اسلام آباد میں50ہزار پولیس والوں کے سامنے‘ سرکاری ترجمانوں کے مطابق‘ صرف 20 ہزار مظاہرین تھے۔ وزراء کے مطابق قریب قریب یہی تعداد تھی۔ کوئی وزیر ایک طرف پانچ سات ہزار اور دوسری طرف دس بارہ ہزار بتاتا اور کوئی اس کے الٹ۔ مظاہرین 16 دن اپنی اپنی جگہ پر مستقل دھرنا دیئے بیٹھے رہے۔ کسی قسم کی بدامنی نہیں ہوئی اور جب ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے مظاہروں کو حساس مقامات کے سامنے منتقل کرنے کا فیصلہ کیا‘ تو پولیس کی یہ بھاری بھرکم تعداد میدان میں اتاری گئی۔اس رات مظاہرین کی جو دھنائی ہوئی‘ وہ اپنی مثال آپ تھی۔ عورتوں‘ بوڑھوں اور نو عمر نوجوانوں سمیت‘ سب کو بے رحمی سے پیٹا گیا۔ گیس کے شیل مارے گئے اور لاٹھیوں کا بے تحاشا استعمال ہوا۔ اس روز مظاہرین میں سے کسی کسی کے پاس ڈنڈا تھا۔ اکثریت خالی ہاتھ تھی۔ اس رات اور اس کی صبح کم و بیش ایک ہزار افراد اتنے شدید زخمی ہوئے کہ انہیں ہسپتال لے جانا پڑا۔ ہسپتال کے ذرائع نے بتایا کہ دو افراد ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ لیڈروں نے الزام لگایا کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہسپتال کی انتظامیہ نے ان کی لاشیں غائب کر دی ہیں اور سینکڑوں افراد لاپتہ ہیں۔ اگلے روز دن اور شام کے وقت امن رہا۔ پولیس اور مظاہرین میں ہلکی پھلکی جھڑپیں ہوتی رہیں۔ اس روز 3 افراد جاں بحق ہوئے اور زخمیوں کی تعداد 600تھی۔شام تک حالات بہتر رہے، لیکن آج صبح پھر سے جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ مظاہرین کی تعداد میں حیرت انگیز تیزرفتاری سے اضافہ ہونے لگا اور پھرپولیس کی دوڑیں لگنا شروع ہو گئیں۔ یاد رہے‘ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مظاہرین صرف دس بارہ ہزار تھے اور جس پولیس کی دوڑیں لگیں‘ اس کی تعداد چالیس پچاس ہزار کے درمیان تھی۔ اس صورتحال پر کیا کہا جا سکتا ہے؟یا تو پولیس والوں کے حوصلے پست تھے اور مظاہرین زیادہ حوصلہ مند ؟ یا وہ دلی طور پر حکومت کے ساتھ نہیں تھے اور بے دلی سے ڈیوٹی دے رہے تھے؟ یا سرکاری ذرائع نے مظاہرین کی تعداد کم بتائی؟ وہ اگر پولیس کے برابر نہیں تھے‘ تو دوچار ہزار کم ہوں گے۔ تینوں صورتوں میں سرکاری بیانات ناقابل یقین نظر آتے ہیں۔
یہ احتجاجی تحریک اس لحاظ سے بدقسمت ہے کہ اسے اپوزیشن کی کسی بھی جماعت کی حمایت یا تعاون حاصل نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف‘ احتجاج کرنے والی جماعتوں کو تنقید ہی نہیں بلکہ نفرت کا نشانہ بناتے رہے اور سینہ تان کر کہتے رہے کہ حکومت سے پہلے میں مظاہرین کے سامنے آئوں گا۔ کیا بہادری ہے؟ نیب کے سامنے آتے نہیں‘ مظاہرین کے سامنے آئیں گے۔ یہ دنیا کی واحد اپوزیشن ہے‘ جو احتجاج کرنے والے عوام کی مخالفت کرتے ہوئے‘ حکومت سے بڑھ کر ‘ حکومت کی وکالت کرتی ہے۔یہ اور پارلیمانی اپوزیشن کی ساری جماعتیں‘ کبھی عوام کے مسائل پر بات نہیں کرتیں۔ اگر پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھ کر عوامی مسائل کا سراغ لگانے کی کوشش کی جائے‘ تو پتہ چلے گا کہ پاکستان میں بیروزگاری کا کوئی مسئلہ نہیں۔ مہنگائی سے کسی کو تکلیف نہیں۔ لوڈشیڈنگ پر عوام خوش و خرم ہیں۔ امن و امان کی صورتحال تسلی بخش ہے۔ ہسپتالوں میں غریبوں کا بہترین علاج ہو رہا ہے۔ ان کے بچوں کے لئے تعلیم کا انتظام تسلی بخش ہے اور انتہا یہ کہ پاکستان میں دور دور تک کرپشن کا نام و نشان نہیں۔ اگر پارلیمانی اپوزیشن کو ان سارے مسائل کا پتہ ہوتا‘ تووہ عوام کی مشکلات اور تکلیفوں سے واقف ہوتی اور پارلیمنٹ کے اندر حکومت کی خبر لیتے ہوئے اسے احساس دلاتی کہ عوام کیسی تکلیف دہ زندگی گزارتے ہیں اور حکومت کو ان کے لئے کیا کیا کرنا چاہیے؟ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپوزیشن بلا کی ''دھنیانوش‘‘ ہے۔ کرپشن کے خلاف اس لئے نہیں بولتی کہ اپوزیشن کے بے شمار ممتاز اراکین کو اندیشہ ہے کہ کرپشن کی فائلیں کھولی گئیں‘ تو کہیں ان کا اعمال نامہ سامنے نہ آ جائے۔ میڈیا عموماً شریف برادران کا زبردست حامی ہوتا ہے۔ توقع کے مطابق انتخابات میں دھاندلی کے خلاف حالیہ تحریک کے ساتھ بھی اس کا رویہ حسب توقع رہا۔ تحریک کے دوسرے ہفتے میںمیڈیا والوں پر قدرت کچھ زیادہ ہی مہربان ہو گئی۔ بعض لوگوں کی ایسی لاٹری نکلی کہ کئی کروڑی مل ہو گئے اور کوئی کروڑکماری بن گئی۔ اس کے بعد مظاہرین کا شرپسند قرار پانا تو بنتا ہی تھا۔ جس چینل پر کوئی مہمان حکومتی ہٹ دھرمی کا تذکرہ کرتا‘ کوئی نہ کوئی کروڑی مل پنجے جھاڑ کے‘ اسے پڑ جاتا اور وہ مہمان حیرت سے گنگ ہو جاتا کہ یہ صاحب کل تک تو میرے ہم خیال ہوا کرتے تھے‘ آج انہیں کیا ہو گیا؟ ایک ہسپتال‘ جس کی انتظامیہ پر مظاہرین کی لاشیں غائب کرنے کا الزام ہے‘ وہاں حقائق معلوم کرنے کے لئے ایک رکن قومی اسمبلی تشریف لائے۔ آپ کو معلوم ہے ان دنوں تحریک انصاف کا کوئی رکن قومی اسمبلی میں نہیں جاتا اور جتنے ایوان میں حاضر ہوتے ہیں‘ وہ سب کے سب حکومت کے زبردست حامی ہیں۔ ایسا ہی ایک رکن قومی اسمبلی‘ اس ہسپتال میں گیا‘ جہاں پہ زخمی مظاہرین کا علاج ہو رہا تھا۔بی بی سی ڈاٹ کام نے لکھا ہے کہ ''جب یہ رکن اسمبلی تشریف لائے توان کی باتوں کے انداز سے اندازہ ہوا کہ وہ کس طرح کی مجلس سے اٹھ کر آ رہے تھے۔ کیونکہ ان سے جو بو آ رہی تھی‘ وہ کم ازکم آنسو گیس کی نہیں تھی۔‘‘
اس وقت جب کہ میں یہ کالم لکھ رہا ہوں‘ ٹی وی چینل پرخبر فلیش ہو رہی ہے کہ ''سپریم کورٹ نے مسئلے کے حل کے لئے بطور ثالث کردار ادا کرنے کی پیش کش کر دی۔‘‘ ابھی تک تنازعے کے حل کے لئے بہت سی تجاویز سامنے آ چکی ہیں۔ ان میں دو تجویزیں انتہائی معقول اور قابل عمل ہیں۔ پہلی تجویز وہ تھی‘ جس کا ذکر عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے کیا کہ ''وزیراعظم نے چیف آف آرمی سٹاف سے کہا ہے کہ وہ ان کے اور احتجاج کرنے والی اپوزیشن کے درمیان سہولت کار کا کردار ادا کر دیں۔‘‘ لیکن وزیراعظم نے اگلے ہی روز‘ اس واقعہ سے صریحاً انکار کر دیا۔ عمران اور قادری یہ بات سن کر‘ ہکابکا رہ گئے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آرمی چیف نہایت ذمہ داری اور حق پسندی کا منصب ہے۔ ان کے بارے میں تصور کرنا بھی غلط ہے کہ یہ بات انہوں نے محض گپ شپ میں کہی تھی اور وزیراعظم سے یہ امید ہی نہیں کی جا سکتی کہ وہ غلط بیانی سے کام لیں گے اور اسی شام فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے یہ پریس ریلیز آ گئی کہ ''وزیراعظم نے چیف آف آرمی سٹاف سے سہولت کاری کے لئے کہا تھا۔‘‘ سپریم کورٹ نے اچھا کیا کہ خودبرسرعام ثالثی کی پیش کش کر دی۔ پہلا موقع تو ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ دوسرا موقع ابھی موجود ہے۔ حکومت کا مطلب ہوتا ہے کہ ریاستی امور اور ادارے اس کے کنٹرول میں ہوں۔ اگر ایک ادارے یا محکمے میں حکومت کی رٹ ختم ہو جائے‘ تواسے حکمرانی کے لائق نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن یہاں تو وفاقی حکومت کے بیشتر دفاتر بند پڑے ہیں۔ کئی وزارتیں ایسی ہیں‘ جن کا پورا پورا سٹاف دفتر نہیں آ رہا۔ پولیس افسروں نے حکومتی احکامات ماننے سے صریحاً انکار کر دیا ہے۔ ایک پولیس افسر خاتون نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے۔ ساڑھے چار سو سے زیادہ پولیس ملازمین لاٹھی اور آنسو گیس چلانے کی ڈیوٹی دینے سے انکار کر کے چھٹی پر چلے گئے ہیں۔ عوام کا موڈ بھی اسی طرح باغیانہ دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے حالات میں جب کوئی حکومت اقتدار پر مسلط رہنے پر اصرار کرے‘ توقوم واقعی آزمائش میں پڑ جاتی ہے۔ خصوصاً حکومت جب منتخب ہو کر آئی ہو۔ ایسی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ آمر کیا کرتے ہیں‘ جوطاقت سے اقتدار میں آئے ہوں۔ انہیں پروا نہیں ہوتی کہ عوام کیا چاہتے ہیں؟ وہ ہر حال میں قوم پر مسلط رہنے کے جتن کرتے ہیں۔ منتخب حکمران کے دور میں ایک بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے پر ہلاک ہو جائے تو وہ اسی وقت اقتدار سے الگ ہو جاتا ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں راولپنڈی کا صرف ایک طالب علم پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہوا تھا۔ ایوب خان نے اسی دن اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ۔ یہاں تو لاہور میں 14ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ 5اسلام آباد میں بھی ہو چکی ہیں۔ اب یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آ رہا۔ ہر شہر اپنا حصہ ڈالتا رہے گا اور ایک دن عوام یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے
اے میری محبوب حکومت! کتنے بندے مارو گی؟
ابھی ابھی پی ٹی وی سنٹر اسلام آباد پر قبضہ چھوڑنے کی خبر کے ساتھ ‘ پی ٹی وی کے ایک ترجمان کا بیان آیا کہ ''مظاہرین 24 کیمرے لے گئے ہیں۔‘‘ یہ مظاہرین یقینا جادو کے کرتب جانتے ہوں گے‘ جو ٹی وی کے 24کیمرے جیبوں میں ڈال کے لے گئے۔واقعہ یہ ہے کہ تمام مظاہرین فوج اور کیمروں کے سامنے ٹی وی سنٹر سے باہر نکلے۔ ان میں سے کچھ کے ہاتھوں میں چھڑیاں تھیں۔ کیمرے جیسی کوئی چیز کسی نے نہیں اٹھا رکھی تھی۔اتنے کیمرے خود ٹی وی والے بھی غائب نہیں کر سکتے تھے۔ یہ کوئی پرانی ''واردات‘‘ تھی‘ جسے قبضے کی آڑ میں جائز کر لیا گیا۔