لائن آف کنٹرول کی صورتحال کو ‘ محض سرحدی جھڑپیںسمجھ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ اس طرح کے معاملات پر فیلڈ کمانڈروں کے مابین ہنگامی رابطوں اور مذاکرات کا نظام موجود ہے اور جب بھی کوئی حادثاتی یا اتفاقیہ صورتحال پیدا ہوتی ہے تو دونوں طرف کے کمانڈرز‘ باہمی رابطوں کے ذریعے سٹیٹس کو بحال رکھنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اب قریباً دو ہفتوں سے مسلسل لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ لیکن صورتحال کو معمول پر لانے کے لئے دستیاب انتظامات سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ جس کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔اس نتیجے تک پہنچنے کے لئے کسی تفتیش اور خفیہ اطلاعات کی ضرورت نہیں۔ سب کچھ کھلم کھلااور واضح طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ کشیدگی کی موجودہ لہر ‘ بھارت کی طرف سے پیدا کی گئی اور اب وہی اس میں شدت پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ اس کا پس منظر جاننے کے لئے ہمیں بھارت کے اندر ‘ طاقتوں کے تبدیل شدہ توازن کا جائزہ لینا ہو گا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران بھارت کی فوج کا فیصلہ سازی کے معاملات میں بڑھتا ہوا عمل دخل انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پہلے یہ سب کچھ اندرون خانہ ہوا کرتا تھا‘ جو کہ معمول کی بات ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں سکیورٹی کی پالیسیاں تیار کرتے وقت‘ فوج سے نہ صرف مشاورت کی جاتی ہے بلکہ اس کی طرف سے پیش کردہ تجاویز کو پالیسی سازی کے عمل میں استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ایک نظام کے تحت رازداری کے ساتھ ہوتا ہے۔ حتمی پالیسیاں بہرحال حکومتیں تیار کرتی ہیں اور فوج سیاستدانوں کی طرح اپنی کارکردگی کے اس حصے کو عوام کے سامنے نہیں لاتی۔ گزشتہ چند برسوں سے بھارتی فوج نے پرانی روایت توڑتے ہوئے‘ دفاعی پالیسیوں کے معاملات میں پبلک پوزیشن لینا شروع کر دی ہے۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‘ اس کی ابتدا وزیراعظم من موہن سنگھ کی اس پیش کش سے ہوئی‘ جو انہوں نے سیاچن کا دورہ کرتے ہوئے‘ پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم سیاچن کو امن کا گلیشیئر بنانے کے لئے تیار ہیں اور اس مقصد کے لئے دونوں ملکوں کو گلیشیئر سے اپنی فوجیں واپس بلانے پر غور کرنا چاہیے۔ یہ تجویز نئی نہیں تھی۔ راجیوگاندھی‘ بے نظیربھٹو کے پہلے دور میں ‘ اسی طرح کی پیش کش کر چکے تھے۔ یہ بات میڈیا میں آ گئی تھی لیکن اس وقت بھارتی فوج کی طرف سے کسی طرح کی رائے زنی نہیں کی گئی۔ اس وقت تک اگر یہ تجویز فوج کو قبول بھی نہیں تھی‘ تو اس نے رازداری کی روایت برقرار رکھتے ہوئے‘ اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت فوج ‘سیاچن کو غیرفوجی علاقہ قرار دینے پر رضامند تھی۔ لیکن جب وزیراعظم من موہن سنگھ نے یہی تجویز دہرائی‘ تو فوج کے سربراہ نے فوراً ہی علیحدہ پوزیشن لیتے ہوئے‘ اختلاف کا اظہار کر دیا۔ یہ اس امر کا ثبوت تھا کہ بھارتی فوج ‘ سیاچن اور مقبوضہ کشمیر کے معاملات کو‘ سیاستدانوں پر چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ہر فوج کی طرح ‘ بھارتی فوج بھی اپنے پڑوسیوں کے بارے میں ‘ اپنی ایک سوچ رکھتی ہے۔ پہلے یہ سوچ بیرکوں تک محدود رہتی تھی۔ لیکن اب یہ معاملہ فوج کے دائرہ اختیار میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔ میں صرف قیاس کر سکتا ہوں کہ ایسا کارگل ایڈونچر کے نتیجے میں ہوا۔ وزیراعظم واجپائی کے دورہ لاہور کے موقع پر‘ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم نے برصغیر میں ایٹمی اسلحہ آ جانے کے بعد کی صورتحال میں پرامن بقائے باہمی کا جو عہد کیا تھا‘ وہ برصغیر کی تقدیر بدل دینے والا فیصلہ تھا۔ یقینی طور پر بھارت کے انتہاپسندوں اور فوج نے اسے خوش دلی سے قبول نہیں کیا ہو گا۔ لیکن اس وقت کی سیاسی فضا میں اعتدال پسندی اور امن کی خواہش غالب تھی اور دونوں ملکوں کے سمجھدار اور ہوشمند گروپ یہ سمجھ رہے تھے کہ ایٹمی طاقتیں بننے کے بعد کشیدگی اور جنگ کا راستہ چھوڑ کر‘ امن کی طرف بڑھنا ہو گا۔ بدقسمتی سے دو تین پاکستانی جنرلوں نے کارگل کا ایڈونچر کر کے‘ صورتحال کا رخ بدل دیا۔ واجپائی جو ایک تاریخ ساز فیصلہ کر کے‘ بڑی سیاسی قوت بن گئے تھے‘ انہیں بھارت کے مستقبل بین حلقوں اور عالمی رائے عامہ کی بھرپور تائید حاصل ہو گئی تھی اور پاکستان کی امن پسندی دیکھ کر‘ ہمارے بارے میںعالمی برادری کا نکتہ نظر تبدیل ہونے لگا تھا۔ اس ایڈونچر نے چند لمحوں کے اندر‘ سارا منظر بدل کے رکھ دیا‘ جس پر واجپائی کو کہنا پڑا کہ ’’پاکستان نے میری پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا ہے۔‘‘ وہ سچے تھے۔ انہوں نے انتہاپسندوں کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ پاکستان کے ساتھ امن کا جو عہد کیا تھا‘ وہ ایک انفرادی ایڈونچر کی وجہ سے‘ واجپائی کے لئے بوجھ بن گیا اور وہ انتہاپسندوں کے مقابلے میں کمزور پڑنے لگے۔ میرا خیال ہے یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ تھا‘ جس کے بعد وہ سنبھل نہیں پائے اور شاید سیاست سے بھی بیزار ہو گئے۔ غور سے دیکھا جائے‘ تو اسی وقت سے بھارت میں انتہاپسندی زور پکڑنے لگی۔ یقینی طور پر اس کے پیچھے فوج کا ہاتھ بھی ہو گا۔ اس کے بعد بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جانے لگا۔ دہشت گردی کے کئی واقعات کے پیچھے بھارتی ایجنسیوں کی سازشوں کے انکشافات بھی سامنے آنے لگے۔ گودھرا کا واقعہ ہوا‘ جس کے نتیجے میں نریندر مودی نے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی اور وہ بھارت کی ملکی سیاست میں نمایاں ہونے لگا۔ آج وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے کا امیدوار بن کر سامنے آ رہا ہے۔ بھارت کی مسلح اور تنگ نظر ہندو تنظیموں کے پیچھے بھی یقینی طور پر فوج کا ہاتھ نظر آتا ہے اور وہ بی جے پی کی حمایت میں سرگرم ہیں۔ مودی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بننے کے معاملے میں بھی یہی تنظیمیں پیش پیش ہیں۔جب وزیراعظم من موہن سنگھ نے شرم الشیخ میں پاکستان کے وزیراعظم سے بلوچستان کے معاملے پر ایک یادداشت وصول کی‘ تو بھارتی میڈیا اور پارلیمنٹ میں جو شور اٹھایا گیا‘ وہ اتنا زوردار تھا کہ وزیراعظم من موہن سنگھ کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس وقت نظر آگیا تھا کہ اب شدت پسند قوتیں‘ اعتدال پسندی پر حاوی ہونے لگی ہیں۔ اس کی تازہ مثال لائن آف کنٹرول پر شروع ہونے والی نئی کشیدگی ہے۔ بھارتی حکومت نے لائن آف کنٹرول پر 5بھارتی فوجیوں کی ہلاکت پر معمول کا ردعمل ظاہر کیا۔ لائن آف کنٹرول پر ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ میں نے کالم کی ابتدا میں ہی عرض کر دیا تھا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے‘ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی رابطوں کا ایک نظام موجود ہے‘ لیکن اس مرتبہ اسے حرکت میں آنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ فوج کی درپردہ حمایت کے ساتھ میڈیا اور انتہاپسند سیاستدانوں نے‘ حکومت پر بھرپور یلغار کر دی اور چند گھنٹوں کے اندر حکومت کو روایتی پوزیشن سے پیچھے ہٹتے ہوئے‘ انتہاپسندوں کا ڈکٹیٹ کیا ہوا موقف دہرانا پڑا۔ ہلاکتوں کی ذمہ داری براہ راست پاکستانی فوج پر ڈال دی گئی۔ اسی پر بس نہیں ہوئی۔ ان ہلاک ہونے والے فوجیوں کی آخری رسومات کو میڈیا پر یوں نمایاں کیا گیاکہ عوام میں اشتعال پیدا ہواور اس اشتعال کی کیفیت میں اتنی شدت تھی کہ بہار کے ایک صوبائی وزیرنے فوج کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا ذکر کیا‘ تو اس کے خلاف طوفان کھڑا کر دیا گیا اور اسے معافی مانگنا پڑی۔ حکومت‘ جس نے اس واقعہ کو معمول کی کارروائی تصور کیا تھا‘ اسے ہزیمت اٹھا کراپنے آئینی اختیارات سے دستبردار ہونا پڑا اور وزیردفاع نے اعلان کیا کہ لائن آف کنٹرول کے معاملات پر فیصلے کرنے کا اختیار فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اس اعلان کے فوراً ہی بعد بھارت نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں شروع کر دیں اور تازہ واقعہ میں پاک فوج کے ایک کیپٹن کو بھی شہید کر دیا گیا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ ان پے درپے واقعات پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرا چکی ہے‘ لیکن تاحال بھارت کی طرف سے کسی جواب کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ پاکستان کے وزیراعظم ابھی تک تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ لیکن ہمارے ملک میں بھی انتہاپسندوں کی کمی نہیں۔ بھارت کا یہی طرزعمل جاری رہا‘ تو جوابی ردعمل پیدا ہونا لازم ہے اور پاکستان کے منتخب وزیراعظم کو امن پسندی کے باوجود ‘ انتہا پسندوں کے دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا۔