اپنی گزشتہ دو حکومتوں کے دوران نوازشریف ‘لیڈر بن کر امور مملکت چلاتے رہے۔ اس بار فیصلہ کن اکثریت لے کر وزیراعظم تو بن گئے لیکن قوم کو لیڈرشپ نہیں دے پا رہے۔ کسی بھی ملک کا انتظامی سربراہ یا تو ابتدائی ایام میںاپنی قائدانہ حیثیت منوا لیتا ہے اور اگر چند ہفتے لگامیں تھامے بغیر گزر جائیں‘ تو پھر دوبارہ قیادت سنبھالنے کا موقع‘ کوئی معجزہ ہی دلائے تو دلائے‘ ورنہ گنجائش نہیں رہتی۔ ان کے برعکس پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف نے ‘ ابتدائی لمحات میں انتظامیہ پر گرفت قائم کر کے‘ اپنی سمت متعین کر دی تھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ وفاق میں نوازشریف کے ڈھیلے ڈھالے انتظامی طرزعمل کے ہوتے ہوئے بھی شہبازشریف صوبائی حکومت کو موثر انداز میں چلا رہے ہیں۔ عوام جب دونوں کا موازنہ کرتے ہیں‘ تو یہ تضاد مزید واضح ہو جاتا ہے۔یہ تو وقت بتائے گا کہ نوازشریف نے دہشت گردوں کے ساتھ خیرسگالی کا مظاہرہ کر کے‘ امن کا راستہ ہموار کیا ہے یا دہشت گردی کو مزید پھیلنے کا موقع دیا ہے؟ لیکن ہم باہر بیٹھے ہوئے لوگ ڈر رہے ہیں کہ فائربندی اور مذاکرات کی پالیسیاں‘ دہشت گردوں کے حوصلے مزید بڑھائیں گی۔ نئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے اپنے پیشرو کے برعکس فوج میں وقت کے تقاضوں کے مطابق پالیسی اختیار کی۔ انہوں نے عملی اقدامات سے دہشت گردوں کو واضح پیغام دیا کہ وہ ان سے کسی نرمی کی امید نہ رکھیں۔
مجھے تو اس پر یقین نہیں لیکن عام تاثر یہی ہے کہ دہشت گردوں کے مراکز پر ہوائی حملوں کا فیصلہ ‘جنرل راحیل نے خود کیا۔ میری رائے اس سے مختلف ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ تاثر طے شدہ حکمت عملی کے تحت پیدا کیا گیا۔ وزیراعظم نے ہاتھ میں پھول رکھا اور جنرل راحیل کے ہاتھ میں گن رہنے دی۔ اس پالیسی کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دہشت گرد خود فیصلہ کر لیں‘ وہ پاکستان سے کیا چاہتے ہیں؟ اگر وہ اپنی جارحیت جاری رکھیں گے‘ تو اس کے لئے فوج تیار ہے اور اگر ہتھیار پھینک کر امن کی طرف آئیں گے‘ تو انہیں معمول کی زندگی میں واپس آنے کا موقع بھی فراہم کیا جائے گا۔ مگر حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں‘ ان میں بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ آپ کو یادہو گا ‘جب سے وزیراعظم کی طرف سے مذاکرات کا اعلان کیا گیا ہے‘ دہشت گردوں کے حوصلے بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے اس پیش کش کو دانائی اور امن پسندی کی علامت سمجھنے کی بجائے‘ انتہاپسندوں کی روایت کے مطابق‘ پاکستان کی کمزوری پر محمول کیا۔ابتدائی رابطوں میں ان کا رویہ انتہائی جارحانہ تھا۔ جو شرطیں پہلے رکھی گئیں‘ انہیں قبول کرنے کا مطلب یہ تھا کہ ایک ایٹمی ریاست‘ ان کے چار دستی بموں سے مرعوب ہو کر‘ شرطوں کے نام پر ان کی بالادستی تسلیم کر لے۔ آئین سے دست بردار ہو جائے اور اس کا نیا ڈرافٹ طالبان ڈکٹیٹ کریں۔ دہشت گردی کے جواب میںپاکستانی فوج اور انتظامیہ کی کارروائیوں سے‘ طالبان کے جن حامیوں کو نقصان پہنچا‘ اس کی تلافی کے نام پر‘ پاکستان تاوان جنگ ادا کرے۔ دوسرے لفظوں میں طالبان نے مذاکرات کے دوران اپنی فتح کی دستاویز کو‘ تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ظاہر ہے دنیا کی کمزور سے کمزور ریاست بھی ان مطالبات کو نہیں مان سکتی۔ جب پاکستان کی طرف سے دوٹوک الفاظ میں جواب دیا گیاکہ یہ شرائط تسلیم نہیں کی جا سکتیں‘ تو طالبان کا رویہ ایک دم بدل گیا اور وضاحتیں کی جانے لگیں کہ انہوں نے یہ مطالبے کئے ہی نہیں تھے۔ لیکن الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ‘ وہ اپنے موقف پر قائم رہے اور ساتھ ہی دہشت گردی میں اضافہ کر کے‘ دبائو ڈالنا شروع کر دیا کہ اگر پاکستان نے لچک نہ دکھائی‘ تو وہ دہشت گردی میں اضافہ کریں گے۔ مثالیں دینے کے لئے انہوں نے ڈیفنس فورسز کو بطور خاص نشانہ بنایا۔ خصوصاً کراچی میں پولیس ملازمین پر حملہ کر کے 10اہلکاروں کو شہید کیا اور پھر ایف سی کے 23جونیئرافسروں اور جوانوں کوسفاکانہ طریقے سے شہید کر کے‘ ان کے سر کاٹے گئے اور شہیدوں کے بے جان جسموں کی جس انداز میں توہین کی گئی‘ وہ ناقابل برداشت تھی۔ اس پر بھی فوج کا پیمانہ صبر لبریز نہ ہوتا‘ تو دہشت گردوں کے حوصلے آسمانوں کو چھونے لگتے۔ عوامی توقعات کے عین مطابق‘ فوج نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر‘اسی انداز میں بمباری کی‘ جو قید کئے گئے نہتے اہلکاروں کے خون ناحق کی پکار کا ‘دلیرانہ جواب ہے۔ صرف دو دن کی فضائی کارروائیوںسے طالبان لیڈروں کے مزاج ٹھکانے آگئے اور جس فائربندی کے مطالبے پر وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے‘ اچانک اس کا غیرمشروط اعلان کر دیا۔
دہشت گردی کی جنگ میں اس طرح کے دائو پیچ سے کام لینا‘معمول کی بات ہے۔اس کھیل کو ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔''دشمن ایک قدم آگے بڑھے‘ تو دو قدم پیچھے ہٹ جائو اور دشمن دو قدم پیچھے ہٹے‘ تو ایک قدم آگے بڑھا لو۔‘‘دہشت گرد علاقوں پر قبضہ کرنے کی جنگ نہیں لڑتے۔ وہ حوصلوں‘ عزائم اور ارادوں کو توڑ کر‘ دشمن کی قوت حرب پر ضرب لگاتے ہیں۔ عزم مزاحمت کو کمزور کرتے ہیں ۔ کبھی امیدیں پیدا کر کے اور کبھی حوصلہ شکنی کر کے‘ دشمن کو متذبذب رکھتے ہیں۔ اس کے جواب میںجو کامیاب جوابی پالیسی ہے‘ اسے "Carrot and Stick"کہا جاتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ ہمیں دہشت گردی کا سامنا کرتے ہوئے 6سال ہونے کو آئے ہیں، مگر ریاست نے ابھی تک کوئی موثر جوابی حکمت عملی مرتب نہیں کی۔ چند روز سے اس پالیسی کے خدوخال ابھرتے ہوئے دکھائی دینے لگے ہیں کہ ایک طرف وزیراعظم دہشت گردوں کی کارروائیوں کے باوجود مذاکرات کا سلسلہ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف فوج ‘ طالبان کی ظالمانہ کارروائیوں کے جواب میں‘ دوکے بدلے چار کے اصول پر عمل کر رہی ہے۔ ہم 6سال تک خوفناک دہشت گردی کا شکار ہوئے مگر کوئی واضح پالیسی مرتب نہیں کر سکے۔ہمارے لئے دہشت گردوں کا ہر حملہ غیرمتوقع اور اچانک ہوتا تھا۔ ہم نے آگے بڑھ کر روکنے کی پالیسی آج تک اختیار نہیں کی اور نہ فی الحال ایسا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ آج بھی حکومت کے نمائندے یہی بیان دیتے ہیں کہ ہم پہل نہیں کریں گے۔ اگر طالبان کی طرف سے حملہ ہوا‘ تو سخت جواب دیا جائے گا۔ ایسی پالیسیوں کو شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔ فوج نے بلاشبہ دو ٹوک پالیسی اختیار کر کے‘ دہشت گردوں کو‘ اینٹ کاجواب پتھر سے دینے کے ارادے ظاہر کر دیئے ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ فوج اور حکومت کے بظاہر مختلف رویے‘ ایک حکمت عملی کا نتیجہ ہیں‘تو بھی اسلام آباد میں دہشت گردوں کا تازہ حملہ ہمیں سبق سکھانے کے لئے کافی ہے۔ اعلانات میں تو بار بار دہرایا جاتا ہے کہ حکومت اور فوج ایک ہی صفحے پر ہیں، لیکن ان میں سے ایک کا عمل اور دوسرے کے الفاظ مطابقت نہیں رکھتے، جس سے غلط فہمیاں اور بقول خورشید شاہ کنفیوژن پیدا ہوتا ہے۔ اسلام آباد میں آج کے حملے میں واضح پیغام یہ دیا گیا ہے کہ طالبان ایک طویل مدتی حکمت عملی کے تحت کام کر رہے ہیں۔ یہ حکمت عملی خوب غور و خوض کے بعد تیار کی گئی ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے شہری آبادی کو خوفزدہ کر کے‘ حکومت پر اس کے اعتماد کو متزلزل کیا اور خوف کی کیفیت پیدا کر دی۔ اس کے بعد پولیس اور فوج کو نشانہ بنا کر‘ دفاعی صلاحیتوں پر ضرب لگانے کا سلسلہ شروع کر دیا، جس میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ جب تک جسٹس افتخار محمد چوہدری‘ ملک کے چیف جسٹس تھے‘ ان کے دور میں عدلیہ‘ دہشت گردوں پر مہربان رہی۔ کسی دہشت گرد کو پھانسی نہیں دی گئی۔ بے شمار مقدمات میں ان کی ضمانتیں فراخ دلی سے منظور کی گئیں اور بیشتر کو رہا کیا جاتا رہا، جس پر طالبان کی طرف سے ان کی ستائش بھی کی گئی۔ نئے چیف جسٹس نے‘ صرف دو تین دن سے دہشت گردی کے خلاف اظہار خیال کیا تھا کہ اسلام آباد میں عدلیہ پر‘ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خود کش حملہ کر دیا گیا۔ اب ریاست کے قریباً تمام ادارے‘ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر آ چکے ہیں۔ اس خودکش حملے سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ طالبان کی طرف سے فائربندی کے اعلان کی حقیقت کیا ہے؟ گوریلا جنگ لڑنے والوں کی حکمت عملی ہمیشہ سے یہی رہی کہ دشمن کومتذبذب رکھو۔ اسے کسی نتیجے پر پہنچنے کا موقع مت دو۔ جب دہشت گرد اس پالیسی پر کاربند رہیں‘ توحکومت کو بھی جواب میں یہی پالیسی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ اسے بھی گاجر اور چھڑی کا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔ گاجر دکھا کر چھڑی مارنا اور چھڑی مار کے گاجر دکھانا‘ آزمودہ حربہ ہے۔ یہ حربہ‘ ریاست کے تمام اداروں میںباہمی سوچ بچار اور ذمہ داریاں تقسیم کر کے اختیار کیا جاتا ہے۔واردات کر کے ذمہ داری سے انکار کرنا‘ گوریلا جنگ کا دیرینہ حربہ ہے۔ میں نے فائربندی کی باتیں شروع ہوتے ہی لکھ دیا تھا کہ ایسے وعدے قابل اعتبار نہیں ہوتے۔ آپ ‘ طالبان کے چند روزہ طرزعمل کو یاد کر لیں۔ وہ پہلے ناقابل قبول شرائط پیش کر رہے تھے۔ پاکستان سے یکطرفہ اور غیرمشروط فائربندی کے مطالبے کر رہے تھے، لیکن جیسے ہی چند فضائی حملے کئے گئے‘ غیرمشروط جنگ بندی کااعلان آ گیا۔ کل ہماری طرف سے فضائی حملے روکنے کا اعلان ہوا‘ تو آج پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں دہشت گردی کی خوفناک واردات کر دی گئی اور نشانہ عدلیہ کو بنایا گیا۔ گوریلا جنگ آنکھ مچولی کا کھیل ہے اور ہر کھیل کے اپنے طورطریقے ہوتے ہیں۔ جب تک ہم وہ طور طریقے اختیار نہیں کریں گے‘ طالبان چپہ چپہ آگے بڑھتے ہوئے‘ ذہنوں کی تسخیر کا عمل جاری رکھیں گے۔ ہم زمین کی حفاظت کریں گے اور وہ ذہنوں کی تسخیر کریںگے۔ پچھلے چار پانچ سال میںہماری پالیسیوں اور طرزِجنگ میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں؟ ان پر غور کر کے دیکھئے۔ جماعت اسلامی‘ مولانا سمیع الحق‘ مولانا عبدالعزیز اور مدرسوں کے مولوی صاحبان کے رویوں میں جارحیت‘ زیادہ ہو رہی ہے یا کم؟ ان کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے یا کمی؟انتہا پسند اور دہشت گرد آپس میں متحد ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑے گا کہ ہمارے سیاستدان غیرمنظم ہیں۔ فوج اور اس کی قیادت ماضی کے مقابلے میں پچھلے ڈیڑھ ماہ کے دوران پوری طرح سے منظم ہو چکے ہیں۔ یہ فرق جنرل کیانی کی رخصت اور جنرل راحیل کی آمد کے بعد پیدا ہوا۔