آج سمیت‘ گزشتہ تین دنوں کے اخبارات پڑھ کر شمشاد احمد خان کا یہ حیرت انگیز انکشاف‘ تکلیف دہ سچائی بن کر سامنے آتا ہے''آج کی دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے‘ جو اپنی ہی سرزمین پر‘ اپنے ہی لوگوں کے خلاف‘ ایک مکمل جنگ لڑ رہا ہے۔‘‘چلئے! کسی میدان میں تو سبقت پائی۔اس اعزاز کا تفصیل سے جائزہ لیں‘ تووطن عزیز کی مزید خوبیاںعیاں ہوتی ہیں۔ مثلاً ہمارے ہاں انسانی قتل کے بعض ایسے اسلوب‘ ایحاد ہوئے جو کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ جیسے کراچی کے لاپتہ مقتول۔ یہ بدنصیب شہر‘ جہاں مہینوں میں کہیں پر کسی قتل کی خبر آیا کرتی تھی‘اب ناشتہ بھی چار پانچ انسانی لاشوں سے کرتا ہے۔ عموماً یہ ''لاپتہ‘‘ افراد ہوتے ہیں‘ جن کے نام اور پتے پولیس بعدازقتل تلاش کرتی ہے اور جن کا پتہ نہ چلے‘ انہیں گمنام قرار دے کر دفن کر دیا جاتا ہے۔ ان بدنصیبوں کے وارث ملتے ہیں اور نہ قاتل۔ مرنے والے کے وہم و گمان میں نہیں ہوتا کہ اسے کوئی قتل کرے گا۔ یہ عزت عموماً ایسے لوگوں کے حصے میں آتی ہے‘ جو قتل ہونے کی صورت میں کسی نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہوں۔ لیکن لاپتہ مقتولوں میں بیروزگار‘ سہارے کی تلاش میں گھروں سے نکلنے والے یا دوپہر کی روٹی کے لئے قرضہ ڈھونڈنے والے ہوتے ہیں۔ کچھ برس پہلے تک کراچی میں ایسے بیکار لوگوں کا ‘ کوئی مصرف نہیں تھا۔ اب ان کی مانگ اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ قاتل ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خاطر ‘ نماز پڑھتے ہی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں اور جس کا دائوپہلے چلتا ہے‘ شکار پر ہاتھ صاف کر کے رفوچکر ہو جاتا ہے۔
کچھ سال پہلے تک کراچی میں یہ مال یا جنس دستیاب نہیں تھی۔ ہر طرح کے لوگ موجود تھے۔ مگر مقتول بننے والا مال نظر نہیں آتا تھا۔ ظاہر ہے‘ طلب و رسد کے تجارتی اصول‘ کی وجہ سے نہ تو مال کی مانگ تھی اور نہ ضرورت مندوں کی۔ اس بڑے شہر میں ‘سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگ ہر طرف گھومتے رہتے لیکن کسی کو اپنامصرف سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ ایسے لوگ خود بھی بہت پریشان رہا کرتے کہ'' آخر خدا نے ہمیں کس لئے بنایا ہے؟ روزگار ہمارے لئے نہیں۔ رہائش ہمارے لئے نہیں۔ روٹی ہم صبح سے ڈھونڈنے نکلتے ہیں‘ تو رات کو کسی لنگر پہ مشکل سے ملتی ہے۔ وقت گزارنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ خدا نے ہمیں دردبھرے فلمی گانے گانے کے لئے بنایا ہے۔‘‘بہت سے لوگ ایسی زندگی بھی گزار لیا کرتے تھے۔ کرتے بھی کیا؟ خود مرنے کو دل نہیں چاہتا۔مارنے والا کوئی تھا نہیں۔ بہت برے دن گزرا کرتے تھے اور پھر یوں ہوا کہ خدا نے ان لوگوں کی سن لی۔ کراچی میں پہلے صرف غنڈے‘ کرائے کے قاتل یا ذاتی دشمنی پالنے والے لوگ ‘ قتل کیا کرتے تھے۔ ان میں صرف کرائے کے قاتل ایسے تھے‘ جنہیں مارنے سے پہلے مقتول کا اتہ پتہ معلوم ہوتا تھا۔ ظاہر ہے‘ جو شخص قتل کا سودا کرے گا‘ مقتول کا اتہ پتہ لازماً بتائے گا۔ گویا اس زمانے میں ہر قاتل کو علم ہوتا تھا کہ وہ کس کی جان لے رہا ہے؟ پھر ایسا وقت آیا کہ قتل کی ایک نئی مارکیٹ پیدا ہونے لگی۔ اس مارکیٹ میں قاتل کے لئے مقتول کی شناخت کرناضروری نہیں تھا۔ سیاسی پارٹیوں کے لئے ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ انہیں اپنے اپنے ملیٹینٹ ونگز بنانے پڑ گئے۔ ان میں ایسے جوشیلے‘ پھرتیلے اور جاں نثار نوجوان شامل کئے جاتے‘ جواپنے اپنے قائد کے وفادار ہوتے۔ اس پر اپنی جان نثار کرنے کے لئے ہر وقت بیتاب رہتے۔ سیاسی پارٹیوں کے جتھوں کے نعرے اتنے مقبول ہوئے کہ ہمارے ایک سابق چیف جسٹس صاحب بھی‘ ان سے لطف اندوز ہونے لگے۔ جب ان کے حواری جلوس نکالا کرتے‘ چیف جسٹس کے حواری؟ جی ہاں! تب ایسا ہی ہوتا تھا۔ چیف جسٹس صاحب کے نام پر ‘ کچھ ایسے نعرے لگا کرتے ''چیف تیرے جاں نثار‘ بے شمار بے شمار۔‘‘ ریٹائرمنٹ کے بعد جب جلوسوں میں روشنی نہ رہی‘ تو اس نعرے کا جوش و خروش بھی ڈھیلا پڑ گیا اور اس کی جگہ ڈوبتی ہوئی آوازوں میں یہ نعرہ سنائی دینے لگا۔ ''چیف تیرے جاں نثار‘ ایک دو تین چار۔‘‘
جاں نثاری کے یہ نعرے اصل میں کراچی کے سیاسی قائدین کے ناموں پر لگا کرتے تھے۔ ہر پارٹی کے جاں نثاروں کے الگ الگ برانڈ‘ الگ الگ یونیفارم‘ الگ الگ پستول اور الگ الگ اسٹائل سامنے آ گئے۔ جاں نثاروں کو صرف ایک بات کا علم ہوتا ہے کہ انہیںکسی کو قتل کرنا ہے۔ اس کے سوا کوئی پابندی نہیں۔ ان کا چیف نہ کسی کا نام لے کر بتاتا ہے کہ اسے گولی مارو؟ نہ اسے تصویر دکھائی جاتی ہے۔ نہ نامزدمقتول کا اتہ پتہ۔ حد یہ کہ مقام قتل کا انتخاب بھی‘ قاتل کو خود ہی کرنا ہوتا ہے۔جاں نثاروں کو صرف واردات سے تھوڑی ہی دیر پہلے آرڈر ملتا ہے کہ فلاں پارٹی کے علاقے میں جا کر‘ اتنی لاشیں گرا دو۔ باقی سب کچھ قاتل کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وہ اپنے ذوق کے مطابق شکار کا انتخاب کرتا ہے۔ سائیکل پر جاتا ہوا دبلا پتلا آدمی۔ موٹا آدمی۔ بوڑھا شخص۔ نوجوان۔ نوعمر۔ موٹر سائیکل سوار۔ فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والا۔ اتنی کھلی چوائس تو سبزی کے خریدار کو بھی نہیں ملتی۔ سبزیوں کے بھائو ہوتے ہیں۔ کچھ مہنگی‘ کچھ سستی۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ خریدار سبزی کوئی خریدنا چاہتا ہے اور ریٹ زیادہ ہوں ‘ تو مجبوراً دوسری خریدتا ہے۔ لیکن مقتولوں کی منڈی میں نہ ریٹ ہوتے ہیں‘ نہ بھائو تائو۔ پسند کا پیس ڈھونڈو اور پھڑکا دو۔
ہر پیشے سے وابستہ لوگ‘ اپنے اپنے کام کے نئے نئے اسٹائل پیدا کر لیتے ہیں اور اسی حوالے سے ان کی شناختیں بھی بنتی ہیں۔ کوئی سافٹ شوٹر کہلاتا ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ مقتول کو چوکس ہونے کا موقع دیئے بغیر گولی مارتا ہے اور نشانہ ایسی جگہ لگاتا ہے کہ گولی لگتے ہی‘ جان نکل جائے۔ گولی اندر‘ دم باہر۔ ایسے شوٹر کا ایک کارنامہ چند روز پہلے ٹیلیویژن پرباربار دکھایا گیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی کمرشل چلائی جا رہی ہو۔ ظاہر ہے کوئی شوٹنگ کمپنی اپنی مشہوری کے لئے ایسا کر سکتی ہے۔ وہ منظر یا اشتہار کچھ یوں تھا کہ پولیس کی یونیفارم میں دو نوجوان موٹر سائیکل پر جا رہے تھے۔ ایک شوٹر نے کمال مہارت سے پیچھے بیٹھے ہوئے کانسٹیبل کوگولی ماری اور وہ چشم زدن میں یوں جاں بحق ہوا کہ اس کا آدھا دھڑ زمین پر تھا اور آدھا موٹر سائیکل پر۔ایسا ماہرانہ قتل بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کہ گولی کا نشانہ بننے والا پوری طرح زمین پر بھی نہیں گر پاتا۔ اس کی جان درمیان میں ہی نکل جاتی ہے اور لاش لٹکی رہ جاتی ہے۔ بعض قاتل بڑے جلاد صفت ہوتے ہیں۔ وہ صرف قتل ہی نہیں کرتے بلکہ نشانہ ایسی جگہ پر لگاتے ہیں کہ مقتول کی جان فوری طور سے نہ نکل پائے۔ پتہ نہیں وہ اسے تڑپتے ہوئے دیکھنے کی خاطر ایسا کرتے ہیں یا خدا ترسی کی وجہ سے؟ تاکہ مقتول کو جان دینے سے پہلے‘ چند مزید سانسیں لینے کا موقع مل جائے۔ میرے ایک صحافی دوست نے کچھ دن پہلے جاں نثاروں کے ایک گروپ میں علیک سلیک پیدا کر لی۔وہ ان کے جدیدترین پیشے کے اسرارورموز سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ اسے پتہ چلا کہ جاں نثاروں کو ہمہ وقت ڈیوٹی کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے۔ وہ گہری نیند بھی سوئے ہوں تو آرڈر موصول ہونے کے پانچ منٹ بعد وہ ایکشن کے لئے روانگی کے پابند ہوتے ہیں۔ تاخیر کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایک سیکنڈ پہلے نکل گیا‘ تو جاں نثار کی قسمت اور ایک سیکنڈ لیٹ ہو گیا‘ تو خوش قسمتی کہ زندگی سے نجات مل گئی۔ آرڈر میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کتنے شوٹر ڈیوٹی پر جائیں گے؟ اسی تناسب سے دو یا تین موٹرسائیکلیں اسٹارٹ کھڑی ہوتی ہیں اور وہ پلک جھپکنے میں ٹارگٹ کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ آرڈر میں انہیں بتا دیا جاتا ہے کہ وہ کتنی لاشیں گرائیں گے؟ دو۔چار۔ پانچ۔ دس۔ انہیں مقررہ تعداد میں لاشیں گرا کے فوراً ہی موقع سے فرار ہونا پڑتا ہے۔ میرے دوست نے پوچھا کہ ''کیا آپ یہ بھی نہیں دیکھتے؟ کہ کس کو مارنا ہے اور کسے نہیں مارنا؟‘‘ سارے شوٹروںنے بیک وقت ہنستے ہوئے جواب دیا کہ''ہم یہ نہیں دیکھتے کہ مقتول کون ہے؟ ہمیں گنتی پوری کرنا ہوتی ہے۔‘‘ کراچی میں جتنے بھی لوگ قتل ہوتے ہیں‘ ان میں سب سے بے فکری کی زندگی وہ گزارتے ہیں‘ جنہیں فرشتہ اجل کے سوا‘ کسی بھی طرف سے موت کا خطرہ نہیں ہوتا۔ وہ صرف ایک ہی صورت میں ہلاک ہو سکتے ہیں ‘ جب کسی کو گنتی پوری کرنا ہو۔یعنی ایک پل کی بات۔ پہلے نہ کوئی خوف‘ نہ خطرہ۔خود ہی کہیے کہ اگر اجل کا فرشتہ اپنی چوائس کی موت کا موقع دے‘ تو اس سے بہتر چوائس کیا ہو سکتی ہے؟