"NNC" (space) message & send to 7575

کاش! ہم قائدؒ کا سبق نہ بھلاتے (پہلی قسط)

نظام فطرت ہے کہ دریائوں کے سامنے آنے والی رکاوٹیں اگر دیر تک باقی رہیں‘ تووہ خاموشی سے راستہ بدل کر‘ رکاوٹ کو الگ ہٹاتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہونے جا رہا ہے۔آزادی کے بعد ہم اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر رہے ۔اپنی خارجہ پالیسی مرتب کرنے سے پہلے‘ ہمیںجغرافیے کو غور سے دیکھ لینا چاہیے۔جغرافیہ پہلی ہی نظر میں دو باتوں کی تلقین کرتا ہے۔ اول یہ کہ بھارت اپنے وسائل‘ سائز اور طاقت میں ہم سے کئی گنا بڑا ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ اپنے معاملات طے کرتے وقت اس فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور ہمسائیگی کے آبرومندانہ تعلقات استوار کرنے کے امکانات پر توجہ مرکوز رکھنا چاہیے اور یہ سچائی ہمیشہ پیش نظر رکھی جائے کہ جب معاملہ ایک چھوٹی اور بڑی طاقت کے درمیان ہو‘ تو چھوٹی طاقت کو زیادہ احتیاط‘ زیادہ دانشمندی اور زیادہ سفارتی دانائی سے کام لینا پڑتا ہے۔ ہمیں سفارت کاری میں اپنا آئیڈیل سوئٹزرلینڈ اور داخلی مسائل حل کرنے کے لئے ملائشیا کوبنانا چاہیے تھا۔ سوئٹزر لینڈ نے اپنے آپ کو خطے کے تنازعات سے الگ کر کے‘ ترقی پر توجہ دی اور ملائشیا نے بے شک ہماری آزادی کے بہت بعد جمہوریت کا سفر شروع کیا‘ لیکن اس نے شدید نسلی تنازعات کے باوجود‘ قومی یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا کر کے‘ امن اور ترقی کا راستہ اختیار کر لیا۔ دوسری بات جغرافیہ یہ بتاتاکہ آپ کی طاقت ‘ آپ کے راستوں میں ہے۔ راستے فراہم کرنے والے ملک اپنی سرحدیں بند نہیں کیا کرتے‘ کھولا کرتے ہیں اور دفاعی شعبے میں ہماری ضرورت مضبوط نیوی اور فضائیہ ہوتی‘ جبکہ بری افواج‘ سرحدوں کو جرائم پیشہ گروہوں اور غلط فہمی پر مبنی سرحدی جھگڑے روکنے کے لئے رکھی جاتیں اور جارحیت سے بچنے کے لئے سفارتکاری کی اہلیت اور مہارت میں برتری پر انحصار کیا جاتا۔ 
ہمارے قدرتی وسائل کی کوئی انتہا نہیں۔ آبی وسائل اتنے ہیں کہ ہم صرف ہائیڈروپاور جنریشن پر توجہ مرکوز کر لیتے‘ تو آج 50ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر کے‘ بھارت اور چین کو برآمد کر رہے ہوتے۔ تھرکا کوئلہ کوئی نئی دریافت نہیں۔ یہ عشروں پہلے دریافت ہو چکا تھا۔ اس سے بھی بے تحاشا بجلی پیدا کر کے‘ برآمد کی جا سکتی تھی۔ قدرتی گیس کو ہم نے ایندھن کے طور پر استعمال کر کے نوٹوں سے چولہے جلائے۔ ورنہ اس سے 72مصنوعات پیدا کی جا سکتی ہیں۔ اشیاء اور مسافروں کی نقل و حرکت کے لئے دریائی راستوں کو ترقی دے کر‘ ایندھن کا 50 فیصد خرچ بچایا جا سکتا تھا۔ ہمارے سمندروں اور صحرائوں میں تیل کے خزانے محفوظ پڑے ہیں۔ ہم انہیں چھو کر بھی نہیں دیکھ سکے۔ انہیں نکالنا شروع کر دیتے‘ تو بھارت ‘چین اور جاپان ہمارے فطری خریدار ہوتے۔ ہمارے ملک میں شیل کی لامحدودمقدار پائی جاتی ہے۔ اس کی توانائی حاصل کرنے پر تیل کے مقابلے میں نصف سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔ زرعی پیداوار کے لئے خدا نے ہمیں وسیع اراضی عطا کر رکھی ہے۔ ہم جتنا پانی استعمال کرتے ہیں‘ اس سے زیادہ مقدار میں ضائع کر دیتے ہیں۔ صرف ضائع ہونے والا پانی بچاکر ہم ‘بے آباد زمینوں کو سیراب کر سکتے تھے۔ ہم نے ملتان‘ مظفر گڑھ‘ ڈیرہ غازی خان‘ بھکر‘ لیہ‘ لائل پور‘ ساہیوال اور بہاولپور کی زمینوں تک پانی پہنچا کر دیکھا ہے کہ زرخیزی میں یہ دنیا کی بہترین زمین ثابت ہوئی۔ صحرائوں کو زرخیز کرنے کا سلسلہ آزادی سے پہلے شروع ہو چکا تھا۔ ہم اسے جاری رکھتے‘ تو اب تک تھر اور چولستان کی زمینیں فصلیں دے رہی ہوتیں اور ہمارا ملک خطے کا امیرترین ملک بن چکا ہوتا۔ اتنی نعمتیں دنیا کے بہت کم ملکوں کو حاصل ہیںکہ وہ بیک وقت معدنی دولت سے بھی مالامال ہوں اور زرعی پیداوار میں اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد اسے برآمد کرنے کے بھی اہل ہوں۔ ان کے راستے بھی سونا اگلنے کے قابل ہوں‘ ان کے پاس فروخت کرنے کے لئے بے پناہ توانائی موجود ہو اور اس کے سمندری راستے‘ تیل کے خزانوں کو دنیا سے مربوط کرتے ہوں۔ غور کر کے دیکھا جائے‘ تو یوں لگتا ہے کہ خدا نے سورہ رحمن میں ہمیں ہی مخاطب کیا ہے اور ہم وہ بدنصیب ہیں کہ خدا نے جس جس نعمت سے ہمیں نوازنے کی نوید سناکر سوال کیا کہ ''تم کس کس نعمت کو جھٹلائو گے؟‘‘ ہم نے اسی کو جھٹلایا۔ 
پاکستان کا جغرافیہ ہی بتاتا ہے کہ ہمیں اس کی تعمیروترقی کے لئے کونسے راستے اختیار کرنا چاہئیں تھے؟ اور ہم نے کیا کیا؟ ہمیں بھارت کی حکمرانی کرنے والی ہندو اکثریت کی ذہنیت کا روزاول ہی سے علم تھا۔ یہی علم توتھا‘ جس کی وجہ سے قیام پاکستان کا مطالبہ کیا گیا اور تقسیم کے وقت ہی ہمیں یہ تجربہ بھی ہو گیا کہ بھارت کے حکمرانوں سے ہمیں کبھی انصاف نہیں ملے گا۔ تقسیم کے فیصلے انتہائی بددیانتی اور بدنیتی سے کئے گئے۔ پنجاب کے کئی اضلاع جو تقسیم کے طے شدہ اصولوں کے مطابق پاکستان میں شامل ہونا تھے‘ بھارت کو دے دیئے گئے۔ اسی ناانصافی کے نتیجے میں کشمیر کا تنازعہ پیدا ہوا۔ قائد اعظمؒ چاہتے‘ توتقسیم کا فارمولا ماننے سے انکار کر سکتے تھے اور یہ فارمولا زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی‘ تو پورے برصغیر میں خانہ جنگی شروع ہو جانا تھی۔ خدا جانے اس کا انجام کیا ہوتا؟ لیکن اس سے نہ ہندو کو فائدہ ہونا تھا اور نہ مسلمان کو۔ یہی وجہ تھی کہ قائد اعظمؒ نے ناانصافی پر مبنی پاکستان کا جغرافیہ تسلیم کر کے‘ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ یہ حقیقت جانتے تھے کہ جو کٹاپھٹا پاکستان ہمیں دیا جا رہا ہے اگر اس سے انکار کر دیا‘ تو پھر 
خونریزی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا اور دونوں فریقوں کے پاس جانیں قربان کرنے کے لئے اتنی افرادی قوت موجود ہے کہ وہ عشروں تک ایک دوسرے کا خون بہا سکتے ہیں۔ لیکن کیایہ سمجھداری ہوتی؟ ظاہر ہے کہ تاریخی حماقت ہوتی۔ قائد اعظمؒ نے ہمیںاس سے بچایا۔ پاکستان کے آزاد وجود کو ٹھوس حقیقت میں ڈھالنے کے لئے بھارت سے کوئی جھگڑا کھڑا نہ کیا۔ حالانکہ جغرافیائی تقسیم کی طرح وسائل کی تقسیم میں بھی ہم سے ناانصافی کی گئی تھی۔ جو اثاثے ہمارے حصے میں آئے تھے‘ ان کا 30 فیصد بھی ہمیں نہیں دیا گیا۔ یہاں تک کہ مالیاتی تقسیم کے معاملے میں گاندھی جی کومرن برت رکھنا اور آخر جان دینا پڑی۔ ان کا کانگریسی حکمرانوں سے مطالبہ تھا کہ پاکستان کا حصہ اسے دیا جائے۔ یہی وہ طریقہ تھا‘ جس پر عمل کر کے ہم طاقتور بھارت کو ناانصافیوں سے روک سکتے تھے۔ یہ طریقہ کیا تھا؟ انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے اور بیدار کرنے کا طریقہ۔ گاندھی جی کے بعد بھی بھارتی عوام میں انصاف اور ضمیر کی طاقت ختم نہیں ہو سکتی تھی۔ میں یہ جھگڑا نہیں اٹھائوں گا کہ کشمیر کا تنازعہ کیسے پیدا ہوا؟ میں بات وہاں تک رکھوں گا‘ جہاں دونوں فریق اقوام متحدہ میں گئے تھے۔ یو این کی جن قراردادوں پر آج ہم اصرار کرتے نہیں تھکتے‘ اگر ہم انہی کے تحت کشمیر کا فیصلہ کرنے پر مصر رہتے‘ توآج کے مقابلے میں‘ بہت اچھی پوزیشن پر ہوتے۔ ہم نے قائد اعظمؒ کی یہ بات فراموش کر دی کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کینیڈا اور یو ایس اے کے تعلقات کی طرح ہوں گے۔ ایسے تعلقات رکھنا ہوتے‘ تو ہمیں امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدوں کے قریب نہیں پھٹکنا چاہیے تھا۔بھارت ہم پر کونسے حملے کر رہا تھا؟کشمیر بہرحال ایک متنازعہ مسئلہ بن گیا تھا۔ قصوروار کون تھا؟ اس کا جواب ہم ابھی تک حاصل نہیں کر پائے۔ کبھی کر بھی نہیں سکیں گے۔فوجی معاہدوں تک پنڈت نہرو ‘ یو این کی قراردادوں پر عمل درآمد کے وعدے کے پابند تھے۔اقوام متحدہ کی طرف سے رائے شماری کرانے کی کوششیںجاری تھیں۔ مصالحتی کمیشن بنائے جا رہے تھے۔ جو فائربندی کی گئی تھی‘ اس کی نگرانی کے لئے اقوام متحدہ کے مبصرین آ چکے تھے۔ یہ تنازعہ حل کرنے کے لئے جنگ کا راستہ اختیار کر کے‘ ہم نے اقوام متحدہ کو باہر کر دیا۔ 1965ء میں جب ہم نے چھمب جوڑیاں سیکٹر میں فوج کشی کی‘ تو بھارتی حکمرانوں کی مرادیں بر آئیں۔ جنگ کا راستہ بھارت کے مفاد میں تھا۔ ہم نے اسے مرضی کا راستہ فراہم کر دیا۔ اب جتنی جنگیں اور جس طرح کی جنگیں‘ ہم چاہیں لڑتے رہیں‘ بھارت ہمیں کشمیر نہیں دے گا۔ کشمیر کا فیصلہ جب بھی ہو گا‘ لین دین کی بنیادپر ہو گا اور یہ تنازعہ جتنابھی طول پکڑے گا‘ بھارت کی پوزیشن اتنی ہی مضبوط ہوتی جائے گی۔ قائد اعظمؒ نے بھارت کے ساتھ متنازعہ معاملات میں آزادی کے فوراً بعد جو طرزعمل اختیار کیا تھا‘ ہم نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور بانی پاکستان کا راستہ چھوڑ کر‘ بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنے کا جو راستہ ہم نے چنا‘ اس کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں