"NNC" (space) message & send to 7575

من موہن اور کرزئی‘ چلے ہوئے کارتوس؟

افغانستان کے صدر حامد کرزئی‘ اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ایک آخری کوشش کے لئے پاکستان کے دورے پر آئے ہیں اور جو کچھ وہ قطر میں حاصل نہیں کر سکے‘ دوبارہ پاکستان کی مدد سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ قطر میں پاکستان اور حامد کرزئی کے درمیان رابطوں کے لئے‘ امریکہ نے تین سال کی مسلسل کوششوں کے بعد ایک موقع پیدا کیا تھا۔ لیکن طالبان نے حامد کرزئی اور ان کی ہائی کونسل کے ساتھ ‘کسی بھی طرح کے رابطے سے انکار کر دیا۔ وہ امریکیوں کے ساتھ بات چیت کے لئے تیار تھے۔ پاکستان سے ان کا مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ طالبان کے جو نمائندے قطر گئے تھے‘ انہوں نے بھی پاکستان کا راستہ اختیار کیا تھا۔ مگر وہاں علامتی باتوں پر ہی تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ طالبان نے اپنے دفتر پر اپنا پرچم لہرایا‘ جسے وہ اسلامی امارت افغانستان کا پرچم قرار دیتے ہیں۔ جس پر حامد کرزئی کی حکومت نے شدید اعتراض کیا۔ طالبان اپنے لئے افغانستان کی جائز حکومت کا درجہ مانگ رہے تھے‘ جو حامد کرزئی کے لئے قابل قبول نہیں تھا اور نہ ہی اس کے امریکی سرپرست اس کے حق میں تھے۔ طالبان پر دبائو ڈال کر عمارت کے فرنٹ سے ان کا پرچم اتروایا گیا۔ انہوں نے اسے عمارت کے اندرونی دروازے پر لگا دیا۔ جس کا ملا عمر نے برا منایا اور مذاکرات کی بساط ہی لپیٹ دی گئی۔ اس ناکام کوشش میں بھی پس پردہ پاکستان کی طرف سے بہت کچھ کیا گیا‘ جو بہرحال نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا۔ افغانستان میں حامد کرزئی سیاسی طور پر تنہا ہو چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان کی مدد سے‘ ان کا طالبان سے رابطہ ہو جائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ خود طالبان‘ پاکستان کے کتنا زیراثر ہیں؟ باوجود اس کے کہ انہیں افغانستان میں برسراقتدار لانے کے لئے پاکستان کی کوششوں ہی نہیں‘ عملی امداد کا بھی عمل دخل تھا۔ بلکہ میدان جنگ میں ہمارے لوگوں نے ان کی بھرپور مدد کی تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے کسی بھی مرحلے پر پاکستان کے ساتھ دوستی اور خلوص کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ اپنے پورے دوراقتدار میں پاکستان کے مسلسل مطالبوں کے باوجود‘ طالبان نے ڈیورنڈ لائن کا معاملہ طے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی طرح جب پنجابی طالبان کا ایک گروہ ‘ طالبان کے ہاں پناہ گزین ہو کر‘ پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیاں کر رہا تھا‘ تو پاکستان نے مطالبہ کیا تھا کہ اسے پنجابی طالبان کے ٹھکانوں پر کارروائی کا اختیار دیا جائے۔ ملا عمر کی حکومت نے اس کی اجازت دے دی لیکن ساتھ ہی اپنے مہمان دہشت گردوں سے کہا کہ وہ اپنے ٹھکانے چھوڑ کر کہیں اور چھپ جائیں۔ کیونکہ پاکستانیوں کو ان کی پناہ گاہوں کا علم ہو چکا ہے اور وہ کسی بھی وقت کارروائی کر سکتے ہیں۔ جب پاکستانی دستے کارروائی کے لئے وہاں پہنچے‘ تو دہشت گرد اپنے کیمپ کہیں اور منتقل کر چکے تھے۔ تحریک طالبان پاکستان ‘ ملا عمر کو اپنا امیرالمومنین تسلیم کرتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ان کے زیرکمان کارروائیاں کرتے ہیں۔ لیکن جب پاکستان کی طرف سے ان کی دہشت گردی کے خلاف کہا جاتا ہے‘ تو ملا عمر یہ ماننے سے انکار کردیتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ان کا کوئی تعلق ہے۔ آج بھی اگر افغان طالبان وہاں طاقت حاصل کر پائے ہیں‘ تواس میں بھی پاکستان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ افغانستان پر اتحادیوں کے قبضے کے بعد‘ طالبان اور اسامہ بن لادن ‘ پاکستان میں آ کر پناہ گزین ہوئے تھے۔ یہیں انہوں نے اپنے آپ کو دوبارہ منظم کیا اور 2سال کی تیاریوں کے بعد وہ اس قابل ہوئے کہ افغانستان کے اندر‘ بیرونی فوجوں کے خلاف مزاحمت کر سکیں۔ اس دوران امریکیوں نے پاکستان پر زبردست دبائو ڈالا کہ وہ طالبان کو ان کارروائیوں سے روکیں۔ لیکن پاکستان نے زبردست امریکی دبائو کے باوجود ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اگر طالبان آج افغانستان میں بڑے بڑے علاقوں پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں‘ تو یہ بھی پاکستان کے اندر فراہم کی گئی سہولتوں کی بنا پر ہی ممکن ہو سکا ہے۔ باہمی تعلقات کی تاریخ کی وجہ سے پاکستان‘ ملا عمر اور ان کے کمانڈروں سے اپنے لئے خیرسگالی کی توقع تو کر سکتا ہے، لیکن یہ بہت مشکل لگتا ہے کہ حامد کرزئی کے لئے طالبان کے طرزعمل میں کوئی تبدیلی پیدا کرنے میں مدد دے سکے۔ ان دونوں کے درمیان حق حکمرانی کا تنازعہ ہے۔ طالبان اپنے آپ کو افغانستان کا جائز حکمران سمجھتے ہیں اور ان کی پہلی شرط ہی یہ ہوتی ہے کہ افغانستان کی جو بھی طاقت ‘ ان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتی ہے‘ وہ پہلے ملاعمر کو اپنا امیرالمومنین تسلیم کرے۔ اس کی مثال گلبدین حکمت یار ہیں‘ جو خود بھی قابض افواج کے خلاف لڑتے رہے۔ انہوں نے ملاعمر کے ساتھ اتحاد کی کوشش کی اور اس سلسلے میں کافی پیش رفت بھی ہو گئی۔ لیکن جب طے شدہ نکات کے مطابق عملدرآمد کا مرحلہ آیا‘ تو ملاعمر کے نمائندوں نے شرط لگا دی کہ گلبدین حکمت یار‘ پہلے ملا عمر کو امیرالمومنین تسلیم کریں‘ اس کے بعد تعاون کی بات ہو سکے گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ حکومت پاکستان‘ جو ابھی تک خود اپنے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کامیاب نہیں ہو سکی‘ ملاعمر کو حامدکرزئی سے رابطے کے لئے کیسے آمادہ کر پائے گی؟ حامد کرزئی افغانستان کی سیاست میں اب ایک مردہ گھوڑا ہے۔ ملاعمر ‘ کرزئی کو امریکہ کا پٹھو قرار دیتے ہیں اور ان کی طرف سے کھل کر کہا جاتا ہے کہ اگر ہم نے بات ہی کرنا ہوئی تو امریکیوں سے کریں گے‘ ان کے پٹھو سے کیوں کریں؟ جہاں تک پاکستان کی قید میں پڑے طالبان کا تعلق ہے خصوصاًملابرادر‘ تو یہ لوگ اب کسی اہمیت کے حامل نہیں رہے۔ ہم نے پہلے بھی کئی طالبان کو رہا کر کے دیکھ لیا ہے۔ واپس جا کر ان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ جو لوگ بھی پاکستان یا امریکہ کی قید سے رہا ہو کر وہاں جاتے ہیں‘ ان کی ہر بات کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان یا امریکہ کے ایجنٹ بن کر کام کرنے آئے ہیں۔ ملابرادر کو بھی رہا کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وہا ں جا کرنہ وہ ملاعمر کا اعتماد حاصل کر سکیں گے اور نہ حامد کرزئی کے کسی کام کے رہیں گے۔ یوں لگتا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف بعض بڑے بڑے دعوے کسی ہوم ورک کے بغیر کر رہے ہیں۔ مثلاً بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے اعلانات‘ انہوں نے کسی ہوم ورک کے بغیر کر دیئے اور اس پر غور نہیں کیا کہ بھارت کے داخلی حالات اس وقت کیا ہیں؟ کانگرس کی حکومت بری طرح مشکلات میں گھری ہوئی ہے اور وزیراعظم من موہن سنگھ اس وقت بے اثر ہو چکے ہیں اور کوئی بڑا فیصلہ کرنے کے قابل نہیں رہ گئے۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کوئی بھی اقدام کرنا ان کے بس میں نہیں۔ خصوصاً انتخابات سے ذرا پہلے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس بار بی جے پی انتخابات میں بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرے گی اور اس بار‘ اس کی قیادت واجپائی جیسے مدبر اور ایڈوانی جیسے دانشمند کے پاس نہیں‘ نریندرمودی اور ان کے انتہاپسند ساتھیوں کے پاس ہو گی۔ آج کے حالات میں تو نیویارک کی ملاقات بھی مشکل دکھائی دے رہی ہے اور اگر ہو بھی گئی‘ توبھارتی وزیراعظم موثرپوزیشن میں نہیں ہیں۔ اسی طرح پاکستان‘ ملاعمر سے کوئی بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں۔ وہ مستقبل کے افغانستان کی ایک بڑی طاقت ہیں اور ان دنوں بڑی تیز رفتاری سے دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ رابطے قائم کر رہے ہیں۔ ازبکوں‘ تاجکوں اور ہزاروں کے ساتھ ان کے نمائندے کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں اور بیرونی افواج کے بڑے حصے کے انخلا کے بعد وہاں حکومت سازی کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ اس بار یوں لگتا ہے کہ ماضی کے تجربوں سے فائدہ اٹھایا جائے گا اور تمام سٹیک ہولڈرز یہ چاہیں گے کہ خانہ جنگی کا المناک باب دہرانے کی بجائے‘ وسیع تر مفاہمت کا راستہ نکالا جائے اور اگر ایسا ہو گیا‘ تو ممکن ہے کہ امریکہ بھی آنے والی حکومت کے ساتھ مستقبل کے لئے کسی طرح کے انتظامات کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ ہمیں اپنے ملک کے سیاسی منظر سے رخصت ہونے والے لیڈروں پر انحصار کرنے کی بجائے‘ حالات میں تبدیلی کا انتظار کرنا چاہیے۔ یہی ہمارے لئے بہتر ہے۔ ملاعمر سے حامد کرزئی کے ساتھ کسی رابطے کی بات کرنا‘ انہیں اشتعال دلانے کے مترادف ہو گا۔ ہمارے لئے تو پاکستانی طالبان کے رویے میں بھی کوئی نرمی نہیں آئی اور ان کے جس عہدیدار نے مذاکرات کی تجویز کا خیرمقدم کیا‘ اسے تنظیم سے نکال کر پھینک دیا گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں