وزیراعظم جناب نوازشریف کا دورہ امریکہ ہومیو پیتھک خصوصیات رکھتا ہے۔اس سے فائدہ نہیں ہوا تو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچا۔وہ ہزاروں ڈالر جو دورے پر خرچ ہوئے وہ بچ سکتے تھے‘ اگر جناب وزیراعظم کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران صدر اوباما سے ملاقات کا وقت مل جاتا۔جنرل اسمبلی کے اجلاس کا زمانہ نیویارک میں عالمی لیڈروں کا ایک نمائشی میلہ ہوتا ہے جس کے دوران دنیا بھر سے آئے ہوئے لیڈر اس کوشش میں رہتے ہیں کہ انہیں امریکی صدر کی میزبانی کا موقع مل جائے۔پتہ نہیں اس بار مسلم لیگی حکومت کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ معمول کے کام کاج پر بھی توجہ نہیں دے پا رہی ۔جنرل اسمبلی میں جانے کا فیصلہ انتقال اقتدار کے بعد‘ پہلے ہفتے کے اندر ہو جانا چاہئے تھا۔ اگر یہ سوال زیر غورآتا تو لازماً سفارت کاری کاپلان بھی تیار کرنا پڑتا اور اس تیاری کے دوران پہلا احساس یہ ہوتا کہ امریکہ میںفوری طور پر سفیر لگانا انتہائی لازمی ہے۔سفیر کا تقرر کر کے‘ یہ انتظار کئے بغیر کہ صدر امریکہ ان کے کاغذات نامزدگی قبول کریں‘ اسے واشنگٹن بھیج دینا چاہئے تھا تاکہ وہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور وائٹ ہائوس کے ساتھ فوری غیر رسمی رابطے قائم کر کے صدر اوباما کے ساتھ وزیراعظم کی ملاقات کا اہتمام کر تا۔ظاہر ہے امریکہ میں کسی ایسے شخص کو سفیر نہیں بنایا جا سکتا جس کے واشنگٹن میں رابطے نہ ہوں۔ایسے بے شمار سابق سفارت کار‘ موجود ہیں جو یہ کام کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں سینئر سیاست دان بھی موجود ہیں ‘جو کسی بھی قومی فریضے کی ادائی کے لئے خوشی سے خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ اگر عوام کی بھاری تائید و حمایت کے ذریعے وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی نوازشریف امریکہ میں پاکستان کی سفارتی ضروریات پوری کرنے میں ممتاز سیاست دانوں سے تعاون کی فرمائش کرتے تو کوئی بھی انکار نہ کرتا۔سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری ‘ بیگم عابدہ حسین‘سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان‘ سید مشاہد حسین ‘واشنگٹن میں مقیم سینئر صحافی شاہین صہبائی اور دیگر کئی ایسے لوگوں‘ جو واشنگٹن میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں‘ کا ایک وفد ترتیب دے کر انہیں کہا جا سکتا تھا کہ وزیراعظم کی امریکہ آمد سے قبل وہ ان کی سرگرمیوں کا اس طرح سے انتظام کرے کہ ملک و قوم کے لئے زیادہ سے زیادہ نفع بخش ثابت ہو۔پاکستانی وفد اُن کی مدد کے لئے ہنگامی بنیادوں پر مستعد اور دستیاب رہتا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ سارے لوگ اگر اپنے ذاتی روابط کا استعمال کر کے واشنگٹن میں وزیراعظم کی مصروفیات کا انتظام کرتے تو نہ صرف صدر امریکہ سے با وقار انداز میں ملاقات ہو سکتی تھی بلکہ اس کے علاوہ واشنگٹن اور نیویارک میں وزیراعظم کے لئے اعلیٰ سطح کے مختلف اجلاسوں اور رابطوں کا بندوبست بھی کیا جا سکتا تھا مثلاً کانگریس کے چیدہ چیدہ اراکین کے ساتھ تبادلۂ خیال کی ایک محفل‘ امریکہ کے با اثر ترین دو یا تین تھنک ٹینکس کے ساتھ تبادلہ خیال کی کوئی تقریب‘ مختلف اعلیٰ ریاستی عہدیداروں سے کوئی مشترکہ ملاقات ‘جیسے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ عہدیدار‘ سی آئی اے کے سربراہ جان برٹن‘ جو نائب صدر کی طرف سے وزیراعظم کو دئیے گئے ناشتے کی تقریب میں موجود تھے‘ مگر ان کے ساتھ وزیراعظم کو تبادلہ خیال کا موقع نہ ملا جبکہ ڈرون حملوں کے آپریشن کے وہی انچارج ہیں۔ایشیا سوسائٹی کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات‘ واشنگٹن کے نیشنل پریس کلب میں گپ شپ‘ایشیا سوسائٹی کا دورہ‘ غرض امریکہ میں بے شمار مواقع پیدا کئے جا سکتے تھے‘ جہاں وزیراعظم ریاستی امور اور رائے عامہ کے شعبوں میں معیاری اثر و رسوخ رکھنے والوں تک اپنی بات پہنچا سکتے تھے کیونکہ امریکی معاشرے میں صاحب الرائے‘ اہل علم و اختیارکے سامنے اپنا موقف پیش کر کے اچھے نتائج کی توقع کی جا سکتی تھی مگر وہاں تو وہ کلیدی عہدیدار ہی موجود نہیں تھا‘ جو میزبان ملک میں اپنے وزیراعظم کی مصروفیات کے انتظامات کرتا۔نتیجہ وہی ہوا جو تیاری کے بغیر کئے گئے کسی بھی کام کا ہوتا ہے۔جن لوگوں نے بغیر کسی اتھارٹی کے روا روی‘ میں سفارت کاری کی‘ وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران صدر اوباما سے پچاس ساٹھ منٹ کا وقت بھی حاصل نہ کر سکے حالانکہ ذرا سی کوشش سے ایسا ممکن تھا۔ پاکستان اتنا بھی گیا گزرا نہیں‘ عالمی برادری میں اس کی ایک حیثیت ہے۔کوئی بھی اس کے جغرافیائی محل وقوع کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ایٹمی طاقت ہونے کی حیثیت میں پاکستان عالمی امور کا ایک مؤثر پلیئر ہے اور امریکہ کے لئے‘ اس وقت پاکستان کی اہمیت بہت ہی زیادہ ہے۔افغانستان سے فوجیں نکالنے کا طویل عمل پاکستان کے تعاون کے بغیر آسانی سے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچایا جا سکتا ۔ پاکستان کے نو منتخب وزیراعظم سے امریکی صدرکا پہلا رابطہ‘ ہم سے زیادہ امریکیو ں کی ضرورت تھی مگر ہم اپنی اس اہمیت کی مارکیٹنگ کرنے میں ہمیشہ کی طرح ناکام رہے۔ہم نے افغانستان میں سوویت مداخلت پر اچانک حاصل ہونے والی اہمیت کو‘ ایک ڈکٹیٹر کی حکومت کو تحفظ دینے کے بدلے میں اونے پونے بیچ ڈالا اور اپنے معاشرے کے بخیے ادھیڑ دئیے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ بوکھلایا ہوا تھا ‘ایک دوسرے فوجی آمر کے اقتدار کو تحفظ دینے کے عوض پاکستانی عوام اور فوج دونوں کا مستقبل مخدوش کر دیا گیا۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے ملک کو بارہاایسے مواقع ملے‘ جب ہم اپنی قسمت بدل سکتے تھے مگر ہم نے ان مواقع کو اپنی قسمت بگاڑنے میں صرف کر دیا۔ افغانستان سے اتحادی افواج کی واپسی تاریخ کا معمولی واقعہ نہیں۔ واپسی کے اس تاریخی عمل میں پاکستان بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے۔امریکی حکمرانوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان اگر چاہے تو امریکی افواج کی واپسی میں امریکہ کے لئے تکلیف دہ حالات پید اکرنے کی اہلیت رکھتا ہے مگر ہمیں معلوم ہی نہیں کہ قدرت نے ایک مرتبہ پھر ایک ایسا موقع پیدا کر دیا ہے‘ جس میں ہمارے لئے بہت کچھ حاصل کرنے کے امکانات موجود ہیں۔ان حالات میں امریکہ کو فکر مند ‘ خوف زدہ اور پریشان ہونا چاہئے تھا لیکن کاری گری دیکھئے کہ امریکہ نے پاکستان کی قوت ارادی کو مضبوط کرنے والے تمام عناصر کو اس طر ح سے منتشر او رغیر موثر کر رکھا ہے کہ ہم میں فیصلہ کرنے کی طاقت ہی باقی نہیں۔ہماری حکومت‘ ہماری پارلیمنٹ‘ ہمارا میڈیااور ہماری سیاسی جماعتیں‘ سب اصل مسئلے کو اہمیت ہی نہیں دے رہے۔ امریکی افواج کی واپسی‘ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ ہماری مکمل قومی استعداد کا پورازوراسی ایک مسئلے پر مرتکز ہونا چاہئے تھا۔امریکہ نے آمریت اور کمزور جمہوری دور میں افغانستان کی سپلائی لائن برقرار رکھنے میںہماری شاہراہوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ ہماری سڑکوں کو جس بری طرح سے استعمال کیا گیا اس کا پورا معاوضہ ہمیں نہیں ملا۔ آج ہمارے اندر قومی یکجہتی موجود ہوتی تو ہم عالمی شہرت یافتہ ماہرین کی ایک کمیٹی بنا کر‘اپنے نقصان کا تخمینہ تیار کرتے اور واپسی کے عمل میںامکانی نقصان کا اندازہ لگا کر ممکنہ شکستی کا تخمینہ لگاتے اور 20,15ارب ڈالر کا بل تیار کر نے کے بعد ہمارے وزیراعظم امریکہ جاتے تو ہمیں‘ امریکی صدر سے ملاقات کی بھیک نہ مانگنا پڑتی‘ الٹا صدر اوباما کی طرف سے ہمارے وزیراعظم کو دعوتیں دی جاتیں کہ وہ ان سے تبادلہ خیال کرنا چاہتے ہیں مگر ہماری سیاسی‘ انتظامی اور سفارتی صلاحیتیں بروئے کار ہی نہیں آتیں۔کسی کو اپنے اقتدار‘ کسی کو لوٹ مار‘ کسی کو نوکری کے تحفظ اور کسی کو اپنے مفادات کی پڑی رہتی ہے۔ایسے ملک کا کیا حال ہو سکتا ہے‘ جس کے مفادات کا تحفظ کرنے والا ہی کوئی نہ ہو۔ہمارے وزیراعظم کو جس طرح جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران امریکی صدر کے ساتھ روایتی غیر رسمی ملاقات سے محروم رکھا گیا اور پھر جس طرح انہیں چند ہی روز کے بعد‘ دوسری مرتبہ امریکہ آکر ملاقات کے لئے کہا گیا وہ ہم سب کے لئے باعث ندامت ہے۔اس ملاقات کا وقت بھی ہماری خاطر نہیں نکالا گیا۔ اصل میں23اکتوبر کو ملاقات کا جو وقت ہمیں دیا گیا‘ وہ برازیل کی صدر کے لئے مختص تھا‘انہوں نے امریکہ کی طرف سے اپنی جاسوسی کرنے پر بطور احتجاج 23اکتوبر کو ہونے والا دورہ منسوخ کر دیا تھا۔برازیل کا مسترد کیا ہوا وقت ہمارے حوالے کر دیا گیا اور اس دورے میں جو پذیرائی ملی‘ اس کی تفصیل واشنگٹن میں رہنے والے میرے دوست سید اکمل علیمی نے اپنے کالم میں بیان کر دی ہے۔اگر مجھ جیسا معمولی سا قلم کار پاکستان کی طرف سے امریکہ پر واجب الادا 20,15ارب ڈالر کی رقم نکال سکتا ہے تو حکومت چلانے کے ذمہ دار اپنے ملک کی حقیقی بارگیننگ پاور مضبوط کرنے کی تدبیریں کیوں نہیں کر سکتے؟سچی بات یہ ہے کہ ہم غریب نہیں‘ہمارے ملک کو چلانے والے غریب ہیں۔انہیں صرف اپنی ذات کے لئے دولت جمع کرنی آتی ہے‘ ملک کے لئے نہیں۔ہمیں قرضوں اور خیراتوں میں لگا رکھا ہے اور خودایسی دولت بٹورتے ہیں جو مکمل طور سے ان کی ملکیت ہو‘ ورنہ ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیںکہ ہمارے وزیراعظم کو ایک لاطینی امریکی لیڈر کا ٹھکرایا ہوا وقتِ ملاقات عطا فرمایا جائے۔