"NNC" (space) message & send to 7575

آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر؟

عمران خان صاحب اصرار کر رہے ہیں کہ طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے۔ خان صاحب کو سیاست میں آئے سولہ برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔انہوں نے پاکستان میں ہر جگہ کا دورہ کیا۔ شہر شہر‘ قریہ قریہ‘ گائوں گائوں‘ بستی بستی کون سی جگہ ہے جہاں وہ نہیں گئے؟ مگر ابھی تک ان کا یہی خیال ہے کہ پاکستان میں طالبان کا کوئی دفتر نہیں اور وہ مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے۔میرا خیال ہے کہ طالبان بھی خان صاحب کا مطالبہ بار بار سن کر اکتا گئے ہیں اور آخر کار انہیں بتانا پڑا کہ ہمیں پاکستان میں دفتر کھولنے کی کوئی ضرورت نہیں، ہمارے پاس یہ سہولت موجود ہے لیکن خان صاحب پھر بھی اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ خان صاحب کو بتا ہی دیا جائے کہ طالبان کا دفتر کہاں ہے؟اسلام آباد میں خان صاحب نے جس پہاڑی پر اپنا ٹھکانہ بنا رکھا ہے‘ اس کے آس پاس تو شاید انہیں طالبان کا دفتر نظر نہ آئے لیکن اسلام آباد میں اپنے دولت کدے سے قدرے دور آکر ‘یا لاہور میں گھر سے چند قدم چل کر وہ دیکھیں اور ان کی نظر کسی مسجد‘مدرسے یا دارالعلوم ٹائپ کی عمارت پر پڑے تو بلاتامل اس میں داخل ہو جائیں‘ وہ طالبان کا دفتر ہی ہو گا۔ پاکستان میں کوئی بستی‘ شہر یا گلی محلہ ایسا نہیں جہاں طالبان کا دفتر موجود نہ ہو۔ دفتر ہی نہیں بلکہ قیام و طعام کی ایسی شاندار اور محبت بھری سہولتیں موجود ہوں گی جو کسی وزیر‘ا فسر اور سرمایہ دار کو بھی میسر نہیں۔ ہمارے وزراء‘ اعلیٰ افسران یا سرمایہ دار وں کو صرف چند شہروں میں سیون سٹار‘ فائیو سٹار یا فور سٹارہوٹلوں کی سہولتیں ملتی ہیں۔ شہروں سے ذرا ہٹ کر کسی چھوٹے شہر‘، گائوں یا قصبے میں چلے جائیں تو نہ ان کا دفتر وہاں موجود ہوتا ہے‘ نہ انہیں اس کی ضرورت ہوتی ہے لیکن طالبان کو پاکستان کی ہر آبادی میں یہ سہولت میسر ہے۔ایک فقہ سے تعلق رکھنے والے طالبان جہاں بھی جاتے ہیں‘ انہیں اپنی ایک مسجد‘ ملحقہ مدرسے اور ہاسٹل کے ساتھ دستیاب ہوتی ہے۔وہی ان کا دفتر ہے‘ وہی ان کا ہوٹل اور وہی ان کے سیاسی رابطوں کا مرکز۔ پاکستان میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں طالبان کو یہ سہولتیں میسر نہ ہوں۔اتنے دفتر تو خود حکومت پاکستان کے پاس نہیں‘ جتنے طالبان کے لیے حاضر ہیں۔ہمارے سیاست دان ابھی تک اسی گمان میں ہیں کہ طالبان صرف فاٹا یا خیبر پختونخوا میں پائے جاتے ہیں۔انہیں شاید معلوم نہیں کہ فاٹا ہی نہیں سوات‘ کوہاٹ اور بنوں کے طالبان بھی پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔آپ اپنی قریبی مسجد میں جا کر دیکھیے ‘وہاں کا امام بھی آپ کو فاٹا یا سوات کاہی ملے گا۔ حد یہ ہے کہ ہماری لاہو ر پریس کلب کی مسجد کا امام بھی سوات سے تعلق رکھتا ہے۔گزشتہ ایک دوعشرے کے دوران‘ ہماری نوے فیصد سے زیادہ دیوبندی مساجد میں طالبان کی حمایت کرنے والے امام تشریف فرما ہیں۔ہم لوگ اتنے غافل اور بے خبر شہری ہیں کہ ہمیں اپنے گردو نواح میں اتنی بڑی تبدیلی کا احساس تک نہیں ہوا۔یہ سارے امام اپنے خطبات میں وہ کچھ کہتے ہیںجو پاکستان کے محب وطن شہری نہیں کہہ سکتے ۔ان کے خطبات میں پاکستان کے آئین اور جمہوری نظام کوہدف تنقید بنایا جاتا ہے اور اس کے خلاف نفرت پیدا کی جاتی ہے۔ان میں جو بڑی مسجدیں اور مدارس ہوتے ہیں‘ وہاں ایک خاص سیاسی نقطہ نظر کی تبلیغ کی جاتی ہے اور انتہا پسندانہ نظریات کا پرچار ہوتا ہے۔یہ دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں مگر دہشت گردوں کے خلاف کبھی نہیں بولتے۔کم و بیش ہر دہشت گرد‘ اس نیٹ ورک میں کسی نہ کسی جگہ جا کر رہائشی اور رابطے کی سہولتوں سے فائدہ اٹھا چکا ہے۔ آمد ورفت کا یہ سلسلہ باہمی رابطوں اور تبادلہ خیالات و پیغامات کے لیے احتیاط سے استعمال ہوتا ہے‘ نہ اس کی ریکارڈ نگ ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔بیشتر مدرسوں کے ذہین ترین‘ بہادر اور ہوشیار طلبا کا انتخاب کر کے انہیں‘ پر اسرار میزبانوں سے ملایا جاتا ہے۔ وہ ان میں سے اپنی ضرورت کے بچوں کا انتخاب کر کے انہیں بہتر تعلیم اور اچھی زندگی کے خوا ب دکھاتے ہیں۔انہیں شمالی وزیرستان اور افغانستان کے مراکز میں لے جایا جاتا ہے‘ جہاں انہیں حسب ضرورت جنگی تربیت دی جاتی ہے۔انہی میں سے خود کش بمبار بھی تیار کئے جاتے ہیں اور انہی میں سے دہشت گردی کے مراکز میں خدمات لی جاتی ہیں۔جو طالب علم زیادہ ذہین اور تخلیقی ذہن کے مالک ہوتے ہیں‘ انہیں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں کی مہارتیں حاصل کرنے پر لگایا جاتا ہے۔طالبان کے یہ تربیت یافتہ ماہر‘ ہنر مند اور ٹیکنیشن طالبان کے محفوظ ترین کمیونیکیشن سسٹم کو چلاتے ہیں۔ اسے آپ مملکتوں کو تسخیر کرنے والی ایک عالمی تنظیم کا ملیٹنٹ ونگ (Militant wing) سمجھ لیں یا آپ اسے طالبان یا مجاہدکہہ لیں‘ بات ایک ہی ہے۔ لیکن ہر جدو جہد صرف جنگجوئوں کے ذریعے منزل مقصود تک نہیں پہنچتی‘ اس کا ایک پولیٹیکل ونگ بھی ہوتا ہے جو حالات کے مطابق کام کرتا ہے۔اگر حالات دونوں ونگز کو کھلے رابطوں کی اجازت نہیں دیتے تو پولیٹیکل ونگ سلیپر یا خوابیدہ بازو کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔یہ دونوں ونگز بظاہر رابطوں میں نہیں لگتے مگر دونوں کے درمیان رابطے برقرار رہتے ہیں بلکہ یہ اپنے مختلف آپریشنز میں باہمی تعاون بھی کرتے ہیں۔پولیٹیکل ونگ‘ ملیٹنٹ ونگ(Militant wing)کے لئے تعلقات عامہ اور میڈیا سیل کی ذمہ داریاں نبھاتا ہے۔اگرملیٹنٹ ونگ(Militant wing) کوئی ایسی کارروائی کر گزرتا ہے‘ جو عوام میں ان کے خلاف نفرت پیدا کرے تو پولیٹیکل ونگ اس کی صفائی اور جواز پیش کر کے عوامی غم و غصے کو ٹھنڈا کرتا ہے۔حسب ضرورت وہ دہشت گردو ں کی مذمت بھی کر دیتا ہے مگر اس بات کا بطور خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کو نامزد کر کے ‘ ان کی مذمت نہ کی جائے۔چند روز پہلے تک ان دونوں ونگز کے باہمی رابطے اور تعاون کافی خفیہ تھے۔ صرف اہل نظر ہی سمجھ سکتے تھے کہ پولیٹیکل ونگ کا دہشت گردوں کے ساتھ کوئی اندرون خانہ تعاون موجود ہے لیکن جب سے نئی حکومت کی سربراہی میں‘ کل جماعتی کانفرنس کی طرف سے طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے۔ ان دونوں کے خفیہ رشتوں سے پردہ اٹھنے لگا ہے‘ جس کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ مذاکرات کی حکومتی پیش کش کے بعد‘ وفاق المدارس کے علماء نے طالبان کو مشورہ دیا کہ مذاکرات کی پیش کش قبول کر لیں اور فوراً ہی طالبا ن کی طرف سے جواب آیا کہ وہ علماء کرام کے مشورے کو نظر انداز نہیں کر سکتے اور اس کے بعد انہوں نے مذاکرات کے لئے اپنی تجاویز سامنے رکھ دیں۔اب یہ دونوں ونگز اپنے اپنے حصے کے فرائض ادا کریں گے۔ طالبان سخت ترین شرائط سامنے رکھیں گے اور علماء کرام انہیں نرم روی اختیار کرنے کا مشورہ دیں گے لیکن یا تو مذاکرات ہو ہی نہیں پائیں گے اور اگر ہو گئے تو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوں گے۔ یہ مذاکرات صرف رائے عامہ کو ہموار کرنے کی غرض سے استعمال کئے جائیں گے۔ اسلام کا نام کثرت سے استعمال ہو گا ۔اس حوالے سے ایسی ایسی نعرے بازی کی جائے گی کہ عوام علماء کرام اور ان کا احترام کرنے والے طالبان کے اخلاص اور نیک نیتی کے قائل ہوتے چلے جائیں گے۔عوام مختلف ’’علماء کرام‘‘ کی کوششوں سے اسلام کا نام لینے والے دہشت گردوںاور علماء کرام کو‘ پہلے ہی متبادل قیادت کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔سیاست دانوں کی کرپشن‘ نا اہلی اور بار بار کی گئی بد عہدیوں‘لوڈ شیڈنگ‘ مہنگائی‘ بد امنی اور عدم تحفظ کی وجہ سے عوام ریاستی اہلکاروں‘ سیاست دانوں اور جمہوری نظام سے بیزار ہو چکے ہیں۔وہ متبادل قیادت کے لئے انہی لوگوں سے امیدیں باندھ رہے ہیں۔میں ایک ٹی وی پروگرام میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یونیورسٹی کی ایک طالبہ سے جب پوچھا گیا کہ اسے امور مملکت چلانے کے لئے کس پر زیادہ بھروسہ ہے؟تو اس کا جواب تھا’’طالبان پر‘‘۔ یہ سوال و جواب‘ دنیا ٹی وی کے ایک لائیو پروگرام میں23اکتوبر کو نشر ہوا۔(جاری ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں