اگرآپ نیشنل سکیورٹی کے موضوع پر سیاسی بیانات‘ ماہرین کے تبصرے اور میڈیا پر آنے والی خبروں کو دیکھ کر‘ نیشنل سکیورٹی کونسل کی ہئیت کو سمجھنے کی کوشش کریں‘ تو وہ کچھ اس طرح کی ہو گی‘ جیسے چار اندھوں نے ہاتھی کو ٹٹول کر بیان کی تھی۔ جس نے ہاتھی کی ٹانگ کو چھو کر دیکھا‘ اس کا بیان تھا ’’ہاتھی ستون کی طرح ہوتا ہے۔‘‘ جس کے ہاتھ میں دم آئی تھی‘ اس نے بیان دیا’’ہاتھی چمڑے کے ڈنڈے جیسا ہوتا ہے۔‘‘ سونڈ پر ہاتھ مارنے والے نے رائے دی ’’ہاتھی اژدھے جیسا ہوتا ہے۔‘‘ اور جس کے ہاتھوں میں کان آیا تھا‘ اس نے بیان جاری کیا’’ ہاتھی چھت کے پنکھے کی طرح ہوتا ہے۔‘‘ یہاں مراد پرانے زمانے کا وہ پنکھا ہے‘ جوکمرے کے درمیان چھت سے لٹکا ہوتا تھا اور اسے رسے کے ساتھ کھینچ کر ہوا دی جاتی تھی۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ ہمارے ملک میں نیشنل سکیورٹی کونسل کے سوال پر ‘ اقتدار کے ایوانوں میں اتنے جھگڑے ہوئے ہیں‘ جن کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ ان جھگڑوں کی وجہ بھی یہ تھی کہ ہر سٹیک ہولڈرکا ہاتھی کے بارے میں علیحدہ علیحدہ تصور تھا۔ عموماً نیشنل سکیورٹی کونسل کی تجویز فوج کی طرف سے پیش کی گئی۔ فوج کی مجبوری یہ تھی کہ سکیورٹی کی ذمہ داری اس کا منصبی فرض ہے۔ لیکن اسے کسی بھی حکومت نے باقاعدہ ایک ڈرافٹ کی شکل میں نیشنل سکیورٹی پالیسی مہیا ہی نہیں کی تھی۔ فوج کا ادارہ طاقتور سے طاقتور ہوتا گیا مگر اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ حکومت وقت کے نزدیک نیشنل سکیورٹی کا تصور کیا ہے؟ کیا آپ یقین کریں گے کہ ہر دور کی فوجی قیادت نے‘ ہر دور کی حکومت سے یہ پوچھا کہ آپ ہمیں نیشنل سکیورٹی کے بارے میں اپنی پالیسی سے آگاہ فرمائیں۔ مگر کسی حکومت نے پالیسی پیپر فوج کے سپرد نہیں کیا۔ 1985ء تک نیشنل سکیورٹی پالیسی کا مسئلہ سیاست میں نہیں آیا تھا۔ 1985ء میں جب جنرل ضیاالحق نے اپنے مجوزہ آئین کے تحت ‘ نیشنل سکیورٹی کونسل بنانے کا تصور پیش کیا‘ تو یہ متنازعہ ہو گیا۔ اس دور کے سیاستدانوں نے سمجھا کہ اس کونسل کے پردے میں‘ فوج اقتدار میں مستقل طور سے اپنی بالادستی برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ جنرل ضیا نے آئو دیکھا نہ تائو‘ سکیورٹی کونسل کا ارادہ چھوڑ کے اپنے بنائے ہوئے آئین کے اندر 58(2)بی کا ہتھوڑا رکھ دیا تاکہ فوج جب چاہے اسمبلی کا ناریل توڑ کے اقتدار پر قبضے کر لے۔ یہ اختیار صدر کے ہاتھ میں دے دیا گیا اور صدر کو فوج نے اپنے ہاتھ میں رکھ لیا۔ ضیا الحق کے بعد دو سویلین صدر آئے اور دونوں کو ہی فوجی قیادت کے دبائو میں آ کر یہ ہتھوڑا استعمال کرنا پڑا۔1997ء کے آخر میں نوازشریف نے صدر کے ہاتھ سے یہ ہتھوڑا چھین کر جنوری 1998ء میں‘ اپنے مرغ دست آموزمحمد رفیق تارڑ کو‘کرسی صدارت پر رکھ دیا۔ وہ 58(2)بی کے ہتھوڑے سے تو بچ گئے۔ لیکن ٹینک سے نہ بچ سکے۔ فوج کے ہاتھ سے آئینی ہتھوڑا گیا‘ تو وہ ٹینک پر بیٹھ کر ایوان اقتدار میں داخل ہو گئی۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کا سوال دوبارہ زیربحث اس وقت آیا‘ جب پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا۔ کوئی بھی ملک‘ ایٹمی طاقت بننے کے بعد ‘ نیشنل سکیورٹی پالیسی بنائے بغیر‘مکمل دفاعی پالیسی مرتب نہیں کر سکتا۔ کسی ملک کی دفاعی طاقت ‘ اس کی داخلی ضروریات کے علاوہ علاقائی ضرورت بھی ہوتی ہے اور اس کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ دوسرے ملکوں کو اپنی دفاعی طاقت اور پالیسی سے آگاہ رکھے۔ لیکن ایٹمی اسلحہ آجانے کے بعد‘ متعلقہ ملک کی دفاعی پالیسی عالمی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے اور دنیا کو بتانا پڑتا ہے کہ ایٹمی اسلحہ رکھنے والا ملک ‘ اسے استعمال کرنے کے لئے کس طریقہ کار اور شرائط پر عمل کرے گا۔ اس کی وجوہ ہر سمجھدارشخص کو معلوم ہیں۔ انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ایٹمی اسلحے کا استعمال‘ پوری دنیا نہیں تو کم از کم متعلقہ براعظم کو ضرور متاثر کرتا ہے اور اس کے دیرپا اثرات ساری دنیا کی فضائوں میںزہر پھیلا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے ایٹمی دھماکے کرتے ہی نیشنل ڈیفنس کونسل تشکیل دے کر‘ اس کا دائرہ اختیار متعین کر کے‘ عالمی برادری کو اپنی ایٹمی پالیسی سے آگاہ کر دیا۔ مگر پاکستان ایسا نہیں کر سکا۔ فوج چونکہ اس معاملے سے براہ راست متاثر ہونے والا فریق ہے۔ چنانچہ جی ایچ کیو میں اس معاملے پر بحث کی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ حکومت کو اس ادارے کے قیام پر آمادہ کیا جائے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وزیراعظم کے ساتھ یہ سوال محکمانہ ذرائع سے زیرغور آیا کہ نہیں؟ لیکن اکتوبر میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیرکرامت نے اس موضوع پر ایک بیان جاری کر دیا۔ وزیراعظم نے اسے سکیورٹی پالیسی کے خلا کامسئلہ سمجھ کر دیکھنے کے بجائے‘ اقتدار کی روایتی کش مکش کا حصہ سمجھااور جنرل جہانگیرکرامت کی جواب طلبی کر کے‘ ان سے استعفیٰ طلب کر لیا۔ جس پر فوج کے اندر شدید ردعمل ہوا اور کورکمانڈرز کی ایک میٹنگ میں تشویش کااظہار کیا گیا کہ اس فوری قومی ضرورت پر‘ وزیراعظم عملی اقدام کیوں نہیں کر رہے؟ ظاہر ہے وزیراعظم کو اس کی اطلاع ہو گئی اور انہوں نے سرتاج عزیز اور اپنے ایک دو مشیروں کے ذریعے نیشنل سکیورٹی کونسل کا خاکہ تیار کر کے‘ اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف پرویزمشرف کو پہنچایا۔ پرویزمشرف نے بدتمیزی سے اسے مسترد کر دیا۔ جس سے وزیراعظم کو سمجھ لینا چاہیے تھا کہ ان کے بنائے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف کی سوچ کسی اور راستے پر چل رہی ہے۔بعد کے چند ہفتے وزیراعظم اور پرویزمشرف کے درمیان کشمکش میں گزرے اور آخر کار 12 اکتوبر کو پرویزمشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس نے بھی اقتدار پر گرفت مضبوط کرتے ہی‘ ایک نام نہاد نیشنل سکیورٹی کونسل بنائی۔ لیکن ایک ایٹمی ملک میں نیشنل سکیورٹی کونسل کا جو دائرہ کار ہوتا ہے‘ اس کے بارے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ شاید ابھی تک کوئی واضح تصور نہیں رکھتی۔ موجودہ حکومت نے سکیورٹی کے تقاضے پورے کرنے کے لئے متعدد منصوبے پیش کئے۔ ایک منصوبے کا خاکہ وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے پیش کیا۔ جس میں انہوں نے تمام سول اور سکیورٹی ایجنسیوں کو ایک ہی ادارے کی نگرانی میں مل کر کام کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس تجویز پرعملدرآمد کے لئے کیا ہوا؟ اس کے بارے میں کوئی اطلاع ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ اس معاملے میں حکومتی پالیسی کے حوالے سے کئی بیانات بھی دیکھنے میں آئے لیکن سب سے اہم فیصلہ گزشتہ روز نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام کی صورت میں سامنے آیا۔ اس میں کم و بیش ان تمام وزارتوں اور اداروں کو شامل کیا گیا ہے‘ جو کسی نہ کسی حوالے سے سکیورٹی کے نظام سے منسلک ہوتے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی اہم‘ ضروری اور ناگزیرفیصلہ تھا‘ جو آخرکار 66سال بعد ’’بروقت‘‘کر لیا گیا۔ لیکن یہ کیسی سکیورٹی کونسل ہو گی؟ اس کے بارے میں ایک مرتبہ پھر خیال آرائیاں ہو رہی ہیں۔ کابینہ میں جو فیصلہ کیا گیا‘ اس میں بھی کونسل کے واضح خاکے کا سراغ نہیں ملتا۔ یہ محض کوئی کمیٹی یا مشاورتی ادارہ نہیں ہے‘ ایک مستقل محکمہ ہوتا ہے‘ جو چیف ایگزیکٹو کے ماتحت کام کرتا ہے۔ دیگر محکموں کی طرح اس کی کارکردگی کے بھی قواعد و ضوابط اور دائرہ ہائے کار ہوتے ہیں۔ اس کا ایک اپنا سیکرٹریٹ ہوتا ہے۔ اس کا سربراہ صدر یا وزیراعظم کا مشیرہوتا ہے‘ جسے وزیرکا درجہ دیا جاتا ہے۔ وزیرکی حیثیت میں وہ تمام اداروں سے جس طرح کی معاونت اسے مطلوب ہوتی ہے‘ حاصل کر سکتا ہے۔ وہ جب چاہے صدر یا وزیراعظم کے پاس جا کر ‘ کسی بھی حساس معاملے پر ہدایات لے سکتا ہے۔ سکیورٹی سے متعلق تمام ایجنسیاں اس کی معاونت کی پابند ہوتی ہیں۔ وزارت دفاع‘ وزارت داخلہ‘ وزارت خزانہ‘ سکیورٹی کے تمام صوبائی ادارے‘ اس سیکرٹریٹ سے معاونت کرتے ہیں۔ وزارت منصوبہ بندی کو نیشنل سکیورٹی کونسل میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ جس کا ہمارے ہاںکوئی تصور ہی نہیں۔ ہمیں ایٹمی طاقت کا درجہ حاصل کئے 15سال ہو چکے ہیں اور ہم نیشنل سکیورٹی کونسل کے بارے میںابھی تک صرف کابینہ کمیٹی سے ایک فیصلہ لے سکے ہیں۔ اس ادارے کو معرض وجود میں لانے کے لئے انتہائی تیزرفتاری سے بھی کام لیا جائے‘ تو کم از کم ایک سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ وقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے‘ جسے پورا کرنے پر ہم نے طویل مدت سے توجہ نہیں دی۔ اب فیصلہ کر ہی لیا ہے‘ تو بہتر ہو گا کہ اس پر جلدازجلد عملدرآمد کر کے‘ نیشنل سکیورٹی کونسل کو ایک فعال ادارے کی حیثیت دے دی جائے۔