اور تو اور ‘ آئی ایم ایف نے بھی پاکستان پر مزید بجلیاں گرنے کا اندیشہ ظاہر کر دیا ہے۔ یہ بات آئی ایم ایف کے ایجنڈے کے خلاف ہے۔ آئی ایم ایف کا کام ‘مشکل میں پھنسے ملکوں کو سخت شرائط پر قرضے دینا اور یہ ضمانت حاصل کرنا ہے کہ بھاری نفع کے ساتھ وہ یہ قرضہ وصول کرے۔ مگر ہماری حالت اب یہ ہو گئی ہے کہ ’’سانوں ویکھ کے لوگ روندے نیں۔‘‘ آئی ایم ایف عموماً سبسڈیز ختم کرنے پر اصرار کرتا ہے۔ ایسا کرنے سے‘ عوام کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں‘ نتیجے میں اضطراب اور بے چینی پیدا ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے کبھی اس کی پروا نہیں کی۔ لیکن ہمارے معاملے میں آئی ایم ایف کو بھی اپنی پالیسی کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ کہنا پڑا کہ ’’سبسڈی ختم کرنے سے مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہو گا۔‘‘ عالمی ادارے نے پاکستان کی اقتصادی حالت پر ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے‘ جس کے مطابق مالی اور بیرونی خسارے کو کم کرنے کے اقدامات سے‘ پاکستان کی شرح ترقی دبائو کا شکار ہو سکتی ہے۔ سیاسی خطرات کے انڈیکس کے لحاظ سے پاکستان کا شمار دنیا کے بدترین شرح والے ملکوں میں ہوتا ہے۔ مقامی حالات اور خطے کے عوامل بدستور ترقی کے لئے خطرہ بنے رہیں گے۔خطے کی صورتحال کے پیش نظر سیاسی پیش رفت ناکام ہونے سے اصلاحات میں تاخیر ہو گی۔ 2012ء میں پاکستان کی شرح ترقی 4.4فیصد رہی۔ لیکن 2014ء میں 2.5فیصد پر آ جائے گی اور بیروزگاری کی شرح 5 فیصد سے بڑھ کر 7فیصد کے قریب پہنچ جائے گی۔ نئی حکومت نے معیشت کو بہتر بنانے کے لئے ابھی تک اندرون ملک کوئی بڑا منصوبہ تیار نہیں کیا۔ تیار کیا بھی کیسے جائے؟ بیرونی سرمایہ کاری تیزی سے کم ہوتی ہوئی‘ برائے نام رہ گئی ہے۔ حکومت کے پاس فنڈز کی کمی کا یہ حال ہے کہ سیکرٹری اقتصادی امور ڈویژن‘ نرگس سیٹھی سے کہا گیا ہے کہ وزارت خزانہ کے پاس ڈالرز موجود نہیں ہیں اور پاکستان کو کھاد کی فوری خریداری کے لئے بیرونی زرمبادلہ کی ضرورت ہے۔ اس لئے وہ اپنے طور پر ڈالروں میں قرضہ حاصل کریں اور فوری طور پر کھاد درآمد کی جائے۔ دور اندیشی کی انتہا یہ ہے کہ نئی فصل کے لئے چند روز میں کھاد کی فراہمی ناگزیر ہے لیکن کسی نے خریداری کے لئے نہ زرمبادلہ مختص اور فراہم کرنے کی تکلیف فرمائی اور نہ ہی کھاد کی دستیابی کا بندوبست کیا۔ عین وقت پر متعلقہ وزارت سے کہا جا رہا ہے کہ وہ زرمبادلہ کا بندوبست بھی کرے اور کھاد خرید کر فوری طور سے درآمد بھی کرے۔ ایک سیکرٹری ایسی حکومت کے لئے قرضہ کیسے حاصل کرے؟ جس کی دنیا میں اپنی کوئی نہ سنتا ہو۔ گزشتہ دنوں نیویارک میں ہمارے وزیراعظم کی جو پذیرائی ہوئی‘ اس کی تفصیل جان کر دل بیٹھنے لگتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر‘ تمام ملکوں سے آئے ہوئے لیڈرجن میں بیشتر سربراہان مملکت ہوتے ہیں‘ ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ رسمی اور غیررسمی ملاقاتیں کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے وزیراعظم صرف دو قابل ذکر لیڈروں سے ملاقات کر پائے۔ جن میں ایک بھارت کے وزیراعظم تھے۔ جنہیں برصغیر کے مخصوص حالات کی روشنی میں ملنا پڑا ور دوسرے ہمارے ایک اور پڑوسی ایران کے صدر تھے۔ یہ ملاقات بھی جغرافیائی مجبوری کی وجہ سے ہوئی اور دوسرے گیس پائپ لائن کے حوالے سے۔ اس پائپ لائن کے ذریعے گیس کی سپلائی روکنے کے لئے امریکہ شدید دبائو ڈال رہا ہے۔ ایران یہ گیس فروخت کرنے کا خواہش مند ہے۔ پاکستان توانائی کی قلت کا شکار ہونے کی بنا پر جلد ازجلد تیل اور گیس کی فراہمی کا طلبگار ہے۔ ان دونوں سربراہوں کی ملاقات بھی مقامی حالات کا نتیجہ تھی۔ اس کے علاوہ کسی قابل ذکر یورپی‘ افریقی یا امریکی لیڈر کے ساتھ ‘ ہمارے وزیراعظم کی ملاقات نہیں ہو سکی۔ ایک زمانہ تھا کہ سفارت کاری میں امریکہ اور اس کے اتحادی‘ پاکستان اور بھارت کو مساوی حیثیت دیا کرتے تھے۔ اگر بھارتی لیڈر کو ‘ امریکہ کے دورے پر بلایا جاتا‘ تو ساتھ ہی پاکستانی لیڈر کو بھی دعوت نامہ دیا جاتا تھا۔ اسی طرح امریکی لیڈر‘ بھارت کے دورے پر آتے‘ تو ساتھ پاکستان میں بھی آیا کرتے تھے۔ مگر اب عرصہ ہوا کہ امریکی صدر‘ بھارت کا دورہ کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کا رخ کوئی نہیں کرتا۔ جو آخری امریکی صدر‘ پاکستان کے مختصر دورے پر آئے تھے‘ وہ مسٹر کلنٹن تھے اور یہ دورہ ‘ دوستانہ سے زیادہ معاندانہ تھا۔ جس میں مہمان صدر نے کسی طرح کے دوطرفہ مذاکرات نہیں کئے۔ پاکستانی عوام سے براہ راست خطاب کیا اور حکمرانوں کو بڑے سخت الفاظ میں ہدایات دیں۔ اس دورے کو کسی بھی اعتبار سے خوشگوار یا خیرسگالی کا دورہ نہیں کہا جا سکتا اور اب تو یوں ہوتا ہے کہ امریکہ کے دیگر حکام بھی دہلی اور بھارت سے ہو کر واپس چلے جاتے ہیں۔ اب ہماری طرف سے جان کیری کو دعوت نامہ دیا گیا ہے‘ جو انہوں نے قبول تو کر لیا لیکن تاریخ ابھی تک مقرر نہیں کی گئی۔ میں نے عالمی برادری کی پاکستان کے ساتھ سردمہری کا قصہ اس لئے بیان کیا کہ ایسے حالات میں ایک وزارت کے سیکرٹری کو یہ کہنا کہ وہ کھاد کی درآمد کے لئے کسی بیرونی ملک سے بڑی تعداد میں ڈالروں کا انتظام کرے‘ ایک دردناک صورتحال کی طرف اشارہ ہے۔ ایک طرف ہمیں یہ زعم کہ ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہیں اور دوسری طرف ہمارا یہ حال کہ حکومت اپنے ایک افسر سے کہہ رہی ہے کہ وہ جا کر کہیں سے ڈالر مانگے اور ملک کے لئے کھاد کا بندوبست کرے۔ یہ بے بسی‘ یہ بیچارگی اور یہ ماندگی‘ ہمارا یہ حال تو پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ زیادہ اذیت ناک امر یہ ہے کہ جن لوگوں نے ہمیں اس حالت میں پہنچایا‘ ہم ان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ کر کیا رہے ہیں؟ مذاکرات کیا؟پیش کشیں کر رہے ہیں۔ دوسرے فریق کی طرف سے گھاس تک نہیں ڈالی گئی۔ پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش غیرمشروط ہے اور وہ شرطوں پر شرطیں لگاتے چلے جا رہے ہیں۔ ستم یہ کہ وہ پاکستان کے بارے میں جو ارادے رکھتے ہیں‘ وہ کسی بھی طرح ہمارے لئے قابل قبول نہیں۔ ان کا اپنا ایک تصور حیات ہے‘ جسے وہ اسلام کہتے ہیں۔ وہ بھی ایک نہیں۔ ہر گروہ اسلام کا نام لیتا ہے مگر اس کی تشریح اپنی ہوتی ہے۔ ایک کی تشریح دوسرے سے نہیں ملتی اور پھر پاکستان بھی مسلمانوں کا ملک ہے‘ جو آئینی طور پر اسلامی جمہوریہ ہے۔ یہاں بھی اسلام کی مختلف تشریحات پائی جاتی ہیں‘ جو مختلف فرقوں کے نزدیک حقیقی اسلام ہے۔ یہ فرقے صدیوں سے پرامن بقائے باہمی کے اصول پر کاربند چلے آ رہے ہیں۔ مگر جن طالبان سے ہم مذاکرات کرنے کے لئے بے چین ہیں‘ وہ ہمارے تمام فرقوں کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں۔ وہ سب کے سب اہل تشیع کو واجب القتل قرار ہی نہیں دیتے بلکہ موقع پاتے ہی ان پر حملہ کر کے قتل کر ڈالتے ہیں۔ اس کے بعد اہل سنت ہیں۔ پاکستان میں ان کی بھاری اکثریت ہے‘ جنہیں سواداعظم بھی کہا جاتا ہے۔ وہ اولیائے کرام اور بزرگان دین کی درگاہوں کو بھی عقیدت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ طالبان کا بڑا حصہ ‘ انہیں بھی واجب القتل سمجھتا ہے اور درگاہوں اور ان سے ملحقہ مساجد کو تباہ کرنا بھی جائز سمجھتا ہے اور طالبان میںجو تکفیری گروپ پایا جاتا ہے‘ وہ پاکستان کے تمام مسلمانوں کو واجب القتل سمجھتا ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پیش کش ‘ ہماری طرف سے کی گئی ہے۔ محاذآرائی کی صورت میں ایسی پیش کش کو کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ہم کوئی بھی دعویٰ کریں‘ حقیقت یہی ہے جو تاریخی طور پر درست ہے۔ مذاکرات کی پیش کش کے جواب میں جو کچھ طالبان کہہ رہے ہیں‘ اس سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ فریق غالب کی حیثیت سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کمزور پوزیشن میں آ کر مذاکرات کر پائے گا؟ جس میںطالبان ہمیں دیکھ رہے ہیں؟ سچ یہ ہے کہ ہم جنگ کے دونوں محاذوں پر حریفوں سے برتر نہیں۔ نہ بھارت۔ نہ طالبان۔ہم اپنے آپ کو کچھ بھی سمجھتے رہیں۔ مگر یہ دونوں ہماری برتری تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ پاکستان کے اندر کسی بھی ایک سوال پر اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ اس پورے منظر پر غور فرمائیں اور پھر سوچیں کہ کیا ہمیں اسی حالت میں رہنا ہے ؟یا ہم اپنی حالت بدلنا چاہتے ہیں؟ اس سوال کا صرف ایک جواب ہے‘ ہاں! نفی کی گنجائش نہیں۔ اپنی حالت بدلنے کے لئے ہمارے پاس سب کچھ ہے۔ بلکہ ضرورت سے زیادہ ہے۔ صرف یکجہتی اور اتفاق رائے اور نصرمن اللّٰہِ وفتح قریب۔ہمارے پاس اپنی بقا کے لئے جہاد کے سوا کوئی راستہ نہیں۔