آخر کار حکومت کو جوابی کارروائی کا فیصلہ کرنا ہی پڑا۔ جس وحشیانہ طریقے سے طالبان نے قتل و غارت گری شروع کر رکھی تھی‘ اسے وزیراعظم نوازشریف نے بڑے صبر اور حوصلے سے برداشت کیا۔ غالباً طالبان یہ پرکھنا چاہتے تھے کہ حکومت میں دبائو برداشت کرنے کی کتنی صلاحیت ہے؟ طالبان کی قیادت‘ گوریلا جنگ کی سائنس میں کافی سمجھدار لگتی ہے۔ پاکستان کی طرف سے اچانک مذاکرات کی پیش کش سے اس نے سمجھا کہ حکومت ‘ دہشت گردی کے مسلسل واقعات سے دبائو میں آ گئی ہے اور مذاکرات کے دوران یہ اندازہ کیا جائے کہ وہ طالبان کو کس طرح زیادہ سے زیادہ سپیس دے سکتی ہے؟پاکستان کے سیاسی منظرنامے کو دیکھ کر طالبان کے حوصلے بڑھ گئے تھے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں مذاکرات کا فیصلہ کسی بھی حریف کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر سکتا تھا کہ پاکستان کی مجموعی سیاسی قیادت‘ جنگ سے بچنے کی کوشش میںہے۔ ظاہر ہے جب ''دشمن‘‘ اس کیفیت میں ہو‘ تو میدان جنگ میں جارحیت پر زور دے کر مذاکرات کی میز پر بہترسودے بازی کی جا سکتی ہے۔ عمران خان‘ جماعت اسلامی‘ جے یو آئی (ف)اور متعدد علمائے کرام کا رویہ واضح طور پر طالبان کو ہمدردانہ محسوس ہوا اور شاید انہوں نے اندازہ لگایا کہ جب وہ میدان جنگ میں دبائو بڑھائیں گے‘ تو ان کے یہ ''ہمدرد‘‘ بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کی دہائی دے کر حکومت کو جلد از جلد سمجھوتے کے لئے مجبور کریں گے اور طالبان‘ فائر بندی کے لئے بہتر شرائط منوا سکیں گے۔انہوں نے اچانک سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر اندھا دھند حملے شروع کر دیئے۔
اس پالیسی کا نتیجہ الٹ نکلا۔ عوام میں شدید اشتعال پیدا ہونے لگا اور وہ سیاستدان جو بظاہر طالبان کی حمایت کر رہے تھے‘ عوامی جذبات کو دیکھ کر طالبان کی مذمت کرنے پر مجبور ہو گئے اور حکومت کے لئے بھی مشکل ہو گیا کہ مذاکرات کے ماحول کو مناسب رکھنے کی جو کوشش وہ کر رہی تھی‘ اسے مزید جاری رکھ سکے۔ خصوصاً ایف سی کے 23 جوانوں کی شہادت کا واقعہ پورے پاکستان پر آسمانی بجلی کی طرح گرا۔ قوم گہرے صدمے کے ساتھ شدید اشتعال میں آ گئی۔ طالبان نے بے گناہ پاکستانیوں کے خون کی اتنی بڑی لکیر کھینچ دی تھی کہ اسے پار کر کے‘ مذاکرات کی میز تک پہنچنا مشکل ہو گیا۔ فوجی افسروں اور جوانوں کی پے درپے شہادتوں کے نتیجے میں‘ فورسزکے جذبات بھی بھڑک چکے تھے اور اگر بروقت فیصلہ نہ کر دیا جاتا‘ تو کئی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی تھیں۔ صاف بات یہ ہے کہ عوام فوری جوابی کارروائی کے لئے بیتاب تھے اور اگر مزید تذبذب کا مظاہرہ کیا جاتا‘ توتھوڑا ہی عرصہ پہلے بحال ہونے والی جمہوریت ‘خطرے میں آ سکتی تھی۔ وہ عناصر آج بھی بااثر اور طاقتور ہیں‘ جو ہمیشہ غیرجمہوری ماحول میں فائدے اٹھاتے ہیں۔ ایسی حالت میں جبکہ مسلح افواج کا پیمانہ صبر بھی لبریز ہونے والا تھا‘ یہ عناصر کسی بھی قسم کا اقدام کر کے‘ جمہوریت کو نقصان پہنچا سکتے تھے۔ فضائی حملوں کا حکم دے کر‘ حکومت نے نہ صرف عوام کو بھڑکے ہوئے جذبات پر قابو پانے کا موقع دیا بلکہ فورسز کی خواہش بھی پوری ہو گئی‘ جس کے تحت وہ اپنے ساتھیوں کا خون بہانے والوں پر جوابی ضرب لگانے کے لئے مضطرب ہو رہے تھے۔ حکومت کو مذاکرات کے معاملے پر ازسرنو غور کرنا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ مذاکرات کا فیصلہ عجلت میں اور مکمل تیاری کے بغیر کر لیا گیا تھا۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ مذاکراتی کمیٹیاں وجود میں آنے کے بعد بھی‘ 21 دنوں میں ایجنڈاتیار نہ کر سکیں۔ ورنہ ایسے حالات میں‘ جب مذاکرات کا فیصلہ ہو جائے‘ تو دونوں فریقوں کی مذاکراتی ٹیموں کو‘ پہلے ہی سے بریف کر دیا جاتا ہے کہ وہ ایجنڈے کی تیاری میں کونسے نکات کو ترجیح دیں؟ یہ مذاکرات کسی بیوروکریٹک معاملے پر نہیں ہو رہے تھے۔ جنگ کا سوال درپیش تھا۔ انسانی خون بہہ رہا تھا۔ عوام پر ایک ایک لمحہ بھاری تھا۔ فطری طور پروہ یہ جاننے کے لئے بیتاب تھے کہ ہماری فوج ‘ بے گناہوں کے قتل عام پر کب اور کیا جوابی کارروائی کرتی ہے؟ اطلاعات کے مطابق ابتدائی حملوں میں دہشت گردوں کو اچھا خاصا نقصان پہنچا ہے۔ ساتھ ہی حکومت نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ طالبان کے خلاف کوئی اعلان جنگ نہیں کیا جا رہا ۔ یہ دہشت گردی کی خونریز کارروائیوں پر جوابی کارروائی ہے اور آئندہ جب بھی دہشت گردی ہو گی‘ پاکستانی فورسز کی طرف سے اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ پرویزرشید کے الفاظ میں ''ایک وار کرو گے‘ تو دو وار کریں گے۔‘‘
جہاں تک پاکستانی عوام کا تعلق ہے‘ یہ جنگ ان کی اپنی ہے اور وہ حکومت اور مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم نے طالبان کی کھلی خونریزی کے باوجود‘ ان کے ہمدردوں کی باتیں سن کر مسلسل جارحیت کے باوجود ‘یہ سوچ کرامید قائم رکھی کہ ''بھٹکے ہوئے لوگ ہیں‘ شاید راہ راست پر آ جائیں۔‘‘ لیکن ہماری کوئی امید پوری نہ ہوئی۔ وزیراعظم نے جرأت مندانہ فیصلہ کر کے‘ طالبان کو مذاکرات کی دعوت دے دی ۔ مگر انہوں نے اسے ہماری کمزور2ی پر محمول کیا اور یہ سمجھا کہ مذاکرات کے دوران پاکستان پر مزید دبائو ڈالنے کے لئے خونریزی میں اضافہ کر دیا جائے۔ میں نے روز اول ہی سے اسے ایک حربی چالبازی قرار دیا تھا۔ وزیراعظم تجربے کے بعد خود بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں- وزراء کے بیانات سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اب دشمن کے ساتھ اسی کی زبان میں بات کی جائے گی۔ مذاکرات کا راستہ بند نہیں کیا گیا۔ لیکن یہ اس وقت تک معطل رہیں گے‘ جب تک طالبان کو سبق نہیں سکھایا جاتا۔ سبق ظاہر ہے یہ ہو گا کہ ان کے ساتھ ہتھیاروں کی زبان میں بات کر کے‘ انہیں باور کرا دیا جائے کہ وہ دہشت گردی کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اگر وہ طویل گوریلا جنگ لڑ سکتے ہیں‘ تو پاکستان کے 18کروڑ عوام ‘ اس سے زیادہ طویل جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آخر کار انہی کو ہانپ کر گرنا ہو گا۔ پاکستان کے اندر طالبان کی حمایت میں جو لوگ آواز اٹھا رہے ہیں‘ انہیں صاف بتا دینا چاہیے کہ اگر وہ حکومت اور پاکستانی عوام کے ساتھ نہیں‘ تو اپنی زبانیں بند رکھیں یا خود طالبان کی صفوں میں شامل ہو جائیں۔ ہمارے اندر رہ کر‘ دشمن کے حق میں بولنا‘ وطن دشمنی کے مترادف ہے۔ دنیا میں کوئی بھی قوم جب حالت جنگ میں ہو‘ تو وہ اپنی صفوں میں دشمن کی حمایت کرنے والوں کو برداشت نہیں کرتی۔ ہمیں بھی یہی طرزعمل اپنانا ہو گا۔
مذاکرات اس وقت تک معطل رکھنا چاہئیں‘ جب تک طالبان کو یقین نہیں دلا دیا جاتا کہ ریاست پاکستان کو مغلوب نہیں کیا جا سکتا۔ اگر انہوں نے ہتھیار نہ ڈالے‘ تو ان کا انجام بھی ناکام باغیوں جیسا ہو گا۔ حکومت نے فیصلہ کن جنگ لڑنے کا تہیہ کر لیا ہے‘ تو لازم ہے کہ عالمی رائے عامہ کی حمایت حاصل کی جائے۔ دہشت گرد ‘ ہمارے ہی نہیں دنیا بھر میں امن و استحکام کے دشمن ہیں۔ انہوں نے ہماری سرزمین پر اپنے جو اڈے بنا رکھے ہیں‘ وہاں سے دیگر ملکوں کے اندر دہشت گردی کرنے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں اور بیرونی دہشت گرد‘ ان کے مراکز میں تربیت حاصل کرتے ہیں۔ اگر پاکستان‘ دہشت گردوں پر قابو پا کے ان کی جارحانہ صلاحیتوںکو ختم کرتا ہے‘ تو اس سے پوری دنیا کو فائدہ پہنچے گا۔ ہم اپنی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ تمام امن پسند قوموں کا فرض ہے کہ وہ اس جنگ میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے وسائل پر پہلے ہی ہماری بساط سے زیادہ بوجھ ہے۔ ہمیں جنگ کے اخراجات ہی نہیں اٹھانا‘ جنگ کے متاثرین کو بھی سنبھالنا ہے۔ ان بیکار نوجوانوں کے لئے روزگار کا بندوبست بھی کرنا ہے‘ جو بھوک اور غریبی کے ہاتھوں تنگ آ کر دہشت گردوں کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ دہشت گردوں کو ملنے والی مالی امدادپر بھی نظر رکھنا ہو گی اور اپنی شہری آبادی اور دفاعی تنصیبات کی حفاظت پر بھی خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ میں 1965ء کی کیفیت یاد دلائوں گا۔ اس وقت پاکستان کا ہر شہری‘ جنگ کا سپاہی بنا ہوا تھا اور دشمن نے ہمارے شہروں اور کھیتوں میں جو جاسوس اتارے تھے‘ انہیں عوام نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا۔ اگر پاکستان کے تمام شہری اپنے آپ کو حالت جنگ میں سمجھتے ہوئے‘ ہر اجنبی کی نگرانی کریں اور شک کی صورت میں اسے حکام کے حوالے کرنے لگیں‘ تو دہشت گردوں کا جال دیکھتے ہی دیکھتے ٹوٹ جائے گا۔غیرملکی فوجیں حملہ کرتی ہیں‘ تو ان کے مقابل بھی فوج ہوتی ہے۔ لیکن دہشت گرد‘ نہتے عوام پر حملے کرتے ہیں۔ مقابلے کے لئے بھی عوام ہی کو سپاہی بن کر مقابلہ کرنا ہو گا۔جب تک یہ جنگ جاری ہے‘ دشمن کے جاسوسوں اور حامیوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلح افواج‘ منتخب حکومت اور پاکستانی عوام کو فتح یاب فرمائے۔ آمین