پاکستان میں بارشوں سے آنے والے سیلاب‘ اتنی تباہی نہیں پھیلاتے‘ جتنی بھارت سے آنے والے دریا۔ آزادی سے پہلے‘ بھارت میں بیسیوں دریا بہتے تھے‘ جن میں سے صرف 2 دریا ہمارے پاس ہیں جبکہ 3دریا بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے تحت‘ ہم سے حاصل کر لئے تھے۔ اس کے بعد یہ لازم ہو گیا تھا کہ ہم اپنے حصے میں آنے والے سیلابوں کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے‘حفاظتی انتظامات کرتے۔ معاہدے کے تحت جہلم اور چناب ہمارے حصے میںآئے تھے اور ان کے پورے پانی پر ہمارا حق تھا۔ گویا ان دریائوں کے سیلابوں کی تباہ کاری سے اپنے شہروں‘ بستیوں او ر فصلوں کو بچانے کا مستقل انتظام کیا جاتا اور دو دریا راوی اور ستلج ہرچند ہم پر بند کر دئیے گئے ہیں لیکن سیلاب کی صورت میں لازم ہے کہ ان کے اندر بھی پانی آئے جو کہ اکثر آتا ہے اور سیلاب ہماری آبادیوں اور کھیتوں میں تباہی مچاتے ہیں۔ بھارت کے پاس‘ پنجاب کے علاوہ بھی بے شمار دریا ہیں اور ان میں کئی تو بہت بڑے ہیں۔ سیلاب ان میں بھی آتے ہیں لیکن وہاں کی حکومت نے سیلاب کے پانیوں کو محفوظ کر کے‘ اپنی دولت میں بدل لیا ہے جبکہ ہم نے اپنے عوام کو سیلابوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔پاکستان کے بچے بچے کو معلوم ہے کہ جب سیلابی پانی ستلج میں چھوڑا جائے گا تو ہمارے کون کون سے علاقے اور شہر اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔
جب راوی میں سیلابی پانی ڈالا جائے گا تو وہ ہمارے کتنے علاقوں کو متاثر کرے گا۔ جہلم اور چناب کا تو سارا پانی معاہدے کے تحت ہمیں ملنا ہوتا ہے۔ بھارت اکثر ڈنڈی مار کے‘ ہمارے حصے کا پانی بھی چھین لیتا ہے لیکن ایسا صرف چوری چوری ممکن ہے۔پکڑے جانے پر‘ پھر سے نئے وعدے وعید ہوتے ہیں لیکن ہمیں چاہیے تھا کہ ان 2دریائوں کے پورے پانی کی امکانی آمد کا اندازہ کر کے‘جہاں تک ممکن ہوتا‘ آبی ذخائر بناتے اور باقی جتنا پانی ہمارے بس کا نہیں رہتا ‘اس کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے‘ اپنے شہروں کے گرد حفاظتی بنداور کھیتوں کے بچائو کے لئے مختلف نالے تعمیر کر کے‘ بستیوں اور کھیتوں کو ممکنہ حد تک بچانے کے انتظامات کرتے۔آفرین ہے ہمار ے حکمرانوں کو کہ پاکستان کی ساری آمدنی بھی ہڑپ کر جاتے ہیں ۔ اب تک80ارب ڈالر کا قرضہ لے کر‘ بیرونی بینکوں میں جمع کرا چکے ہیں۔ قرضہ پاکستانی قوم پر ہے‘ مصیبتیں بھی پاکستانی عوام بھگت رہے ہیں اور عیش و آرام حکمران طبقے کرتے ہیں۔
بھارت نے عمدہ منصوبہ سازی کے ذریعے دریائی طغیانیوں کی تباہ کاریوں سے بچائو کے انتظامات کر لئے۔ اب وہاں صرف غیر معمولی اور غیر متوقع بارشوں کی وجہ سے دریائوں میں جو طغیانی آتی ہے‘ اس کا پانی یقیناً کھیتوں اور بستیوں تک پہنچ جاتا ہے لیکن پہاڑوں سے آنے والے پانی کو استعمال کرنے اور باقی سمندر میں پھینکنے کا ایک نظام تیار کیا جا چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں آنے والے دریائی سیلاب‘ اب وہاں کے عوام کے لئے عذاب نہیں بلکہ وسائل میں اضافے کا ذریعہ ہیں۔راوی اور ستلج کے پانی کوبھارت استعمال کرتا ہے اور درمیانہ درجے کے سیلاب کا پانی بھی اس کے مصرف میں آجاتا ہے۔ فالتوپانی وہ ہماری طرف چھوڑتا ہے۔ہم ہر طغیانی کے موقعے پر شور مچاتے ہیں کہ بھارت نے دریائوں میں پانی چھوڑ کر ہمارے خلاف آبی جارحیت کی۔ان اللہ کے بندوں سے کوئی پوچھے کہ بھارت سیلاب کا پانی ‘دریا کے بہائو کے رخ پر نہ چھوڑے تو کیا اسے روک کر‘ اپنی تباہی کا بندوبست کرے؟ ہمارے پاس اپنے تمام دریائوں کا فالتو پانی بہانے کے لئے سمندر موجود ہے۔ تقسیم سے پہلے یہی دریا‘ سمندر میں جایا کرتے تھے۔جب بھی فالتو پانی آئے گا‘ اسے ڈسپوز آف کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم چاہیں تو اس پانی کو کناروں کی حدود میں رکھتے ہوئے سمندر تک پہنچا دیں اور چاہیں تو اس کے ذخیرے بنا کر‘ پیداواری مقاصد کے لئے استعمال کر لیں لیکن بھارت کی طرف سے طغیانی کا پانی آنے پر‘ واویلا کرنے کا کوئی جواز نہیں۔جو بھی دریا مشترکہ طور پر دونوں کے حصے میں آئے ہیں اور وہ قدرتی طور پر ہمارے علاقے سے ہو کر سمندر میں گرتے تھے‘ وہ نظام آج بھی برقرار ہے۔ کیا ہمارے حکمران سوئے ہوئے تھے کہ انہوں نے68 برس کا عرصہ گزر جانے پر بھی ستلج اور راوی کے فالتو پانی سے فائدہ اٹھانے کا بندوبست نہیں کیا۔ہم اس پانی کو ذخیرہ کر کے‘ اسے متعدد کاموں میں استعمال کر سکتے تھے اور اگر اتنی توفیق نہیں تھی تو سیلاب کی صورت میں ان دریائوں کو سمندر تک کا راستہ مہیا کر سکتے تھے تاکہ یہ ہمارے شہروں اور بستیوں کو نقصان نہ پہنچا سکے۔بھارت کو اپنے دریائوں کا پانی سمندر کی طرف چھوڑنے کا حق حاصل ہے۔ راستے میں ہماری زمین آتی ہے تو اس پانی کے نقصانات سے بچنے کا انتظام کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ہم اپنی حرام خوریوں‘ کرپشن اور غفلت کی وجہ سے نقصان اٹھاتے ہیں اور الزام بھارت کو دیتے ہیں۔
جتنے دریائوں کا پانی ہمارے ملک میں داخل ہوتا ہے وہ درحقیقت ہماری ملکیت ہے۔ ہمیں کبھی کسی نے نہیں روکا کہ ہم اس پانی سے کیا کیا فائدے اٹھاتے ہیں ۔ اگر ہم فائدہ اٹھانے کے بجائے اس پانی میں ہونے والے اضافے کے ہاتھوں نقصانات اٹھاتے ہیں تو اس میں کسی اور کا کیا قصور؟ہمیں خدا نے لامحدود پانی استعمال کرنے کی گنجائشوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔ ہمارے دو بڑے بڑے صحرا ابھی تک آباد کاری کے منتظر ہیں۔ ان کی پیاسی ریت اور مٹی انتظار میں پڑی ہے۔ ہم ان کے حصے کا پانی ان تک پہنچا کر‘ انہیں سبز ہ و گل سے مالا مال کیوں نہیں کرتے؟ اور خود ان کے فوائد سے مستفید کیوں نہیں ہوتے؟ اس کے برعکس فالتو پانی میں اپنے شہر ڈبوتے ہیں۔ اپنے بچوں ‘ عورتوں اور جوانوں کو ان پانیوں میں ڈبو کر‘ انسانیت کے خلاف جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ہزاروں ایکٹر پر کھڑی فصلوں کو تباہ کر لیتے ہیں او ر کسان ہر دوسرے تیسرے سال سیلابوں میں اپنے افراد خاندان کو ڈوبتے اور فصلوں کو غرق ہوتے دیکھ کر‘ سیاپے کرتے ہیں۔ اپنے حکمرانوں کے لئے بددعائیں کرتے ہیں اور ایک مرتبہ پھر تباہ و برباد ہو کر‘ نئے سرے سے زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔اگر ہمیں معمولی سوجھ بوجھ کے لیڈر بھی مل جاتے تو کم از کم بارشوں اور سیلابوں کے پانی سے استفادہ کرنے کے لئے‘ کوئی نہ کوئی انفراسٹرکچر ضرور تیار کر لیتے لیکن یوں لگتا ہے کہ ہمارا واسطہ ہی عقل کے اندھوںسے پڑا ہے۔وہ صرف مرغی کھانے پر یقین رکھتے ہیں۔ انڈے کا انتظار نہیں کر سکتے۔ بھارت نے اپنے پنجاب میں فی ایکٹر پیداوار ہم سے3گنا کر لی ہے۔ ہماری زرعی زمین بھارتی پنجاب سے کم زرخیز نہیں لیکن ہم آج بھی اپنی زرعی پیداوار کو اس تناسب سے نہیں بڑھا پائے‘ جس سے بھارت نے بڑھایا ہے۔
آج بھی ہم ہر دوسرے تیسرے سال‘ اپنی بستیوں کو طغیانیوں کے پانی میں ڈبوتے ہیں۔ ہزاروں ایکٹر کھڑی فصلیں تباہ کر بیٹھتے ہیں۔ اپنے انفراسٹرکچر کی تو ڑ پھوڑ کراتے ہیں۔ سینکڑوں قیمتی جانوں کو ضائع کرتے ہیں اور اس کے بعد سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ہمیں ذرا بھی خیال نہیں رہتا کہ طغیانی کا پانی‘ اگلے موسم میں پھر آئے گا۔ ہمارے کسان اور محنت کش پھر ڈوبیں گے۔ وہی بستیاں پھر سے تباہ ہوں گی۔ ہماری سڑکوں اور دیگر قیمتی تنصیبات کی پھر ٹوٹ پھوٹ ہو گی۔دنیا کے ہر ملک میں جو انسان ایک قوم بن کر‘ ایک وطن میں رہتے ہیں‘ وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ مل کر‘ اجتماعی تعمیر و ترقی کے عمل میں حصہ لیتے ہیںا ورپھر ساری قوم اپنی محنت کے ثمرات سے لطف اندوز ہوتی ہے لیکن ہم نے مشترکہ ملکیت کو بھی ذریعہ فساد بنا رکھا ہے؛ مثلاً کالا باغ ڈیم میں پانی کا بھاری ذخیرہ کر کے‘ ہم سیلابوں کے زیادہ نقصان سے بچ سکتے تھے۔ اس پانی کو بروقت استعمال کر کے‘ بہتر فصلیں لے سکتے تھے۔ بجلی بنا سکتے تھے لیکن قدرت کی یہ نعمت جو ہمیں اجتماعی راحت دینے کے لئے عطا ہوئی ہے‘ ہم اسے ایک دوسرے کو تکلیف پہنچانے کے لئے‘ استعمال کر رہے ہیں‘ محض اس لئے کہ ایک زبان بولنے والوں کی ضد ہے کہ ہم دوسری زبان بولنے والوں کو اس کا فائدہ نہیں اٹھانے دیں گے۔سچی بات ہے کہ مجھے تو کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے سیلابوں کو بھی ہماری بیوروکریسی اور ارباب اختیار نے آمدنی کا وسیلہ بنا رکھا ہے۔ جب بھی سیلاب زدہ لوگوں کے لئے امدادی رقوم اور سامان کی خریداریاں ہوتی ہیں تو لوٹ مار کا نیا سیزن آجاتا ہے۔ سب سے پہلے خریداریوں والے‘ اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ اس کے بعد جو سامان اور روپیہ سیلاب زدگان کے لئے ضلعی انتظامیہ کے حوالے کیا جاتا ہے‘ وہ اسے خرد برد کر کے اپنا سیزن لگالیتے ہیں۔سیلاب زدگان اپنی مصیبتیں خود اٹھاتے ہیں اور خود ہی رینگتے اور تڑپتے ہوئے اپنی زندگی کو دوبارہ معمول پر لانے میں جت جاتے ہیں۔ہماری بھوک‘ ہماری تباہی‘ ہماری بیماریاں‘ ہماری بے روزگاری‘ ارباب اقتدار اور افسرشاہی کا ذریعہ روزگار ہے۔وہ ہمیں سیلابوں اور بارشو ں کی تباہ کاریوں سے کیوں بچائیں گے؟ کوئی اپنے پیٹ پر لات مارتا ہے؟