"NNC" (space) message & send to 7575

مشرف پر کیا لڑائی؟

سوچنے کی بات ہے‘ جو نکتہ مجھ سمیت کئی صحافی‘ بہت سے دانشوروںاور سیاسی مبصرین کی سمجھ میں آ رہا ہے‘ وزیراعظم نوازشریف کی سمجھ میں کیوں نہیں آتا؟ طالع آزما جنرلوں کے ہاتھوں جتنے فریب اور زخم انہوں نے کھائے اور تکالیف برداشت کیں‘ کم از کم ہم میں سے کوئی اتنے بڑے امتحانوں سے نہیں گزرا۔ پھر وہ کیوں نہیں سمجھ رہے کہ پرویزمشرف کے مقدمے کو آگے بڑھا کر‘ ان کے لئے کیا خطرات پیدا ہو رہے ہیں؟ میں نے اس پر بہت غور کیا۔ مشرف سے آسانی کے ساتھ جان چھڑانے کی جو ترکیب میں لکھتا رہا ہوں‘ اس پر بھی ازسر نوغور کیا۔ اچانک خیال آیا کہ جو ممکنہ خطرات مجھے نظر آ رہے ہیں‘ نوازشریف کیوں نہیں دیکھ رہے؟ وہ کیوں پرویزمشرف کو باہر بھیج کرقصہ ختم نہیں کر دیتے؟ اچانک سوچ ابھری کہ نوازشریف پوری طرح سوچ سمجھ کے تو یہ سب نہیں کر رہے؟ وہ یہ فیصلہ کرنے پر تو نہیں تل گئے کہ ایک باراسٹیبلشمنٹ اور عوامی طاقت کے درمیان‘ دیرینہ کش مکش کا نتیجہ کیوں نہ دیکھ لیا جائے؟ پاکستان میں جب بھی عوامی طاقت نے اپنی جائز حیثیت منوانے کی کوشش کی‘ اسے آخرکار پسپائی کا منہ دیکھنا پڑا۔ 1956ء میں عوام کے منتخب نمائندوں نے تمام سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے‘ ملک کا پہلا آئین تیار کر لیا اور جمہوری عمل کے ذریعے ریاست کی تعمیر شروع کی تو غیر جمہوری قوتوں نے‘ اقتدار پر قبضہ کر کے تشکیل ریاست کے عمل سے عوام کو بے دخل کر دیا۔طویل فوجی حکمرانی کے بعد مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں عوامی ابھار پیدا ہوا‘ تو ایک بار پھر غیر جمہوری قوتوں نے ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے‘ عوام کو پسپائی پر مجبور کیا۔ 1968ء میں بھرپور عوامی تحریک اٹھی تو اس کی کامیابی سے پہلے یحییٰ خان نے آگے بڑھ کر اقتدار پر قبضہ جما لیا اور جن مطالبات پر تحریک کا زور تھا‘ انہیں پہلی ہی تقریر میں تسلیم کر کے عام انتخابات کا وعدہ کر لیا۔ 
1970ء کے انتخابی نتائج میں ملک کے دونوں حصوں میں عوامی لیگ اور پیپلزپارٹی نے فیصلہ کن اکثریت حاصل کر لی‘ تو یحییٰ خان نے اپنی صدارت کی ضمانت لینے کی خاطر سیاسی قیادتوں کے لئے آئین سازی کا عمل مشکل بنا دیا۔دونوں حصوں کی منتخب جماعتیں‘ آئین سازی کا جو فارمولا بھی تلاش کرنے لگتیں‘ یحییٰ خان اس میں ٹانگ اڑاتے رہے اور آخر کار بغاوت پر تلے ہوئے مشرقی پاکستان پر فوج کشی کر کے‘ ایک بار پھر عوامی خواہشات کو کچلنا شروع کر دیا۔ جس گھٹیا خواہش کے تحت یحییٰ خان نے انتخابات میں دیئے ہوئے عوامی فیصلے کو پامال کیا‘ وہ جلد ہی سامنے آ گئی۔ جب یحییٰ خان نے اپنا ایک آئین بنا کر خود کو صدر نامزد کیا اور طویل مدت کے لئے پھر سے آمریت مسلط کرنے کی کوشش کی۔اس وقت یہ بات کہی گئی تھی کہ طالع آزما جنرل اپنے عوام کے سامنے نہیں جھکتے‘ دشمن کے آگے جھک جاتے ہیں۔ بھارت کے آگے ہتھیار ڈالنے کا شرمناک واقعہ ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ ابھی قوم شکست کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی کہ ضیاالحق نے مارشل لا نافذ کر کے‘ ملک کے مقبول ترین لیڈر کو پھانسی لگا دی اور ہمارے ملک کو افغانستان کی جنگ میں جھونک دیا۔ وہ دن اور آج کا دن‘ افغانستان کی جنگ عذاب کی شکل اختیار کرتی گئی۔ ہمارے ملک کا نظام درہم برہم ہو کے رہ گیا۔ جو فوجی طاقت ہم نے بھارت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کی تھی‘ اسے افغانستان کی جنگ نے کمزور کرنا شروع کر دیا۔ضیاالحق کی موت کے بعد جمہوریت بحال ہوئی لیکن فوج کے سربراہوں نے بے نظیر اور نوازشریف کی چار حکومتوں کو انتخابی نتائج کے مطابق قائم تو ہونے دیا لیکن اختیارات ان کے سپرد نہیں کئے۔ جب بھارت نے اچانک ایٹمی دھماکے کر دئیے‘ تو بے اختیاری کی حالت میں بھی نوازشریف نے جوابی دھماکے کر کے‘ بھارت کی بالادستی کا خواب ہمیشہ کے لئے چکناچور کر دیا۔ ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اگر اس وقت خدانخواستہ پاکستان میں کسی آمر کی حکومت ہوتی‘ تو وہ کبھی یہ جرات نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ آمر عوام پر جبراً مسلط ہوتے ہیں۔ انہیں عوام کی تائید حاصل نہیں ہوتی اور وہ بیرونی سرپرستوں کے سہاروں پر حکومتیں چلاتے ہیں۔ جتنا دبائو نوازشریف پر آیا‘ کوئی بھی آمر‘ اس کا ایک تہائی دبائو بھی برداشت نہ کر سکتا اور پاکستان ایٹمی طاقت بننے سے رہ جاتا۔ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد پاکستان نے جو اہلیت اور طاقت حاصل کی اگر جمہوری حکومتوں کو فائدہ اٹھانے کی مہلت مل جاتی‘ تو آنے والے چند برس میں پاکستان ایک مستحکم جمہوری ملک کی حیثیت سے خطے میں اپنا جائز مقام حاصل کر سکتا تھا۔ لیکن کارگل پر شکست خوردہ پرویزمشرف کے خوفزدہ ٹولے نے‘ اقتدار پر شب خون مار کے پھر ملک کو آمریت کی تاریکیوں میں دھکیل دیا۔ پرویزمشرف کے آخری دن ہم سب کو یاد ہیں کہ کس طرح اسے مجبور کر کے‘ فوجی منصب سے نکالا گیا اور کس طرح وردی اترنے کے بعد اسے ایوان اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔ 
بحالی جمہوریت کے بعد‘ پہلی حکومت آصف زرداری نے بنائی اور نوازشریف کے ساتھ مل کر ساری توجہ جمہوریت کو خطرات سے بچانے پر مرکوز رکھی۔ نوازشریف نے زرداری کے دور میں کامیاب حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے‘ بطور جمہوریت پسند‘ اپنی ذمہ داریاں پوری کیں اورمنتخب حکومت کے خلاف سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے‘ اسے بچانے میں اپنا کردار بھی ادا کیا۔ ساتھ ہی ایسی پالیسیاں بھی اختیار کیں کہ زرداری حکومت دوران اقتدار نہ تو قدم جمانے پائے اور نہ ہی کسی ایسی پالیسی اور پروگرام پر عمل کر سکے‘ جس کی وجہ سے اسے عوام میں مقبولیت حاصل ہو۔ اس حکمت عملی میں وہ پوری طرح کامیاب رہے۔ فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کی خاطر مسلسل اکسانے والوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ پہلی بار ایک منتخب حکومت نے اپنا عرصہ اقتدارپورا کیا اور عام انتخابات کے بعد‘ حکومت بھی نوازشریف کو مل گئی۔ لیکن اس ملک پر آمریت کے آسیب کا سایہ آسانی سے نہیں ٹلتا۔ یہ آسیب ہر وقت ہمارے سروں پر منڈلاتا ہے اور کسی بھی لمحے وار کرنے کی تاک میں رہتا ہے۔ 
پاکستانی عوام کی دیرینہ خواہش ہے کہ مستقبل میں ملک کو آمریت سے بچانے کے لئے ایک بار فیصلہ کن معرکہ آرائی کر ہی لی جائے۔ لیکن اب ہمارے سامنے ایک بڑا سوالیہ نشان آ گیا ہے۔ کیا یہ معرکہ آرائی کا وقت ہے؟ اگر عوام کے جذبات اور خواہشات کو دیکھا جائے‘ تو وہ نوازشریف کے ساتھ ہیں۔ سارے منتخب ایوان بھی نوازشریف کے ساتھ ہیں۔ جو پرویزمشرف پر قائم کئے گئے مقدمے کی مخالفت بھی کر رہے ہیں‘ ان کی خو اہش بھی یہ نہیں کہ پرویزمشرف کو چھوڑ دیا جائے۔ ان کا اعتراض یہ ہے کہ مقدمہ 12اکتوبر کے اقدام پر کیا جائے؟ گویا اختلاف عفو و سزا پر نہیں۔ کڑی یا نرم سزا پر ہے۔ فکرمندوں کا خیال ہے کہ پاکستان اس وقت داخلی معرکہ آرائی کے قابل نہیں۔ فوج بھی متعدد محاذوں پر مصروف ہے اور عوام بھی بیرونی اور داخلی خطرات سے نمٹنے کے معاملے میں یکجائی اور یکسوئی سے محروم ہیں۔ خصوصاً دہشت گردی کے محاذ پر ہمارا عقب غیر محفوظ ہی نہیں‘ گھات میں بھی ہے۔ اسلام کے نام پر جو مذہبی طالع آزما ‘ آزادی کے فوراً بعد سے اقتدار پر قبضہ جمانے کے لئے سرگرم ہیں‘ آج وہ دہشت گردوں کو بطور ہتھیار استعمال کر کے‘ خوفزدہ ریاستی عناصر کی مدد سے دیرینہ خواب پورا کرنے کے لئے پرامید ہیں۔ جو لوگ پرویزمشرف کی سزا کے سوال پر فوج اور حکومت کے درمیان کشیدگی پیدا کرنا چاہتے ہیں‘ ان کے ڈانڈے بھی کہیں نہ کہیں جا کر دہشت گردوں سے ملتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہاں امریکہ بہادر کاذکر بھی ضروری ہے۔ گزشتہ دس بارہ برس سے‘ امریکہ کی دفاعی انتظامیہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ افغانستان میں پاکستان کے فوجی حکمران اس کے ساتھ دھوکہ کر رہے ہیں۔ امریکہ سے ڈالر بھی لیتے ہیں اور افغانستان میں اس کی فوجوں پر حملے کرنے والوں کو تحفظ اور امداد بھی دیتے ہیں۔ جس پر وہاں کی دفاعی انتظامیہ میں یہ تصور پیدا ہوا کہ حقیقی دشمن پاکستان کی فوج ہے۔ اس مسئلے پر حال میں ''رانگ اینمی‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ اب یہ تھیوری پوری امریکی انتظامیہ میں پھیل چکی ہے۔ پاکستان کے تمام اداروں اور ملکی امور میں دلچسپی رکھنے والوں کو یہ امکان نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ امریکہ‘ پاک فوج سے پرانا حساب چکانے کی کوشش بھی کر سکتا ہے۔ یہ دیکھیں توداخلی معرکہ آرائی کو ٹالنے میں ہی بہتری نظر آتی ہے۔ اگر یہ ٹل سکتی ہو تو۔اپنے تنازعات ہم طے کرتے رہیں گے۔ لیکن اس وقت ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ پرویزمشرف کے سوال پر منتخب حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ یہ نان ایشو ہے۔ ہم باہمی معرکہ آرائی سے بچتے ہوئے ‘حقیقی خطرات پر توجہ مرکوز کریں۔خطرے کو سامنے دیکھ کر بعض اوقات شیر بھی‘ کیا ہوا شکار چھوڑ کے کھسک جاتا ہے۔ یہ وقت عوام اور دفاعی اداروں میں اتحاد اور یکجہتی کا ہے۔ باہر کے دشمنوں سے زیادہ اندر کے دشمن خطرناک ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں