دلی کی صوبائی اسمبلی کے لئے ہونے والے‘ حالیہ انتخابات میں صرف 15مہینے قبل‘ بنائی جانے والی ایک جماعت نے ‘ بھارت کی ایسی دو قومی جماعتوں کے اوسان خطا کر رکھے ہیں‘ جن میں سے کانگریس‘ ایک صدی سے زیادہ کی سیاسی تاریخ رکھتی ہے جبکہ بی جے پی مختلف پرانی جماعتوں کا ایک مجموعہ ہے‘ جو اپنے اپنے طور پر بھارتی معاشرے میں گہری جڑیں رکھتی تھیں اور وہ سب بی جے پی کا حقیقی یا علامتی حصہ بن چکی ہیں۔ اروند کیچری وال کے متعلق‘ آپ اس کالم میں بہت کچھ پڑھ چکے ہیں۔ اس کی حکومت سازی کے مراحل تک کے حیرت انگیز واقعات بھی آپ کو معلوم ہیں۔ ان دنوں دلی میں حکومت بن جانے کے بعد‘جو دلچسپ قصے کہانیاں سننے میں آ رہے ہیں‘ وہ بھی اپنی طرز کا ایک نیا سیاسی مشاہدہ ہے۔ زندہ دل نوجوان یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ''آپ نے بجلی سستی کر دی‘ شکریہ۔ بل آیا تو دیکھیں گے۔ پانی مفت کر دیا‘ بڑی مہربانی۔ ملنے لگا تو دیکھیں گے۔ دلی کی فضا میں آلودگی بہت زیادہ تھی۔ اسے پچھلی حکومت نے مفت میں ختم کر دیا تھا۔‘‘ اب شہر کے گلی کوچوں میں اس سوال پر خیال آرائیاں ہو رہی ہیں کہ ''عام آدمی کے لئے کتنا بڑا گھر ہونا ضروری ہے؟ اس کی گاڑی کتنی چھوٹی ہونی چاہیے؟‘‘ کیچری وال نے وزیراعلیٰ کے لئے مخصوص‘ شاندار بنگلہ لینے سے تو انکار کر دیا تھا۔ وزیراعلیٰ نے فرمایا کہ انہیں محض ایک ''فلیٹ‘‘ چاہیے۔ افسروں نے بھاگ دوڑ کر کے‘ ایک ایسا ''فلیٹ‘‘ تلاش کیا جو وزیراعلیٰ کے شایان شان بھی ہواور ''فلیٹ‘‘ کہلانے کے لائق بھی۔ کافی بھاگ دوڑ کے بعد ایک ''فلیٹ‘‘ ڈھونڈا گیا۔ اس میں کل 10 کمرے تھے۔ 2 بڑے لان اور 2ہی بڑے ڈرائنگ روم۔ جیسے ہی اس ''فلیٹ‘‘ کی خبریں اخباروں میں آئیں‘ بحث ہونے لگی کہ کیا اس بنگلے کو فلیٹ کہا جا سکتا ہے؟ ظاہر ہے ہر بڑے شہر کی طرح‘ دلی میں بھی آبادی کی اکثریت چھوٹے گھروں میں رہتی ہے اور ''عاپ‘‘ (عام آدمی پارٹی) کے فیصلے بھی گلی کوچوں میں ہوتے ہیں۔ کارکنوں کی بھاری اکثریت نے اسے فلیٹ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ کیچری وال نے کہا کہ ''جس رہائش گاہ کو عام آدمی فلیٹ نہیں سمجھتا‘ میں اس میں نہیں رہوں گا‘‘ اور امیرانہ فلیٹ میں رہنے سے انکار کر کے حکم دیا کہ ''ان کے لئے مزید چھوٹا گھر تلاش کیا جائے۔‘‘ ایک طرف عام آدمیوں کا خیال تھا کہ سابق وزیراعلیٰ شیلاڈکشٹ کے گھر سے‘ جو رہائش گاہ ذرا بھی چھوٹی ہو‘ اسے فلیٹ قرار دے دیا جائے۔ یہ تو آپ پڑھ چکے ہوں گے کہ ''عاپ‘‘ کے حکومتی فیصلے گلی کوچوں میں ہوتے ہیں۔ کارکن گھر گھر جا کر ‘ عام آدمی سے رائے مانگتے ہیں ۔ ایس ایم ایس چلتے ہیں اور پھر اجتماعی رائے جس بات کے حق میں ہوتی ہے‘ اسے مان لیا جاتا ہے۔ کچھ زندہ دلوں نے کہا کہ شیلاڈکشٹ کی کوٹھی سے 50سے 60 فٹ کم رقبے کا بنگلہ تلاش کر کے‘ وزیراعلیٰ کو قائل کیا جائے کہ عام آدمی آپ کو اسی گھر میں دیکھنا چاہتا ہے۔
لیکن جب انہیں نئے ''فلیٹ‘‘ کے کوائف معلوم ہوئے‘ توانہوں نے اپنی غریبی پر لیکچر دینے کے بعد حکم دیا کہ ان کے لئے ایک بہت ہی چھوٹا فلیٹ چاہیے۔ 2کمرے کافی رہیں گے۔البتہ سٹاف کے لئے فلیٹ کے ساتھ دوتین کمرے مزید ڈھونڈ لئے جائیں اور ایک بڑا کمرہ‘ ملاقاتوں کے لئے آنے والے عوام کی نشست گاہ بنانے کے لئے حاصل کر لیا جائے۔
ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی گلی کوچوں میں زیربحث ہے۔ ہر عام آدمی اپنے آپ کو حکومتی امور چلانے کا ذمہ دار سمجھتے ہوئے‘ لمبی چوڑی مشاورت میں مصروف ہے کہ وزیراعلیٰ کو کہاں پر رکھا جائے؟ بعض دوراندیش ایک اور مسئلے پرسوچ رہے ہیں کہ فلیٹ کا مسئلہ حل کرنے کے بعد‘ ٹرانسپورٹ کے لئے کیا عوامی طریقے استعمال کئے جائیں؟ ابھی صرف ایک وزیراعلیٰ اور 5وزراء پر مشتمل ایک چھوٹی سی کابینہ ہے۔ وزیراعلیٰ اور ان کے وزیر‘سب کے سب میٹرومیں آئے اور سیکرٹریٹ کے میٹروسٹیشن پر اترنے کے بعد‘ اپنی اپنی سواری لے لی۔ دفتر تک جانے کے لئے وزیراعلیٰ نے ذاتی کھٹارا گاڑی ہی استعمال کی۔ جبکہ وزراء اب سرکاری گاڑیوں پر مہربان ہونے لگے ہیں۔ ایک وزیرصاحب سے پوچھا گیا کہ وہ سرکاری گاڑی کے استعمال پر کیوں تیار ہو گئے؟ تو ان کا جواب تھا کہ ''صبح میں نے اپنا اے ٹی ایم کارڈ‘ اپنی بیوی کو دے دیا تھا اور اس کی گاڑی میں اتنا بھی پٹرول نہیں تھا کہ دفتر آ سکے‘‘۔ ''عاپ‘‘ کے نمبر 2وزیر نے بتایا کہ ان کی گاڑی خراب ہو گئی تھی۔ بی بی سی کے مطابق کابینہ کی ٹرانسپورٹ کا مسئلہ جلد حل ہونا مشکل ہے۔ سرکاری ٹرانسپورٹ کے حق اور مخالفت میں دو لابیاں اپنے اپنے دلائل کے ساتھ بحث کر رہی ہیں۔ ایک گروپ کا خیال ہے کہ جب سرکاری گاڑیاں بے کارکھڑی ہیں اور کسی کے استعمال میں بھی نہیں آئیں گی‘ تو پھر کیوں نہ انہی کو استعمال کر لیا جائے؟ دوسرا گروپ مصر ہے کہ ہمیں اپنے وعدے پر قائم رہنا چاہیے۔ وزیرلوگ ابھی سے آٹورکشہ اور ٹیکسی میں بیٹھنے سے کترانے لگے ہیں۔ وزیربننے کے بعد بھی اگر پہلے کی طرح دھکے کھانا ہیں‘ تو الیکشن لڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ ایک دلیل یہ آئی کہ کسی بیرونی ملک کا صوبائی گورنر یا مرکزی وزیر‘ دلی کے وزیراعلیٰ سے ملاقات کے لئے‘ وقت مقررہ پر ان کے دفتر پہنچ جائے اور وزیراعلیٰ صاحب ٹریفک جام میں پھنسے رہ جائیں‘ تو ان سے کیا کہا جائے؟ کہ وزیراعلیٰ کی گاڑی ٹریفک میں پھنسی ہے۔ اس لئے آپ کو انتظار کرنا پڑے
گا۔حقیقت میں چور اچکوں کی پارٹیوں یعنی کانگریس اور بی جے پی کے ایجنٹ‘ ایسی خبریں
اور افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ انہیں عام آدمی حکومت کرتا ہوا اچھا نہیں لگ رہا۔ وہ ان کی ناتجربہ کاری اور اناڑی پن کا مضحکہ اڑاتے ہوئے‘ پھبتیاں کہتے ہیں کہ ''عاپ کے لیڈر پہلے اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کے طور طریقے سیکھ لیں‘ حکومت کرنے کے لئے ابھی بڑا وقت پڑا ہے۔‘‘ بی جے پی اور کانگریس کے لیڈر اپنے پسندیدہ اخبارنویسوں کو چپکے سے ایک آدھ سوال بتا کر‘ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ''عاپ‘‘ کے لیڈروں کا جی بھر کے مضحکہ اڑاتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی نیا کام نہیں ہو رہا۔ دنیا میں جب جب اور جہاں جہاں کسی بڑی تبدیلی نے جنم لیا‘ روایتی حکمران طبقوں نے ان کا اسی طرح مضحکہ اڑایا۔ تھوڑے عرصے تک کسانوں‘ دہقانوں‘ مزدوروں اور خوانچے ریڑھی والوں نے اقتدار کے مزے لوٹے اور اس کے بعد سرکاری ضروریات حاوی ہونے لگیں۔ کچھ انقلابیوں نے افسروں کو اپنا استاد مان کر‘ ان سے ''ارباب اقتدار‘‘ بننے کے طور طریقے سیکھے اور بعض عہدوں کے لئے تجربہ کار پارٹیوں کے ان لیڈروں کو ذمہ داریاں دینے لگے‘ جوکانگریس اور بی جے پی کی حکومتوں میں رہ چکے تھے۔ ایسا ہمیشہ ہوتا ہے۔ پرویزمشرف پر غداری کا مقدمہ قائم والے وزیراعظم نوازشریف بھی‘ اپنی کابینہ میں مشرف کے تربیت یافتہ وزیروں اور مشیروں کو شامل کرنے پر مجبور ہیں۔ انقلاب مختلف طریقوں سے برپا ہوتے ہیں۔ کہیں باغیوں کا چھوٹا سا گروہ ‘ اقتدار کے مرکز پر قبضہ جما کے‘ انقلاب پھیلانے کا راستہ اختیار کرتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ جو سٹیٹ مشینری وہ کھڑی کرتا ہے‘ آخرکار وہ روائت بن جاتی ہے۔ ابھی تک ایسا کوئی انقلاب برپا نہیں ہوا‘ جو اپنی بنیاد رکھنے والوں کے خوابوں کی حقیقی تعبیر کہلا سکے۔ اب تک جتنے بھی انقلاب آئے ہیں‘ ان کی ابتدا جمہوری طریقوں سے بھی ہوئی اور انقلابی خونریزیوں سے بھی۔ نتیجہ عموماً کسی تیسرے نظام کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ کہیں پر مختلف طرز کی جمہوریتوں کے روپ میں اور کہیں آمریتوں کے نئے نئے روپ میں۔ آج تک انسانی معاشروں کو نہ کبھی پوری جمہوریت میسر آئی ہے اور نہ انقلاب۔ کیچری وال کا انقلاب بھی7ارب انسانوں کے سمندر میں‘ ایک چھوٹے سے بلبلے کی حیثیت رکھتا ہے‘ جو یقینی طور پر یا اپنے ملک کے جمہوری ادارے کا حصہ بن جائے گا یا خود سمندر میں بدل کر ‘ دوسری جماعتوں اور نظریوں کو اپنے وجود کا حصہ بنا لے گا۔ مگر یہ چھوٹی سی تبدیلی جس معاشرے میں برپا ہوئی‘ اسے بدلنے میں انتہائی اہم کردار ضرور ادا کرے گی۔کانگریس اور بی جے پی کی اعلیٰ قیادتیں آج ان سوالوں پر بحث کر رہی ہیں‘ جو ''عاپ‘‘ نے اپنے منشور میں اٹھائے ہیں۔ کیچری وال اور ان کے ساتھیوں نے جو کچھ کر دکھایا ہے‘ اس پر بہت کچھ لکھا جاتا رہے گا۔تبدیلی کا ننھا سا بچہ لپک کے روایتی پارٹیوں کی گود میں چڑھ گیا ہے۔ ان پارٹیوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی یہ بچہ اپنے اپنے گھروں میں پالنا پڑے گا۔