"NNC" (space) message & send to 7575

جلدی میں کچھ نہیں ہوتا

وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان‘ سوفیصد سیاستدان اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے معاملے میں بے حد مخلص اور یکسو انسان ہیں ۔اپنی نئی ذمہ داریاں‘ جو انہیں پہلی بار ملی ہیں‘ وہ انہیں پورے انہماک سے ادا کر رہے ہیں۔ ان کی رفتار کچھ زیادہ ہی تیز ہے۔ جب کراچی کے حالات بہتر کرنے کا پروگرام بنایا‘ تو وہ جلدی سے کراچی گئے۔ وزیراعظم کے دوروزہ قیام کا پروگرام تیار کیا۔ شہر کے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ وزیراعظم کے مذاکرات کرائے۔ آپریشن کی تیاریاں کیں اور فوراً ہی اس کا آغاز کر دیا گیا۔کارروائی شروع ہوئے چوتھا دن ہی گزرا تھا کہ وزیرداخلہ نے پریس کانفرنس میں اظہاراطمینان کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ آپریشن کے ساتھ ہی کراچی میں ہونے والی وارداتیں کم ہو گئی ہیں۔ انہوں نے خدا کا شکر کیا کہ ہلاکتیں برائے نام رہ گئیں۔ چوہدری صاحب کی خوشی ان کے دلی جذبات کی ترجمانی کر رہی تھی۔ لیکن جس نوعیت کے حالات اس شہر میں پیدا ہو چکے ہیں‘ انہیں درست کرنے کی مہم طویل المیعاد‘ وسیع‘ تیز اور مؤثر آپریشن کی متقاضی ہے۔ اس دوران بہت اتار چڑھائو آئے گا۔ امن کے وقفے بھی آئیں گے اور بدامنی کے بھی۔ لیکن وہ دن ابھی بہت دور ہیں‘ جب اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا جا سکے کہ ’’حالات پر قابو پا لیا گیا ہے۔‘‘ نہ تو کراچی کے حالات ایک دن میں موجودہ درجے تک پہنچے ہیں اور نہ ہی یہ ایک دن میں درست ہو سکتے ہیں۔ گزشتہ بیس پچیس برس کے دوران کراچی شہر‘ انتظامیہ کی گرفت سے نکلتے نکلتے مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ یہ ٹکڑے افقی بھی ہیں اور عمودی بھی۔ عمودی اعتبار سے چھوٹے پاور گروپس نے اپنے اپنے نوگو ایریاز بنا رکھے ہیں‘ جہاں انہی کا حکم چلتا ہے۔ عام شہریوں سے لے کر انتظامیہ کے اراکین تک‘ ہر ایک کو ان چھوٹی چھوٹی پاکٹس پرحکمرانی کرنے والوںکے احکامات بجا لانا پڑتے ہیں۔ ہر طاقتور گروہ اپنے زیراثر علاقے میں بھتے وصول کرتا ہے۔ ناجائز فروشی کے نظام کو کنٹرول کرتا ہے اور دوسرے گروہوں کی طرف سے توسیع کی کوششوں کا مقابلہ بھی کرتا ہے۔ تاکہ دوسرے علاقے کا کوئی گروہ‘ ان کے علاقے میںآکر اپنا اثرورسوخ قائم نہ کر لے۔ قبضہ کرنے اور قبضے سے بچنے کے لئے جنگیں ہوتی ہیں۔ سرکاری اور نجی جائیدادوں پر قبضے کرنے کا کھیل اپنے اپنے علاقوں سے باہر آ کر بھی کھیلا جاتا ہے اور ایسا کرتے وقت مسلح مقابلے ہوتے ہیں۔ جن میں انسانی جانوں کا نقصان بھی ہوتا ہے۔ بھتہ خوروں اور قبضہ گروپوں کے زیراثر علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا عمل دخل باقی نہیں رہتا۔ وہ برسرعام ان اداروں سے ٹکراتے ہیں اور وقتاً فوقتاً سرکاری اہلکاروں کی جانیں لے کر خوف کی فضا بھی طاری کرتے رہتے ہیں۔ افقی طور سے قانون شکن گروہوں نے سیاسی جماعتوں کے اندر بھی جگہیں بنا رکھی ہیں۔ وہ ان کے باضابطہ کارکن بنتے ہیں۔ گلی محلے میں پارٹی کے عہدے لیتے ہیں اور ان کے سرکردہ لیڈر‘ پارٹیوں کے صوبائی اور ملکی سطح کے عہدے حاصل کرتے ہیں۔ کراچی میں تین سیاسی جماعتیں زیادہ اثرورسوخ رکھتی ہیں۔ جب بھی جمہوریت بحال ہوتی ہے‘ یہی جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں یا برسراقتدار پارٹیوں کی حلیف بن جاتی ہیں اور یہ سیاسی تعلق انہیں قانون نافذ کرنے والوں سے تحفظ دلواتا ہے۔ پولیس اور رینجرز برسوں سے کراچی میں امن و امان قائم کرنے کی مہمات چلاتی رہتی ہیں۔ مگر مکمل کامیابی کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔ مہم جب تیز ہوتی ہے‘ تو قانون شکن گروہوں کے سرغنے اور نمایاں افراد یا تو شہر کے اندر روپوش ہو جاتے ہیں یا کراچی سے باہر چلے جاتے ہیں۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے‘ ہمہ مستعد کبھی نہیں ہوتے۔ ان کا ہر آپریشن 100 سے لے کر 1000میٹر دوڑ کی طرح ہوتا ہے۔ ادھر دوڑ ختم ہوئی اور ادھر کارروائی معطل ہو گئی۔ قانون شکن عناصر اب اس صورتحال کے عادی ہو گئے ہیں۔ بلکہ میں یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہو گا کہ ان میں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں میں ایک غیرتحریری بندوبست ہو چکا ہے۔ جیسے ہی عدلیہ یا حکومت کے اعلیٰ حلقوں کی طرف سے حالات کو بہتر بنانے کے لئے آپریشن کا پروگرام بنتا ہے‘ تو قانون شکن عناصر کو فوراً اطلاع کر دی جاتی ہے۔ وہ کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی اپنے اپنے پیادوں کو جو کہ سرکاری ریکارڈ میں نہیں ہوتے‘ ڈیوٹیاں تفویض کر کے‘ خود نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ کارروائی کی رسم پوری ہوتی ہے۔ حالات پھر معمول پر آ جاتے ہیں اور قانون شکنی کی سرگرمیاں پھر سے شروع ہو جاتی ہیں۔ کراچی اس طرح کے کئی آپریشنوں سے گزرا ہے اور آج کل بھی گزر رہا ہے۔ دنیا میں جہاں بھی بدامنی کی آخری حالت کو پہنچے ہوئے شہروں کو درست کیا گیا‘ وہاں حکومتوں کو طویل مدتی منصوبے بنانے پڑے۔ سپیشل فورسز تیار کرنا پڑیں۔ امن و امان برقرار رکھنے والے ماہرین‘ سماجی سائنسدانوں‘ اجتماعی نفسیات کے ماہروں‘ جدید ترین آلات اور ٹیکنالوجی سے مدد لینا پڑی۔ فورسز کے جوانوں کو خصوصی تربیت دی گئی۔ عوام کو آپریشن کی تکمیل کے عمل میں حصے دار بنایا گیا۔ غرض یہ کہ ہمہ جہت منصوبہ بندی کر کے‘ آپریشن کو آگے بڑھایا گیا۔ بیجنگ‘ لندن‘ نیویارک‘ شکاگو‘ ٹوکیو‘ ممبئی غرض دنیا کے تمام بڑے شہروں کو ‘ جن میں خرابی آخری حدوں کو پہنچ چکی تھی‘ درست کرنے کے لئے برسوںپر پھیلی ہوئی مہمات چلانا پڑیں۔ پھر کہیں جا کر ان شہروں کا نظام بحال ہوا۔ لیکن یہ کام صرف ڈنڈے سے نہیں کیا گیا۔ بیشتر حالات میں سماج دشمن عناصر کو ‘ امن و امان کی بحالی میں سٹیک ہولڈر بنا لیا گیا۔ مثلاً ٹوکیو میں شہروں اور محلوں کے ڈانز اور پولیس کے مابین کچھ سمجھوتے کئے گئے۔ جن کے تحت ڈانز کو ذمہ داری دی گئی کہ امن و امان برقرار رکھنا ان کے فرائض میں شامل ہو گا۔ جہاں کوئی قتل‘ راہزنی یا جوئے خانوں میں لوٹ مار ہو گی‘ اس کا ذمہ دار ڈان کو ٹھہرایا جائے گا اور اسے کڑی سزا دی جائے گی۔ اس کے بدلے میں ڈانز کو مقررہ حدود کے اندر رہتے ہوئے‘ اپنا کاروبارکرنے کی اجازت ہو گی۔ مثلاً وہ جوا خانہ چلائے گا‘ تو وہاں اپنے مقررہ حصے سے زیادہ کچھ نہیں لے سکے گا اور کھیل میں بے ایمانی کی اجازت نہیں ہو گی۔ چوروں‘ اچکوں اور راہزنوں کو پکڑ کر‘ غنڈوں کے مخصوص انداز میں سزا دیناڈانز کی ذمہ داری ہو گی اور پولیس اس سے صرف نظر کرے گی۔ یہ ایک لمبا چوڑا سمجھوتا ہے۔ جس پر عمل کرتے ہوئے ٹوکیو مدتوں سے پرامن زندگی گزار رہا ہے۔ جرمنی میں سارے وہ کام جنہیں کرنے والے قانون شکنی پر مجبور ہوتے ہیں‘ وہ سب کے سب حکومت نے اپنے کنٹرول میں کر رکھے ہیں۔ وہاں کے جوئے خانے‘ مے خانے‘ رقص گاہیں اور جنسی کاروبار ‘جیسے سارے کام ایک سرکاری محکمہ کرتا ہے اور اس کی آمدنی فلاحی کاموں پر خرچ کی جاتی ہے۔ لندن میں قریباً سو سال پہلے جب حالات قابو سے باہر ہوگئے تھے‘ تو بحالی امن کا کام مرحلہ وار شروع کیا گیا۔ شہر کو کئی حصوں میں تقسیم کر کے‘ پہلے ایک حصے کے لئے مطلوبہ پولیس کو ہر طرح کی پیشہ ورانہ اور اخلاقی تربیت دی گئی اور پھر اس حصے میں سے تمام کی تمام پرانی پولیس فورس کو فارغ کر کے‘ نئی تیار شدہ فورس متعین کر دی گئی اور اس نے چارج لیتے ہی‘ اس حصے کے نظم ونسق پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا۔ اسی طرح ایک حصے کے بعد دوسرے میں’’ نئی پولیس‘‘ کا کنٹرول قائم کرتے کرتے‘ لندن کا پورا شہر’’ نئی پولیس‘‘ کے زیرانتظام آ گیا اور آج کل وہاں اسی ’’نئی پولیس‘‘ کی روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے کارکردگی کا موجودہ معیار حاصل کیا گیاہے۔ ایک کالم میںتمام شہروں کے اصلاحی منصوبوں کا ذکر مشکل ہے۔ میں نے صرف اشارے دے دیئے ہیں۔ مگر جس شہر کو بھی قانون کی عملداری میں لایا گیا‘ وہاں کئی کئی سالوں کی عرق ریزی کے بعد آپریشن کے منصوبے تیار کئے گئے۔ ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ سپیشل فورسز تیار کی گئیں۔ عوام کی مدد حاصل کی گئی اور پھر ٹارگٹ حاصل کرنے کے لئے ایک طویل میعاد رکھی گئی۔ تب کہیں جا کر ان شہروں کے حالات معمول پر آئے۔ پھر بھی چھوٹے چھوٹے انفرادی جرائم کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ کراچی نے لاقانونیت کے موجودہ ’’معیار‘‘تک پہنچنے میں بیس پچیس برس لگائے ہیں۔ اس شہر کے حالات معمول پر لانے کے لئے بھی اتنا ہی عرصہ درکار ہے اور اتنے طویل منصوبے بنا کر ان پر عملدرآمد کے لئے سیاسی اور انتظامی طور پر مستحکم معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں حکومت کی فرض شناسی اور دیانت پر ہر کسی کو اعتماد ہو۔ لیکن جتنی عجلت اور جلد بازی میں کسی تیاری کے بغیر کراچی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ پھر یہی ہو گا کہ چار دن کے لئے قانون شکن عناصر نے وقفہ ڈالا‘ تو وزیرداخلہ خوش ہو گئے۔ مگر اگلے ہی دن شہر میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد معمول کے مطابق ہو گئی۔ جس کام کا ذمہ موجودہ حکومت نے اٹھایا ہے‘ وہ بڑا صبر طلب ہے۔ میرے نزدیک جو مہم کراچی میں شروع کی گئی ہے‘ وہ پرانی غلطیوں کو دہرانے کے سوا کچھ نہیں۔ نتائج بھی اسی طرح کے ہی نکلیں گے۔ کراچی کو درست کرنا ہے‘ تو سائنسی بنیادوں پر ٹھوس منصوبہ بندی اور پھر منصوبے پر عمل کرنے کے لئے اعلیٰ ترین انسانی مشینری کی ضرورت پڑے گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسے منصوبے صرف وہی حکومت کامیابی سے مکمل کر سکتی ہے‘ جسے عوام کا بھرپور اعتماد اور تعاون حاصل ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں