آج بھی ہم اسی کشمکش کی حالت میں ہیں ‘ جہاں بھٹو صاحب ہمیں چھوڑ گئے تھے۔ وہ بہت بڑے لیڈر تھے‘ اتنے بڑے کہ ہمارے دائرہ فہم میں سما نہ سکے۔ بدنصیب ہوتی ہیں وہ قومیں‘ جنہیں عہد ساز لیڈر میسر آئیں اور وہ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ جس قائدؒ نے ہمیں پاکستان لے کر دیا‘ ہم اس کی صحت کا خیال نہ رکھ سکے۔ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن کوشش کرنا انسان کے اختیار میں ہوتا ہے۔ کسی بھی مرض سے شفایابی کے لئے کوئٹہ آج بھی موزوں مقام نہیں۔ جب قائدؒ شدید بیماری کی حالت میں‘ علاج کے لئے کوئٹہ گئے‘ اس وقت حالات کیا ہوں گے؟ کیا اس شہر میں وہ دوائیں یا علاج کی سہولتیں موجود تھیں‘ جن سے قائد اعظمؒ کی زندگی مزید کچھ عرصے کے لئے بچائی جا سکتی؟ کیا قائد اعظمؒ کی بنائی ہوئی وزارتی ٹیم میں‘ ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جو انہیں کوئٹہ جانے سے روک کر‘ کراچی میں علاج کرانے کا مشورہ دیتا؟ یا انہیں کسی بھی محفوظ طریقے سے یورپ بھیج کر زیادہ مہارت اور تجربہ رکھنے والے جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے ماہر ڈاکٹروں سے علاج کراتا؟ یہ ٹھیک ہے قائد اعظمؒ کسی کی نہیں مانتے تھے لیکن وہ صاحب فہم انسان تھے۔ انہیں محبت اور دلائل سے قائل کرنا ممکن تھا۔ میں نے آج تک نہ کسی جگہ پڑھا اور نہ کہیں کوئی روایت سنی‘ جس سے پتہ چلے کہ قائد اعظمؒ کو ان کے آخری ایام میں کوئٹہ جانے سے روکا گیا ہو۔ کراچی میں ان کے آخری دنوں کے بارے میں کوئی ریکارڈ ہی نہیں ملتا۔ جو کچھ پڑھنے اور سننے میں آیا ہے‘ اس کے مطابق قائدؒ جب کوئٹہ سے کراچی واپس آئے تو ایئرپورٹ سے گورنر جنرل ہائوس جانے کے لئے‘ انہیں اچھی کار بھی نہ مل سکی۔ راستے میں ایک ویران مقام پر پٹرول ختم ہو گیا اور قائدؒ شدید گرمی اور حبس میں‘ کار کے اندر بند پڑے رہے‘ وہیں ان کی سانس اکھڑی اور اپنی قیام گاہ تک آتے آتے ان کی حالت ابتر ہو چکی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ انہیں اپنے وقت پر جانا ہی تھا۔ ان کے ساتھیوں کی ایسی کوئی غیر معمولی کوشش نظر نہیں آتی جو انہوں نے اپنے قائدؒ کی زندگی میں تھوڑے بہت اضافے کے لئے کی ہو۔ ہمیں قائدؒ کی زندگی کے چند مہینے اور مل جاتے تو پاکستان کی بنیادیں مستحکم ہو سکتی تھیں اور عین ممکن تھا‘ قائد ؒ ہمیں آنے والے بحرانوں سے بچانے کے انتظامات کر کے جاتے۔
بہت سے لوگوں کو برا لگے گا لیکن قائدؒ کے بعد بھٹو صاحب ہی ایک ایسے لیڈر ہیں جو قوموں اور ملکوں کو بنانے کے لئے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کو ہم خود دیکھ چکے ہیں۔ جب پاکستان کی حکومت ان کے سپرد کی گئی تو ہم ایک مکمل جنگ ہار چکے تھے۔ ہمارا آدھا ملک ہم سے چھین لیا گیا تھا۔ ہمارے نوے ہزار سویلین اور فوجی بھارت کی قید میں تھے۔ سرزمین وطن کا پانچ ہزار مربع میل علاقہ‘ دشمن کے قبضے میں جا چکا تھا۔ ریاستی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ چکا تھا اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ تباہی اور بربادی کی حالت سے ہم کیسے نکلیں گے؟ اس دور میں کسی بھی لیڈر کا ایسا خطاب نکال کر دکھا دیجئے‘ جس میں اس نے وہ عزم و ہمت پیدا کرنے کی کوشش کی ہو‘ جو حوصلہ ہار کے بیٹھی قوموں کے لئے عزم و توانائی کا موجب بنتا ہے۔ یہ خطاب بھٹو نے کیا۔ جب ان کی آواز ریڈیو اور ٹیلی وژن پر گونجی اور انہوں نے بتایا کہ پاکستان زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ ہم اپنے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک نئی ریاست تعمیر کریں گے۔ ہم مشکلات پر قابو پائیں گے اور اپنی عظیم قوم کو‘ بھرپور جدوجہد کر کے عظیم تر بنائیں گے اور پھر انہوں نے چند ہی مہینوں میں پاکستان کو ایک مضبوط ریاست میں بدل دیا۔ ٹوٹے ہوئے حوصلے جڑ گئے۔ مایوسیاں امیدوں میں بدل گئیں۔ وہ اپنی حیرت انگیز صلاحیتوں سے کام لے کر اپنے نوے ہزار قیدیوں کو بھارت کی قید سے نکال لائے۔ فتح کے نشے میں سرشار بھارتی قیادت نے بہت کوشش کی کہ پاکستان کی شکست کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیر پر اپنے قبضے کو ہم سے جائز منوا لیتا یا دیگر توہین آمیز شرائط پر مبنی کسی معاہدے پر مجبور کرتا۔ ہمارے جنرلوں اور فوجی افسروں کی فہرست تو شیخ مجیب نے بنا رکھی تھی‘ جو اس نے بھارت کے سپرد کر کے کہا تھا کہ یہ ہمارے جنگی مجرم ہیں‘ انہیں ہمارے حوالے کیا جائے۔ ہم انہیں گناہوں کی سزا دیں گے لیکن بھٹو صاحب اڑ گئے اور انہوں نے اندرا گاندھی سے کہا کہ ''آپ فہرستوں کی بات کر رہی ہیں میں‘ اپنا ایک بھی سپاہی مجیب کے حوالے نہیں کروں گا‘‘۔ یہی وہ موقع تھا جب اندرا گاندھی نے کہا: ''تو پھر مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے‘‘۔ اس پر بھٹو صاحب نے بھارتی وزیر اعظم کو پُرزور دلائل سے قائل کیا کہ وہ اپنی فتح میں سرشار ہو کر ہوش و حواس کا دامن نہ چھوڑیں۔ آج میری قوم امتحان میں ہے‘ کل آپ پر بھی برا وقت آ سکتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں۔ ہماری تاریخ ایک رہی ہے۔ سرحدیں بن جانے کے بعد بھی‘ جس تاریخی عمل سے ہمیں گزرنا ہے وہ جدا جدا نہیں ہو سکتا۔ پاکستانی عوام میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں اگر انہیں عزت و آبرو کے ساتھ اس بحران سے نکلنے کا موقع نہ دیا گیا تو آتش انتقام کی بھٹی میں جو قوم تیار ہو کر نکلے گی‘ آپ اس کے قہر و غضب سے نہیں بچ سکیں گے۔ بھٹو صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار ایسا پُراثر انداز میں کیا کہ اندرا گاندھی کو خاموش ہونا پڑا اور انہوں نے بھٹو کی بات مانتے ہوئے کہا: ''ٹھیک ہے ہم آپ کے جنرل‘ مجیب کے حوالے نہیں کریں گے لیکن زلفی ایک بات یاد رکھنا کہ واپس جا کر یہ تمہی کو ٹانگ دیں گے‘‘۔
بھٹو نے واپس آ کر پاکستانی عوام میں پھیلی ہوئی مایوسی کو امیدوں میں بدلا۔ ریاستی مشینری کو پھر سے منظم کیا۔ فوج کے نقصانات کی تلافی کر کے‘ اسے جدید جنگی سازوسامان سے لیس کیا۔ ملک ٹوٹنے کی وجہ سے بیرونی تعلقات اور لین دین میں
جو مشکلات پیدا ہوئی تھیں ان میں سے ملک کو نکالا۔ ایٹمی پروگرام پر توجہ مرکوز کر کے‘ ریسرچ میں تیزی لائے اور جلد ہی ہمارے عوام شکست کے زخموں کو بھول کر نئی توانائیوں کے ساتھ تعمیر و ترقی کے عمل میں مصروف ہو گئے۔ افسوس کہ جنرل ضیاء اور ان کے چند ساتھی جنرل حضرات‘ نے اقتدار پر قبضے کا منصوبہ بنا لیا۔ ایجنسیوں کے ذریعے بکھری ہوئی اپوزیشن کو اکٹھا کیا۔ 1977ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ہرانے کی کوشش کی‘ جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے۔ بھٹو دو تہائی سے زیادہ اکثریت لے کر کامیاب رہے لیکن اپوزیشن والوں کو خفیہ اشارے آ گئے کہ وہ الیکشن میں دھاندلی پر احتجاج شروع کر دیں۔ وہ دھاندلی کے الزامات تو لگاتے رہے لیکن کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے۔ ایجنسیوں کی مدد سے انہوں نے پورے پاکستان میں صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی کل اکیس نشستوں پر دھاندلی کا الزام لگایا۔ تھوڑی سی روایتی کشمکش کے بعد‘ بھٹو ان اکیس نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لئے تیار ہو گئے‘ جن پر اپوزیشن کے مطابق دھاندلی کی شکایت کی گئی تھی مگر اپوزیشن کا مقصد دھاندلی کی تلافی نہ تھا‘ ان کا مشن تو بھٹو کو اقتدار سے محروم کرنے کا تھا اور اپوزیشن کو چابی دینے والے‘ کوئی منتخب حکومت لانے کے خواہش مند نہیں تھے‘ ان کا منصوبہ خود اقتدار پر قبضہ کرنے کا تھا؛ چنانچہ جنرلوں اور ان کے اشاروں پر کام کرنے والے سیاست دانوں نے مل کر ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ ضیاء الحق نے آگے بڑھ کر بھٹو صاحب کو گرفتار کر لیا۔ کابینہ اور اسمبلیاں توڑ دیں اور ملک پر مارشل لاء مسلط کر دیا۔ جن لیڈروں کو اپو زیشن بنا کر انہوں نے استعمال کیا تھا‘ بعد میں انہیں بھی جھنڈی کرا دی گئی اور ضیاء الحق نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر بلا شرکت غیرے حکومت کی۔ بھٹو کی عوامی طاقت سے خوف زدہ جنرلوں کو یقین تھا کہ اگر بھٹو زندہ رہ گئے تو دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیں اور پھر ان کا جو عبرت ناک انجام ہو گا؟ اس کے تصور سے وہ لرز اٹھے اور انہیں اپنے بچائو کا ایک ہی راستہ نظر آیا کہ بھٹو کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔ ہماری قومی بدنصیبی کا دن‘ چار اپریل آیا اور ہم بڑھتے ہوئے اندھیروں کی لپیٹ میں آنے لگے۔ بھٹو زندہ رہتے تو وہ افغانستان کے انقلاب میں کبھی مداخلت نہ کرتے لیکن ضیاء الحق نے امریکیوں کا آلہ کار بن کر افغانستان کے معاملات میں مداخلت شروع کر دی۔ آج ہم جہاں پہنچ چکے ہیں‘ اس حالت میں نہ ہوتے اگر ہمیں بھٹو جیسے قدآور لیڈر کی قیادت دستیاب رہتی۔ پاکستان بنانے والے قائد اعظمؒ کی زندگی نے وفا نہ کی اور ہمارا نوزائیدہ ملک صحیح جمہوری بنیادوں پر کھڑا نہ ہو سکا اور فوجی شکست کے بعد جس ملک کو ذوالفقار علی بھٹو نے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کر کے تعمیر و ترقی کا عمل شروع کیا‘ اسے پھانسی دے کر راستے سے ہٹا دیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن‘ ہم اسی مخمصے میں پھنسے ہیں کہ ملک کون چلائے گا؟ بھٹو زندہ رہتے تو ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈ کر بہت آگے نکل گئے ہوتے۔ نجانے ایک حقیقی رہنما سے محروم ہماری قوم کب تک یونہی بھٹکتی رہے گی؟ اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ جو دو چار بندوقیں اٹھا کر‘ ہمارے ساٹھ ستر شہریوں کو شہید کر دے‘ وہ حکومت کا کان مروڑ سکتا ہے۔ لیڈر رہ گئے‘ لیڈرشپ نہ رہی۔