"NNC" (space) message & send to 7575

جمہوریت کہاں ہے؟ جو بچ گئی

بھارتی وزیر دفاع نے آج کہا ہے کہ ''جب تک پاکستان دہشت گردوں کے ذریعے کام نکالنے کی کوشش کرے گا‘ اس کے ساتھ بات چیت نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ بھارت کو توڑنے والوں کے ساتھ رابطے رکھنا چاہتا ہے یا بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنا؟‘‘ وقت کے ساتھ ساتھ جنتا پارٹی کی نئی حکومت کی پالیسی کے خدوخال سامنے آتے جا رہے ہیں۔ اس نے آتے ہی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے‘ وہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ یہ اتفاقیہ حادثات نہیں‘ ایک سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ ہے۔ وہ مسلسل لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کے ذریعے‘ پاکستان پر دبائو جاری رکھنا چاہتا ہے۔ ساتھ ہی موقع بہ موقع بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی بھی کرتا رہے گا۔ جیسے کہ سیالکوٹ کے محاذ پر گولہ باری رکنے میں نہیں آ رہی۔ پاکستانی سفارتکار اور عالمی امور کے ماہر‘ اشرف جہانگیر قاضی نے اپنے حالیہ مضمون میں بڑے نکتے کی باتیں لکھی ہیں۔ بھارت کی نئی پالیسی کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ پوچھتے ہیں کہ پاکستان کو اس کا جواب کیسے دینا چاہیے؟ وہ لکھتے ہیں ''خود مختار ملکوں کے درمیان عموماً ریڈ لائنز ہوتی ہیں۔ خود مختار ملک انہیں نظر انداز نہیں کر سکتے۔ لیکن وہ حدود کا تعین ضرور کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ سکیورٹی چیلنجز کا جواب دیتے ہوئے‘ طویل مدتی صورتحال کو پیش نظر رکھے۔ بصورت دیگر بھارت کا بڑا سائز اور اس کا بین الاقوامی اثر و رسوخ‘ ہر حال میں اہمیت رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی قومی پالیسیاں کبھی کبھار ایک دوسری کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ذمہ دار حکومت اور جمہوریت کے ارتقا میں رکاوٹیں پڑتی رہیں۔ پاکستان کے کسی بھی فوجی حکمران کو مثبت انداز میں یاد نہیں کیا جاتا۔ پاکستان کی ایٹمی ڈیٹرنس‘ ہمیں بھارت کے مقابلے میں برابر کی طاقت نہیں بناتی۔ ماسوا انتہائی اقدام کے۔ یہ صورتحال بھارت کو محدود تصادم اور محاذ آرائی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیتی ہے‘ جیسا کہ حال ہی میں ہوا۔ بھارت کی برتر روایتی فوجی طاقت اور اس کا عالمی اثر و رسوخ‘ مخصوص حالات میں اسے کسی خاص سفارتی قیمت کے بغیر دائو لگانے کی گنجائش دیتا ہے‘ جبکہ پاکستان کو یہ سہولت حاصل نہیں۔ مودی اپنے اس غلبے سے‘ فائدہ اٹھانے کے لئے اسے اس طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی حل اپنی شرائط پر مسلط کر دیں۔ پاکستان میں فیصلہ سازی اگر زیادہ جمہوری‘ ذمہ دارانہ اور شفاف ہو جائے تو بھارت ایسا نہیں کر سکے گا۔‘‘ قاضی صاحب نے جن قوتوں کی طرف اشارہ کیا ہے‘ میرے خیال کے مطابق وہ گزشتہ چند ماہ کے تجربات ہیں۔ جب مودی برسر اقتدار آئے اور انہوں نے دیگر ہمسایوں کے ہمراہ پاکستانی وزیر اعظم کو اپنی تقریب حلف برداری کے لئے مدعو کیا‘ تو وہ اسے ذاتی دعوت نامہ سمجھ کر دہلی پہنچ گئے۔ اگر جمہوری‘ ذمہ دارانہ اور شفاف فیصلہ سازی کا طریقہ اختیار کیا جاتا‘ تو اس دعوت کا تجزیہ کرنے کے لئے مشاورت کی ضرورت تھی۔ سب سے پہلے انہیں وزارت خارجہ اور افواج پاکستان کے متعلقہ کمانڈروں کے ساتھ مشاورت کر کے‘ پاکستانی ردعمل کا تعین کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بعد خارجہ امور اور دفاعی کمیٹیوں کے ساتھ یہی عمل دہرانے کی ضرورت تھی اور آخر میں پوری کابینہ کی 
میٹنگ میں پاکستان کی طرف سے اس گفتگو کو حتمی شکل دی جا سکتی تھی‘ جو وزیر اعظم اپنے بھارتی میزبان کے ساتھ ملاقات کے دوران کرتے۔ انہوں نے یہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا۔ وہ کسی سے بات کئے بغیر‘ اپنے صاحبزادے اور چند مصاحبوں کی معیت میں سیدھے دہلی جا پہنچے اور صاحبزادہ صاحب وزیر اعظم مودی کی حلف برداری کی تقریب میں صف اول کی بھارتی قیادت کے سامنے یوں ٹہلتے رہے‘ جیسے ماڈل ٹائون پارک میں پھر رہے ہوں۔ یہاں پر جمہوری ریاست کو تشکیل دینے والے متعلقہ ادارے شش و پنج میں مبتلا رہے کہ ہمارے وزیر اعظم وہاں کیا کر رہے ہیں؟ لازم تھا کہ شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا۔ ان شکوک و شبہات کے نتیجے میں ریاستی اداروں نے اپنے اندازوں کے مطابق جو اقدامات مناسب سمجھے‘ کر ڈالے۔ اس کے بعد ہم رونے بیٹھ جاتے ہیں کہ یہاں جمہوریت کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ محض وزیر اعظم کی ذات کا نام جمہوریت نہیں ہوتا۔ وہ ایک نظام کا حصہ ہوتے ہیں۔ جس میں بنیادی حیثیت پارلیمنٹ کی ہے اور اس کے بعد اداروں کی۔ جن میں پارلیمانی کمیٹیاں اور متعلقہ محکمے سب شامل ہوتے ہیں۔ ان سب کے درمیان انتہائی سنجیدہ اور پیشہ ورانہ مشاورت کے بعد‘ قومی امور پر جو فیصلے کئے جاتے ہیں‘ انہیں جمہوری کہا جاتا ہے۔ ایک وزیر اعظم‘ بھارت جیسے ملک کے ساتھ اعلیٰ سطحی بات چیت‘ جیسے حساس ترین موقع پر کسی سے بات اور تبادلہ خیال کئے بغیر‘ یوں رخت سفر باندھ لے‘ جیسے کہ وہ شاپنگ ٹرپ پر جا رہا ہے‘ تو جمہوریت کہاں رہ گئی؟ جب فیصلہ سازی کے عمل پر محض ایک فرد یا خاندان کا اختیار ہو‘ تو جمہوریت کبھی نہیں پنپ سکتی۔ فوجی آمر اپنی طاقت سے کام لیتا ہے۔ جمہوری اداروں کو یا ختم کر دیتا ہے یا جعل سازی کے ذریعے اپنے خوشامدیوں کو جمع کر کے‘ انہیں پارلیمنٹ کا نام دے دیتا ہے۔ اپنے ادارے میں‘ اسے فیصلہ کن اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور اس کے ماتحت ڈسپلن کے پابند۔ لہٰذا فوج کے ساتھ بھی وہ بطور ادارہ مشاورت نہیں کر سکتا۔ زیادہ سے زیادہ مہربانی کرے گا‘ تو اپنے قریبی مشیروں سے بات کر لے گا۔ ورنہ اکیلا ہی جہاں چاہے گا پہنچ کر ‘ فیصلے کر کے آ جائے گا۔ جیسے آگرہ میں جنرل مشرف نے مذاکرات کے دوران کیا تھا۔ وہاں بھارتی کابینہ کے تمام متعلقہ اراکین اور اداروں کے سربراہ آئے ہوئے تھے اور وہ ہر مرحلے پر باہمی مشاورت کر رہے تھے‘ جبکہ ہمارے جنرل صاحب تن تنہا‘ ان سب سے ''ٹکر‘‘ لے رہے تھے۔ مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا اور اگر جنرل صاحب کوئی سمجھوتہ کر کے آتے بھی‘ تو اس کا انجام معاہدہ تاشقند جیسا ہونا تھا۔ یا سندھ طاس معاہدے کی طرح‘ جس کے نتائج ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ بھارت نے ہمیشہ ایسے مواقع سے فائدہ اٹھایا۔ اسے معلوم تھا کہ آمرانہ طرز پر کئے گئے فیصلے اور وہ بھی ایک ایسے ملک کے ساتھ‘ جسے دشمن نمبر ایک سمجھا جاتا ہو‘ کبھی اعتماد کی نظر سے نہیں دیکھے جاتے۔ ریاست‘ جمہوری نظام کے تحت چل رہی ہو یا آمریت کے تحت۔ ریاست کو تشکیل دینے والے تمام عناصر کا ایسے انفرادی فیصلوں پر کبھی اتفاق نہیں ہوتا۔ ہر کوئی اپنی جگہ شکوک و شبہات میں مبتلا رہتا ہے اور تن تنہا فیصلہ کرنے والا حکمران اپنی جگہ سوچتا رہتا ہے کہ پتہ نہیں‘ اس کے فیصلوں پر اعتماد کیوں نہیں کیا جاتا؟ اعتماد کیسے کیا جائے؟ جب ملک و قوم کی قسمت کے فیصلے نمائندہ اداروں اور ریاستی محکموں کے متعلقہ عہدیداروں کی مشاورت سے نہیں ہوں گے‘ تو انہیں جمہوری اور قومی کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ یہی ہمارا المیہ رہا ہے۔ اس کے باوجود ہم آج بھی اسی صورتحال میں پھنسے ہیں۔ مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں کہ دہلی سے واپسی پر وزیر اعظم نے وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کو بریفنگ بھی دی ہے یا نہیں؟
بھارت نے کنٹرول لائن پر مسلسل جارحیت کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ اسے دنیا بھر کے سیاسی اور دفاعی ماہرین تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ اس کے تجزئیے کر رہے ہیں کہ بھارت کے عزائم کیا ہیں اور آگے چل کر وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟ اگر کوئی بے فکر ہے‘ تو وہ صرف پاکستان ہے۔ یہاں اپوزیشن زبردست احتجاجی مظاہرے کر رہی ہے‘ جن سے عوام کے اضطراب‘ بے چینی اور تشویش کا پتہ چلتا ہے۔ مگر کیا مجال ہے؟ حکومت نے امن و امان برقرار رکھنے والے اداروں‘ سکیورٹی ایجنسیز اور کابینہ کے ساتھ مشاورت میں یہ جاننے کی کوشش کی ہو کہ اس عوامی بے چینی کی وجوہ کیا ہیں؟ کہیں مسلسل بھارتی جارحیت کا خوف تو انہیں سڑکوں پر نہیں لا رہا؟ کہیں مستقبل پر بے یقینی انہیں بے چین تو نہیں کر رہی؟ جہاں پناہ نے جو ازخود سوچا‘ وہ کر ڈالا۔ لوگوں نے کہا کہ مظاہروں کے پیچھے فوج ہے‘ تو اس کے سربراہ کو بلا کر کام پر لگا دیا‘ جسے میڈیا نے مدد کی درخواست قرار دیا۔ وزیر اعظم نے ایوان میں کھڑے ہو کر‘ یہ بات جھٹلا دی اور جواب میں فوج کی طرف سے پریس ریلیز آ گئی کہ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں چیف آف آرمی سٹاف سے جو بات منسوب کی ہے‘ وہ درست نہیں اور ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر لیا گیا۔ گرما گرم تقریریں ہوئیں۔ فوج نہ کچھ کرنے جا رہی تھی اور نہ اس نے کیا۔ خود ہی مطمئن ہو کر بیٹھ گئے کہ خطرہ ٹل گیا۔ ان خدا کے بندوں کو کون سمجھائے کہ خطرہ کسی طرف سے نہیں‘ اس حکومت کو صرف اپنے طور طریقوں سے خطرہ ہے۔آج بھی جبکہ بھارت اپنے جارحانہ عزائم پورے کرنے کے لئے‘ مستقل مزاجی سے قدم بقدم آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم طویل بیرونی دورے پر تشریف لے جا رہے ہیں۔ بھارت کی پیش عملیوں کا جواب دینے کے لئے جمہوری ردعمل کون تشکیل دے گا؟ اس کا یہاں کسی کو پتہ ہی نہیں۔ یہ بالکل ایسے ہے‘ جیسے عین دوران جنگ پاکستانی مسلح افواج کے سربراہ بیرونی دورے پر روانہ ہو جائیں۔ فوج کو کمانڈ کون کرے گا؟ ایسے وقت پاکستان کی جمہوری حکومت کا سربراہ کہاں ہو گا؟ جبکہ بھارت اپنے جارحانہ منصوبے پر قدم بقدم آگے بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ایسے میں جمہوری رہنمائی سے محروم اداروں میں سے کوئی ہڑبڑاہٹ میں قدم آگے بڑھا بیٹھے‘ تو پھر آہ و بکا شروع ہو جائے گی کہ مارے گئے‘ لٹے گئے۔ یہی وہ صورتحال ہے‘ جس کا بھارت نے ہمیشہ فائدہ اٹھایا اور اب بھی اسے موقع ملا‘ تو وار ضرور کرے گا۔ لیکن کیا ہمارے پاس وار سہنے کی گنجائش باقی ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں