"NNC" (space) message & send to 7575

یہی تاریخ کا سبق ہے

طالبان کے ساتھ مذاکرات سے اگر کسی کوامید ہے کہ کوئی نتیجہ حاصل ہونے پر‘ دہشت گردی اور بدامنی کے ستائے ہوئے پاکستانی عوام کو‘ امن نصیب ہو جائے گا‘ تو اسے طویل عرصے تک صبر کرنا ہو گا۔ یہ درست ہے کہ مذاکرات شروع کرتے وقت‘ دونوں فریقوں نے فائربندی کا اہتمام نہیں کیا لیکن جب دو برسرپیکار حریفوں میںاعلیٰ سطح پر مذاکرات کا فیصلہ ہو جائے‘ تو خلوص نیت کا اظہار کرنے کی خاطر فائربندی کر دی جاتی ہے۔ اس کا تذکرہ تک نہیں ہوا۔ شاید ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ میں نے حکمت عملی کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ طالبان اپنی ایک دو اتحادی تنظیموں کو کارروائیاں جاری رکھنے پر لگا دیں گے اور سوال اٹھایا گیا‘ تو وضاحت میں اپنی لاتعلقی کا اعلان کر کے‘ بری الذمہ ہو جائیں گے۔ میں نہیں جانتا‘ یہ سب کیسے ہو رہا ہے؟ مگر یہ بات درست ثابت ہو ئی کہ مذاکرات شروع ہو گئے اور امن قائم ہونے کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ دہشت گردی اسی رفتار اور شدت سے جاری ہے۔ فرق صرف یہ پڑا ہے کہ اب طالبان ‘ دہشت گردی کی ہر کارروائی کے فوراً بعد‘ اس سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا کریں گے۔ دہشت گردی کے تسلسل کو ‘ طالبان کی حکمت عملی کا حصہ سمجھیں‘ تو باور کرنا پڑے گا کہ وہ مذاکرات کے ساتھ ساتھ ذمہ داری قبول کئے بغیر ‘حکومت پر دبائو بڑھاتے رہیں گے اور اگر طالبان نے‘ اپنے زیراثر تنظیموں کو دہشت گردی سے روک دیا‘ جیسا کہ تازہ کارروائیوں سے لاتعلقی کے اعلانات ظاہر کرتے ہیں‘ تو معاملہ اور بھی تشویشناک ہو جاتاہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہو گا کہ مذاکرات کے نتیجے میں حکومت اور پاکستانی عوام‘ امن کی جو امید لگائے بیٹھے ہیں‘ وہ پوری نہیں ہو گی۔ جن دہشت گردوں نے مذاکرات کے دوران پشاور اور کراچی میں وارداتیں کی ہیں‘ان کی مہارت بھی دہشت گردی کرنے والے طالبان سے کم نہیں۔ وہ بھی سکیورٹی کے سارے نظام کو پامال کرتے ہوئے کامیابی سے اپنے ٹارگٹ تک پہنچے‘ خودکش حملہ آوروں کو استعمال کیا یا اعلیٰ تربیت یافتہ نشانے بازوں سے کام لیا۔ طالبان کی خون آشام کارروائیوں کی وجہ سے ہی‘ حکومت ان کے ساتھ مذاکرات پر تیار ہوئی۔ مذاکرات کے دوران بھی خونریزی کا سلسلہ برقرار رہا اور موجودہ مذاکراتی ٹیموں کے مابین معاہدہ ہو بھی جائے‘ تو عوام کو کیا ریلیف ملے گی؟ دہشت گردی جاری رہے گی۔ خون اسی طرح بہتا رہے گا۔ معیشت اسی طرح بحران میں رہے گی۔ امن کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔مذاکرات کے دوران کچھ ایسی ہی باتیں ہو رہی ہیں‘ جن سے کسی بڑے آپریشن کا سراغ ملتا ہے۔ طالبان نے اپنے وفد میں کوئی عہدیداریا بڑا لیڈر شامل نہیں کیا۔حتیٰ کہ عام کارکن بھی نہیں۔ مذاکرات میرانشاہ میں ہی ہونا تھے‘ تو طالبان کا یہ عذر بے معنی ہو جاتا ہے کہ ان کے ساتھیوں پر مشتمل وفد کی زندگی خطرے میں ہوتی۔ میران شاہ تو سرکاری وفد کے اراکین گئے۔ طالبان کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ مذاکرات بھی ہوئے۔ ڈرون طیاروں نے پروازیں بھی کیں اور وفد بخیروعافیت واپس بھی آ گیا۔ یہی طریقہ کار براہ راست طالبان کے وفد اور سرکاری نمائندوں کے وفود بھی اختیار کر سکتے تھے۔ ایسی صورت میں وہ عدم اتفاقی دیکھنے میں نہ آتی‘جو طالبان کے نظم و ضبط کی پابندی سے آزاد وفد کی انفرادی سرگرمیوںمیں نظر آئی۔ طالبان کے وفد میں نامزد کئے گئے اراکین کی تعداد کیا تھی؟ اور آخر میں کتنی رہ گئی؟عمران خان خود انکار کر گئے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اپنا نمائندہ دینے سے انکار کر دیا۔ مولانا عبدالعزیز نفاذشریعت کا علیحدہ مطالبہ لے کر سامنے آ گئے اور صاف کہہ دیا کہ وہ پاکستانی آئین کے سلسلے میں طالبان کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ مولانا سمیع الحق پہلے تووفد کے رکن بن کر بہت نمایاں ہوئے مگر بعد میں انہوں نے بھی اپنا ایک نمائندہ دے دیا۔ آخر میں طالبان کے نامزد کردہ 5رکنی وفد میں سے صرف ایک باقی رہ گیا اور وہ ہیں جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم۔ ان کی جماعت کا موقف سید منور حسن بیان کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا ‘خودکش بمبار اور بے گناہوں کو ہلاک کرنے والے شریعت نافذ نہیں کر سکتے۔عملی طور طالبان کا بنایا ہوا اصل وفد تحلیل ہو چکا ہے۔خدا جانے سرکاری وفد اب کس کے ساتھ مذاکرات کرے گا؟ 
مذاکراتی وفد میں شامل ہونے سے مولانا عبدالعزیز کو میڈیا اور عوامی رابطوں کا سنہرا موقع حاصل ہو گیا۔ جس کا انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ وہ اپنے اسی تصور اسلام کو لے کر میدان میں آگئے‘ جو وہ لال مسجد میں نافذ کر کے دکھا چکے تھے اور مسجد کے گردونواح میں بسنے والوں کو لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے اسلامی طرززندگی اختیار کرنے کی ''ہدایت‘‘ دیا کرتے تھے۔ ویڈیوشاپس بند کرا دی گئیں۔ ان کا قیمتی سامان سڑکوں پر رکھ کر جلا دیا گیا۔گھروں کے اندر بیٹھی خواتین کو زبردستی اٹھا کر لال مسجد میں لایا گیا۔ چینی شہریوں کو اغوا کر کے سزائیں دی گئیں اور اب ان کے قریبی ساتھی مولانا مسعود اظہر جو لال مسجد آپریشن کے بعد اپنے شہر تک محدود ہو گئے تھے‘ ان کے دوبارہ فعال ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔ طالبان کا ایک نیا گروپ ''احرارالہند‘‘ کے نام سے سامنے آ گیا ہے۔پشاور میں دہشت گردی کے انتہائی المناک واقعہ کی ذمہ داری خود طالبان نے جند اللہ پر عائد کی تھی‘ جس سے پتہ چلا کہ جند اللہ‘ بلوچستان کے بعد اب خیبرپختونخوا میں بھی سرگرم ہو گئی ہے۔ بلوچستان ہی میں ایک اور دہشت گرد گروپ ''جیش العدل‘‘ کے نام سے کارروائیاں کر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں اسی گروپ نے ایرانی سکیورٹی فورسز کے 5 جوانوں کو اغوا کر کے‘ پہلے افغانستان میں رکھا اور بعد میں پاکستان منتقل کر دیا۔ جس پر ایران نے پاکستان سے باقاعدہ احتجاج بھی کیا ہے۔ کراچی میں مذاکرات کے دوران‘ دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھنے والے گروپ کونسے ہیں؟ ان کا ابھی پتہ نہیں۔ لیکن بہرحال ان کے اہداف کو دیکھا جائے‘ تو فرقہ پرستی کا رنگ نظر آتا ہے۔ یہ سب کچھ مذاکرات کا نتیجہ دیکھے بغیر ہی جاری ہے۔ اگر طالبان نے کوئی سمجھوتہ کر بھی لیا‘ تو اس کی پابندی قبول کرنے سے انکار کرنے والے ابھی سے متحرک ہو چکے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ طالبان کی حکمت عملی کا حصہ ہے‘ تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں کرنا چاہیے کہ وہ مذاکرات کوبطور جنگی حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ ان کی آڑ میں وہ پاکستانی میڈیا اور عوام سے براہ راست ہونے والے رابطوں سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور پاکستانی حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور لوٹ مار سے متنفر عوام کو ‘ اسلام کے نام پر نئی امیدیں دلا کر‘ اپنی جنگ کا دائرہ وسیع کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ 
سرکاری اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں اور ان کے اراکین کے درمیان میڈیا پرزوروشور سے چھیڑی گئی بحث سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ نعرہ تو سب اسلام کا لگاتے ہیں مگر اس کی تشریح پر آپس میں بھی اتفاق نہیںہو سکا۔ کابل کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مجاہدین اسلام نے مل کر قابض روسی فوجوں کے خلاف جنگ لڑی۔ جب روس نے فوجیں نکال لیں‘ تو مجاہدین اسلام نے کابل میں شریعت نافذ کرنے کے لئے ‘ باہمی خونریزی کا بازار گرم کر دیا اور وہ خوبصورت شہر جس کی رونقیں دوران جنگ بھی برقرار رہی تھیں‘ کھنڈرات میں بدل گیا اور 99 فیصد مسلمانوں کے ملک میںنفاذ اسلام کے لئے سارے گروہ‘ ایک دوسرے کا خون بہاتے رہے۔ یہاں تک کہ پاکستانی مدرسوں کے طالب علموں نے وہاں جا کر امن قائم کیا۔پاکستانی طالبان جتنی تیزی سے زور پکڑ رہے ہیں‘اسی تیزی سے دوسرے فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اپنا اپنا اسلام نافذ کرنے والے مسلح گروہ‘ جب ایک دوسرے سے نبردآزما ہوں گے تو قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے خوبصورت شہروں کا حال بھی (خاکم بدہن) ایک دن کابل جیسا ہو جائے گا اور آخری فتح اسی طرح کے اسلام کی ہو گی‘ جو افغانستان میں ملاعمر کے پیروکاروں نے نافذ کیا تھا۔ تحریک طالبان پاکستان کے امیر اور اتحادی گروپوں کے لیڈر‘ سب کے سب ملا عمر کو اپنا امیر مانتے ہیں۔ ملا عمر ‘نفاذ اسلام کی راہ میںحائل سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ طالبان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پاکستان فاٹا سے سکیورٹی فورسز نکال لے۔اس پر صرف اتنا عرض کروں گا کہ کابل کا انجام نہ بھلایا جائے۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کا ڈر ختم ہوا‘ تو فاٹا میں ہونے والی خونریزی اس بدنصیب خطے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے گی۔ نمونے کے طور پر طالبان گروہوں کی باہمی جھڑپیں تو پاک فوج کی موجودگی میں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اسے وہاں سے نکال لیا گیا‘ توپھر ''قبضے‘‘ کا تنازعہ شروع ہو جائے گا۔ نام اسلام کا ہو گا اور طرز جنگ قبائلی۔ ابھی تک مذاکرات کا سارا فائدہ طالبان اٹھا رہے ہیں۔ وہ پاکستانی معاشرے میںبطور سٹیک ہولڈر اپنا وجود منوا چکے ہیں۔ سرکاری وفد کے ساتھ بیٹھ کر اپنی جماعت پر لگی پابندیوں کا عملاً خاتمہ کر چکے ہیں۔ زخموں سے چھلنی پاکستانی عوام کے دلوں میں اپنے لئے جگہ بنانے کے راستے پیدا کر چکے ہیں۔ اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی نااہلیوں‘ بدعنوانیوں اور کرپشن سے بیزار عوام کو‘ اسلام کے نام پر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ گلی گلی موجود مساجد اور مدرسوں سے ‘انہیںنئے ریاستی ادارے بنانے کے لئے افرادی قوت آسانی سے مہیا ہو جائے گی اور یہ ہو گی انقلاب کی پہلی لہر‘ جو موجودہ آرڈر کو تہس نہس کر کے پھینک دے گی۔ مولانا حضرات اور مدارس کے لاکھوں طلبا‘ اپنی حکومت بنانے اور مستحکم کرنے کے لئے‘ ہر اس شخص کو جو عوام کی نظر میں بدعنوان‘ ڈاکو‘ لٹیرا اور کرپٹ ہے کے لئے‘ سوات کی طرح ایک چوک مختص کر کے ‘ انصاف کے نظارے دکھائیں گے۔ انقلاب کی پہلی لہر ہمیشہ پرانے آرڈر کو توڑتی ہے۔نتیجے میں انارکی کا بدترین دور شروع ہو جاتا ہے اور تب تک جاری رہتا ہے‘ جب تک نیا آرڈر قدم نہیں جما لیتا۔ یہی تاریخ کا سبق ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں