"NNC" (space) message & send to 7575

آر یا پار

آنے والے عشرے یوں نہیں گزریں گے جیسے 1971ء کے بعد کا وقت گزرا ہے۔ ان عشروں کے دوران کارگل‘ بھارتی پارلیمنٹ اور ممبئی کی دہشت گردی ایسے تین واقعات ہوئے جو اگر مودی کے زمانے میں ہوتے تو انہی میں سے کسی ایک واقعے کے فوراً بعد‘ وہ فیصلہ کن مرحلہ آ سکتا تھا جس سے کانگریس کی متذبذب حکومت بچ کر نکلتی رہی۔ اب ''جنگ نہ امن‘‘ جیسی صورت حال کو طول دینا ممکن نہیں ہو گا۔ مودی کی انتخابی فتح کے ساتھ بھارت کی وہ داخلی کشمکش انجام کو پہنچ گئی‘ جس میں ایک طرف کانگریس کی منافقانہ سیکولر پالیسیاں تھیں اور دوسری طرف بی جے پی کی ہندو قوم پرستی‘ جسے پورے بھارت میں فیصلہ کن انتخابی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ بی جے پی کے مختصر سے دور اقتدار میں‘ اس کی انتخابی کامیابی زیادہ تر شمالی بھارت کی مرہون منت رہی۔ حالیہ انتخابات میں بی جے پی جنوبی ہند میں بھی مکمل تو نہیں لیکن ماضی کی نسبت بہتر انتخابی نتائج حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے جنوب میں بھی قدم جمانا شروع کر دیے ہیں۔ جن مقاصد کے لئے بی جے پی لڑتی رہی ہے‘ انہیں حاصل کرنے کا موقع اسے مل گیا ہے اور ایک طاقتور‘ پُرعزم قیادت کے ساتھ۔ بی جے پی کی‘ ہندو قوم کے سرکش گھوڑے کی لگامیں کھینچنے کے لئے اب صرف ایل کے ایڈوانی باقی رہ گئے ہیں۔ جو دوسری سینئر قیادت دستیاب ہے وہ موثر نہیں رہ گئی یا تعصب کی حد تک انتہا پسند ہے اور آج بھی بے لچک انداز فکر رکھتی ہے۔ خود ایڈوانی بھی موقع پرستی کا رحجان رکھتے ہیں‘ جیسے سیاسی کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے انہوں نے‘ بابری مسجد کو شہید کر کے رام مندر تعمیر کرنے کی جنونی تحریک کی قیادت سنبھال لی تھی۔
بی جے پی کا اجتماعی ذہن‘ وقت کے ساتھ ساتھ نئی تبدیلیاں قبول کرتا رہا ہے جبکہ کانگریس عزم و ارادے کے فقدان کے باعث موقع پرستی سے کام لے کر‘ مسائل کے فیصلہ کن حل سے کنی کتراتی رہی اور انہیں پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنا دیا۔ دوسری طرف پاکستان کے حکمران طبقے بھی فیصلہ کن پوزیشن اختیار کرنے سے گریزاں رہے۔ وہ عوام میں اپنی جڑیں نہ بنا سکے اور خسارہ پورا کرنے کے لئے‘ انتہا پسندوں کے سہارے تلاش کرتے رہے۔ ان کا خیال تھا‘ وہ انہیں استعمال کر رہے ہیں لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ وہ خود استعمال ہوتے رہے۔ ایوب خان آخری حکمران تھے‘ جنہوں نے مذہب کے نام پر انتہا پسندی کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کے خواہش مندوں کا مقابلہ کیا لیکن وہ عوام میں عدم مقبولیت کی بنا پر‘ ملک کو ترقی پسندی کے راستے پر آگے نہ لے جا سکے۔ رجعت پسند قوتوں نے جمع ہو کر ان کے خلاف تحریک منظم کی۔ مغربی پاکستان میں کی گئی ناانصافیوں کے نتائج بغاوت کی شکل اختیار کرنے لگے‘ جس پر ایوب خان کو مجبور ہو کر ایوان اقتدار سے نکلنا پڑا۔ یحییٰ خان نے سازش کے ذریعے اقتدار حاصل کیا اور مشرقی پاکستان کی عوامی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے انتہا پسندوں کا سہارا لے کر مشرقی پاکستان کی عوامی تحریک کے 
خلاف فوجی طاقت کا بے تحاشہ استعمال کیا اور بھارت کو جنگ مسلط کرنے کا موقع دے کر‘ پاکستان دو لخت کر دیا۔ اس کے بعد بھٹو صاحب کو اقتدار ملا تو انہوں نے عوامی سیاست کو فروغ دینے کے بجائے ریاستی طاقت کو تقویت دینا شروع کر دیا اور اسی کے ہاتھوں پھانسی لگے۔ ان کے بعد سیاسی قوتیں کبھی دوبارہ پیروں پر کھڑی نہ ہو سکیں۔ نہ کوئی بڑا سیاسی لیڈر آیا‘ نہ کوئی سیاسی جماعت منظم اور موثر ہو سکی جبکہ ایک غیر منظم سیاسی ہجوم‘ ریاستی طاقت کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا۔ انتخابات میں جعلی کامیابیوں کا بندوبست کر کے‘ جوڑ توڑ کے ذریعے اقتدار میں آنے والے نام نہاد سیاست دانوں نے جمہوریت کے دعوے تو بہت کئے لیکن ان کے پیچھے نہ تو کبھی منظم عوامی طاقت تھی اور نہ ہی وہ اس اہل تھے کہ فیصلہ سازی کا مکمل اختیار حاصل کر سکتے۔ پاکستان مسلسل اقتدار کی رسہ کشی کا شکار ہوتا آ رہا ہے اور اس دوران حالات نے اگر کوئی موقع پیدا بھی کیا‘ جس سے پاکستان فائدہ اٹھا کر دیرینہ مسائل حل کر سکتا تھا تو انتہا پسند قوتوں نے سازش کر کے اسے گنوا دیا۔
ایک موقع اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں‘ بی جے پی کی حکومت بن جانے کی وجہ سے نکل آیا تھا۔ بھارت کی قوم پرست جماعتوں نے بی جے پی کے پرچم تلے انتخابات میں یہ حیثیت حاصل کر لی تھی کہ وہ وزرات عظمیٰ کا منصب حاصل کر سکے۔ اٹل بہاری واجپائی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے‘ وہ ایک دور اندیش اور ویژنری قوم پرست سیاست دان تھے۔ جذباتی فیصلے کرنے کے بجائے تاریخی فیصلے کرنے کے خواہش مند تھے۔ انہوں نے بجا طور پر پاک بھارت مسائل کو سلجھانے کا جرات مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے‘ بذات خود لاہور آ کر ایک نئے دور کی ابتدا کرنے کا حوصلہ دکھایا۔ جن سیاسی قوتوں کی وہ نمائندگی کر رہے تھے‘ ان میں انتہا پسند اور جارحانہ نظریات رکھنے والے عناصر بھی شامل تھے لیکن واجپائی نے اتنی تیز رفتاری سے اقدامات کئے کہ ان لوگوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا۔ واجپائی نے ان سب کے نمائندے کی حیثیت میں‘ پاکستان کے وجود کو تسلیم کر لیا‘ جس کے لئے وہ تیار نہیں تھے۔ واجپائی کے دورہ لاہور سے پہلے‘ یہ عناصر اپنی ہٹ دھرمی پر قائم تھے کہ پاکستان کو بھارت کا حصہ بنا کر دم لیں گے۔ واجپائی نے معاہدہ لاہور پر دستخط کر کے اس تصور کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا اور اس کے بعد بی جے پی میں اکھنڈ بھارت کے نعرے لگنا بند ہو گئے۔ تنازع کشمیر کے حقیقت پسندانہ اور قابل عمل حل کا ابتدائی خاکہ‘ دونوں وزرائے اعظم نے تیار کر لیا تھا اور وزرائے خارجہ کو ہدایت کر دی گئی تھی کہ وہ مختصر ترین عرصے میں طے کی گئی بنیادوں پر‘ تنازع کشمیر کے تصفیے پر مبنی معاہدے کا مسودہ تیار کریں۔ اٹلی کے کسی مقام پر دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ اپنے معاونین کے ساتھ جمع ہونے والے تھے‘ جہاں معاہدے کا حتمی مسودہ تیار کیا جانا تھا اور فوراً ہی دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم اس پر دستخط کرنے والے تھے۔ برصغیر میں امن اور باہمی تعاون کے امکانات کو حقیقت میں بدلنے کی تیاریاں ہونے لگی تھیں۔ پرویز مشرف کی سربراہی میں کارگل پر جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی کارروائی شروع کر دی گئی‘ جس پر بھارتی وزیر اعظم واجپائی نے نواز شریف کو فون کر کے کہا کہ ''آپ نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے‘‘۔ برصغیر کے ایک عظیم سیاسی مدبر کے یہ الفاظ‘ اس المناک حقیقت کا اظہار تھے کہ ڈیڑھ ارب عوام کو امن کی جو نوید ملنے والی تھی‘ وہ اس سے محروم رہ گئے۔ کارگل کے بعد‘ دو مرتبہ ایسے مواقع پیدا ہوئے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہو سکتی تھی۔ اس خطرے کو دیکھ کر عالمی برادری میں سراسیمگی پھیل گئی اور بڑی طاقتوں کو ہنگامی طور پر حرکت میں آ کر‘ دونوں فریقوں کے ہاتھ روکنا پڑے۔ خدشہ یہ پیدا ہو گیا تھا کہ دو ایٹمی ملکوں کے درمیان اگر جنگ چھڑ گئی تو وہ کسی وقت بھی ایٹمی جنگ میں بدل سکتی ہے‘ جس سے انسانی آبادی کا ایک بڑا حصہ جو دنیا کی قریباً ایک چوتھائی آبادی کے لگ بھگ ہے‘ المناک تباہی سے دوچار ہو جائے گا۔ یہ کوششیں رنگ لائیں اور جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔
کیا ایسے مواقع ہمیشہ ملتے رہیں گے؟ ایسا نہیں ہوا کرتا۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا ایک بڑا حصہ یہ طے کئے بیٹھا ہے کہ پاکستان کے ساتھ اب ہر قیمت پر معاملات کو مستقل طور سے طے کر لیا جائے۔ مذاکرات سے طے نہ ہوں تو پھر دوسرا کوئی بھی طریقہ اختیار کر کے فیصلہ کر لیا جائے۔ کانگریس کو موقع پرستی کے طعنوں سے بچنے کے لئے بھارتی انتہا پسندوں کے دبائو میں رہنا پڑتا تھا۔ اسی وجہ سے وہ اپنے طویل عرصہ اقتدار میں تنازع کشمیر کا حل نہ ڈھونڈ سکی۔ واجپائی نے آتے ہی موقع پیدا کر دیا تھا‘ جو ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا۔ آج بی جے پی پوری طاقت کے ساتھ اقتدار میں آچکی ہے۔ خوش قسمتی سے واجپائی ابھی زندہ ہیں۔ قیام امن کے لئے وہ دعائوں سے کچھ زیادہ کر دینے کے قابل ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سارک ملکوں کی آڑ میں پاکستان کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ‘ انہی کی خواہش پر جاری کیا گیا ہو۔ اسے بی جے پی کے بھارت کی آخری کوشش سمجھنا چاہئے۔ ہم چاہیں تو اس موقعے کو امن مذاکرات شروع کرنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں اور اگر ایسا نہ کیا تو مودی خاموش بیٹھنے والے نہیں‘ وہ دوسرے طریقے سوچنا شروع کر دیں گے۔ واجپائی نے تو محاورتاً کہا تھا کہ ''اب آر یا پار‘‘۔ لیکن نریندر مودی کہیں گے نہیں‘ ٹھان سکتے ہیں۔ امن کے لئے وہ بہت کچھ دے دیں گے‘ دینے سے نہ ملا تو ہر قیمت چکانے پر تیار ہو جائیں گے۔ کوئی ملک نیمِ دروں نیم بروں کی حالت میں‘ ایسی تیز رفتار ترقی نہیں کر سکتا‘ جس کی خواہش نریندر مودی رکھتے ہیں۔ وہ ہر حالت میںترقی کی رفتار‘ چین سے تیز کرنے کے خواہش مند ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں