گزشتہ روزبلاول بھٹو زرداری نے سینیٹر فیصل رضا عابدی کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔ جس میں لکھا تھا کہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے کسی شخص کے غیرذمہ دارانہ اور جمہوریت مخالف بیانات کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ فیصل رضا عابدی نے ایک ٹاک شو میں کہہ دیا تھا کہ ''ایسی جمہوریت سے تو مارشل لا ہی اچھا ہے۔‘‘ پیپلزپارٹی کے کسی بھی لیڈر یا منتخب رکن کی طرف سے اس طرح کا بیان پارٹی کے بنیادی فلسفے سے بغاوت کے مترادف ہے۔ بلاول نے یقیناپارٹی کی اصولی پوزیشن اور وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے شوکاز نوٹس دیا۔اسی نوٹس کو دیکھتے ہوئے آج کی ایک خبر دیکھ کر سوچا کہ بلاول صاحب کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کیوں نہ ان کی توجہ پارٹی کے بنیادی اصولوں کی طرف مبذول کرائی جائے۔ جس خبر کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوا‘ وہ پارٹی کی طرف سے وزارت عظمیٰ پر فائز کئے گئے ایک شخص راجہ پرویزاشرف کے خلاف ‘ عدالتی فیصلہ ہے۔ راجہ صاحب پر الزام تھا کہ انہوں نے انتخابات سے چند ہی روز پہلے 52ارب روپے‘ اپنے حلقہ انتخاب اور اس کے ارد گرد علاقوں کے لئے بطور ترقیاتی فنڈز منظور کئے۔اس خطیر رقم میں سے 47ارب روپے صرف گوجرخان کے لئے مختص تھے۔ یہ حقیقت انکوائری کے بعد ہی سامنے آئے گی کہ گوجرخان میں 47ارب روپے چند روز کے اندر خرچ کہاںاور کیسے ہو گئے؟ روایت یہ ہے کہ یہ بھاری رقم نہ صرف راجہ صاحب کے اپنے کام آئی بلکہ انہوں نے اپنے حواریوں میں بھی تقسیم کی۔
بلاول صاحب کو معلوم ہو گا کہ راجہ پرویزاشرف‘ راجہ رینٹل کے نام سے بھی معروف ہوئے تھے۔ یہ کیس بھی قابل مطالعہ ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ جلدی کم کرنے کے نام پر راجہ صاحب نے سرکاری خزانے سے بھاری رقوم خرچ کر کے‘ کرائے کے بجلی گھر خریدے۔ لوڈشیڈنگ تو کم نہ ہوئی‘ سرکاری خزانے سے بھاری رقم ضرور کم ہو گئی۔ یہ کیس بھی کرپشن کے بڑے بڑے سکینڈلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ راجہ صاحب کے ان رُسواکن فیصلوں کی بنیاد پر‘ انہیں بھی پارٹی کی طرف سے شوکاز نوٹس دینے کے ساتھ ان کی رکنیت معطل کر دینا چاہیے۔ پیپلزپارٹی کی جو درگت محترمہ بے نظیرشہید کے بعد بنا دی گئی ہے‘ اس کے بعد یہ پارٹی عوامی تائیدوحمایت کے وہ اثاثے‘ بری طرح ختم کر چکی ہے جو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیرشہید نے اپنا خون دے کر بنائے تھے۔ اصل پیپلزپارٹی بی بی کی شہادت کے ساتھ ہی ختم ہو گئی تھی۔ آصف زرداری صاحب نے اس کی قیادت تو سنبھال لی۔ مگر اس کے سیاسی ورثے کو بے رُخی سے ٹھکرا دیا۔ جو حکومت بے نظیر کے خون میں بھیگے ہوئے ووٹوں کی بنیاد پر قائم کی گئی تھی‘ ایک دکان کی حیثیت اختیار کر گئی اور اس میں کام کرنے والے‘ سب کے سب دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار میں لگے ہوئے تھے۔انہیں دیکھ کر ایسے محسوس ہوتا تھا کہ اقتدار سے محرومی کے دور میں انہوں نے جو تھوڑی بہت مشکلیں اٹھائی تھیں‘ وہ ان کی قیمت جلدازجلد وصول کرنے کی ہوس میں‘ ہر چیز بھول گئے تھے۔ وزیر‘ مشیر اور افسران ‘ سب کے سب یہ فراموش کر بیٹھے تھے کہ انہیں جو ذمہ داریاں دی گئی ہیں‘ ان کا معاوضہ وہ عوام کی جیبوں سے وصول کرتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ کام انہیں اس معاوضے کے بدلے میں ضرور کرنا چاہیے۔ مگر ان سنگدلوں نے شاید عہد کر لیا تھا کہ وہ کوئی بھی سرکاری کام‘ محض اپنی تنخواہ اور مراعات کے بدلے میں نہیں کریں گے۔ اس کی علیحدہ قیمت وصول کی جائے گی‘ جو ان کی جیبوں کے لئے ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے دیکھا جائے‘ تو وہ سیاست کرنے کی عمر تک پہنچتے پہنچتے‘ ایک نازک موڑ پر آ گئے ہیں۔ ان کے نام میں اپنے نانا‘ ذوالفقار علی بھٹو شہید کانام بھی ہے اور ان کے والد محترم جناب زرداری کا بھی۔ مگر یہ دو نام ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ایک نام قربانی‘ ایثار‘ خدمت‘ جرأت اور قوم پرستی کی علامت ہے‘ تو دوسرے نام پر صرف پیسہ،پیسہ،پیسہ کی چھاپ ہے۔ بلاول ان دونوںراستوں پر بیک وقت نہیں چل سکیں گے۔ وہ اپنے نانا کا راستہ اختیار کریں گے‘ تو والد صاحب کا راستہ چھوڑنا پڑے گا اور والدصاحب کے نقش قدم پر چلیں گے‘ تو نانا کے راستے کو خیرباد کہنا پڑے گا۔امتحان بڑا مشکل ہے۔ بلاول نوعمر ہیں۔ اس سے گزرنا یقینا ان کے لئے دشوار ہو گا۔ لیکن بڑے کام‘ عمروں کے محتاج نہیں ہوتے۔ جو تاریخ میں کوئی مقام بنانے کے لئے پیدا ہوتے ہیں‘ وہ چھوٹی عمر میں بھی بڑے کام کر جاتے ہیں۔ محمد بن قاسم کا نام سندھ کی تاریخ کا روشن باب ہے۔ انہوں نے جب سندھ کی فتح کا کارنامہ انجام دے کر تاریخ میں اپنا نام لکھوایا‘ تو صرف 16برس کے تھے۔ بلاول کی والدہ محترمہ نے جب کال کوٹھڑی میں پڑے ہوئے اپنے عظیم والد کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری سنبھالی‘ تو وہ خود بھی 20برس سے زیادہ کی نہیں تھیں اور بلاول کے نانا بھی صرف 28سال کی عمر میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لئے اقوام متحدہ میں گئے تھے۔چھوٹی عمریں‘ بڑے کاموں کے راستے میں حائل نہیں ہوتیں۔ بلاول کے سامنے عظمت کا راستہ بھی ہے اور دولت کی چمک دمک میںتحلیل ہو کر‘ ضائع ہونے کا بھی۔ یہ انتخاب ان کا ہو گا کہ وہ اپنے خاندان کے تاریخ سازی کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں یا اپنے والد کے دولت سازی کے فن میں کمال حاصل کرتے ہیں؟ اگر وہ اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلیں گے‘ تو اپنے سفر کا آغاز ہی دولت کے اس بلند ترین درجے سے کریں گے‘ جس پر پہنچنے کا موقع پاکستان میں صرف چند خاندانوں کو حاصل ہوا ہے۔ مگر پاکستانی
سرمایہ داروں کی حیثیت جنوبی ایشیا میں بھی قابل ذکر نہیں۔ پورے ایشیا میں اگر کسی کا نام آیا‘ تو وہ 50 کے بعد آئے گا اور دنیا کے بڑے سرمایہ داروں میں کوئی پاکستانی آ ہی نہیں پائے گا۔ کیونکہ اگر کوئی اس قابل ہوا‘ تو اسے بلیک منی کسی گنتی میں نہیں آنے دے گی اور اگر بلاول نے اپنے نانا اور والدہ کے نقش قدم پر چلنے کا فیصلہ کیا‘ تو انہیں وہ پارٹی بحال کرنا ہو گی‘ جو ان کے نانا اور والدہ کا ورثہ ہے۔ جو لوگ ان دنوں پیپلزپارٹی کا لیبل لگا کر اپنی دکانیں چلا رہے ہیں‘ ان کا بھٹو خاندان سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ذہنی‘ نہ قلبی اور نہ سیاسی۔ پیپلزپارٹی میں آلودگی کا سلسلہ بے نظیرشہید کے زمانے ہی سے شروع ہو گیا تھا۔ جب انہوں نے پارٹی کو سنبھالا‘ تو وہ ایک کم عمر خاتون تھیں۔ ان کے دشمن بہت طاقتور تھے۔ فوجی حکومت ‘ انہیں ملیا میٹ کرنے پر تلی تھی۔ سیاسی مخالفین‘ انہیں چباجانے کے لئے بے تاب تھے اور اپنے خاندان والے بھی انہیں زندہ دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ میرا اشارہ ان کے بھائیوں کی طرف نہیں۔ وہ دونوں اقتدار کے کھیل میں آنے کے خواہش مند نہیں تھے۔ چھوٹے بھائی کو قدرت نے نوعمری میں اٹھا لیا تھا اور بڑے کو حالات کے تھپیڑوں نے سیاست میں دھکیلا تھا۔ ان کی جدوجہد صرف اپنی اور اپنی بہن کی زندگی بچانے کے لئے تھی۔ وہ اسی جدوجہد میں اپنی زندگی ہار گئے۔ میرا اشارہ خاندان کے ان سرداروں کی طرف ہے‘ جو آج تک بھٹو کی سیاسی جانشینی کے لئے ہر جرم کرنے پر کمربستہ ہیں۔ بے نظیر کوبے بسی کی حالت میں اپنے پاپا کی جماعت کو سنبھالنا پڑا۔ ایسا کرنے کے لئے انہیں پارٹی کے اندر ایسے لوگوں کی موجودگی اور شمولیت بھی برداشت کرنا پڑی‘ جو انہیں پسند نہیں تھے۔ مگر ان کی ضرورت ‘ مجبوری بن گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بے نظیرشہید کی پیپلزپارٹی بھی اس خالص بنیادی مواد سے محروم ہو چکی تھی‘ جس پر پیپلزپارٹی نے عوامی تائید و حمایت کی بلندوبالا عمارت کھڑی کی۔ و ہ عمارت تنظیمی اعتبار سے مسمار ہو چکی ہے۔ بلاول بھٹو کو اپنے نانا کی پارٹی دوبارہ منظم کرنے کے لئے ازسرنو تعمیرکرنا پڑے گی۔ وہ تمام گندے انڈے‘ جو پارٹی کی ٹوکری میں بھر چکے ہیں‘ ان سب کو نکال کر پھینکنا ہو گا۔ اپنے والد محترم کی سیاست سے مکمل لاتعلقی اختیار کر کے‘ پرعزم اور باہمت نوجوانوں کے ساتھ ایک نئی تنظیم کھڑی کرنا ہو گی۔ پاکستان کے نئے سیاسی میٹریل میں کوئی بھی ایسا نہیں‘ جو بلاول کی پیپلزپارٹی میں کام کرنے کا اہل ہو۔ لیکن نوجوان نسل میں دیانتداری اور خدمت کا جذبہ رکھنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اسے جب بھی سیاست کے انقلابی دھارے میں شامل ہونے کا موقع ملا‘ تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک طوفانی قوت میں بدل سکتے ہیں اور اس طوفان کی لہریں‘ سیاست کے موجودہ گلے سڑے اور تعفن زدہ کچرے کے ڈھیروں کو بہا کر نیست و نابود کر دیں گی۔بلاول نے اگر اپنی سیاست کے لئے نانا کا میدان چنا‘ تو فتح ہو یا شکست‘ دونوں میں کامیابی اس کا مقدر ہے اور اگر بیٹا بن کر والد محترم کی سیاسی روایت کو آگے بڑھایا‘ تو پھر پیسہ،پیسہ،پیسہ۔اقتدار کے بھوکوں میں ایک اور بھوکے کا اضافہ۔