ہیں۔ یہ تشخیص اور خارجہ پالیسی پر نظرثانی کا اعلان امید افزا باتیں ہیں۔ یہی باتیں اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد کی جاتیں‘ تو ان کا اثر اورہوتا۔ 74 دنوں کے بعد تو وزیراعظم کو یوں اعلان کرنا چاہیے تھا کہ انہوں نے خارجہ پالیسی میں کونسی تبدیلیوں کا فیصلہ کیا ہے؟ اس تقریر کا مجموعی جائزہ لیا جائے‘ تو یہ ایک بہت اچھی تقریر ہے۔ مگر یہ سطور پڑھ کے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ٹائمنگ کا فرق کیا نتائج پیدا کرتا ہے؟ رات میں نے دنیا نیوز چینل کے ایک پروگرام میں‘ تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے انہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ آج ساڑھے 12 بجے مجھے لاہور کے ٹیلیفون نمبر 38853333سے ایک کال موصول ہوئی‘کال کرنے والے نے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کا نام لیتے ہوئے دریافت کیا کہ کیا میں نے رواں برس میں علامہ اقبال ٹائون میں کسی جائیداد کی رجسٹری کرائی ہے؟ ظاہر ہے میں نے وہاں کوئی رجسٹری نہیں کرائی لیکن پیغام پہنچ گیا۔ فوجی آمروں کی مہربانیاں تو بہت برداشت کی ہیں۔ جس جمہوریت کے لئے میں نے عمربھر جدوجہد کی‘ اس کا پھل بھی ‘ چکھنا پڑے گا؟ یہ مجھے معلوم نہ تھا۔ اپنے انجام کا منتظر ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں