جمہوری حکومت کی موجودگی میں‘ فوجی عدالتیں پہلی بار 1953ء میں قائم ہوئی تھیں‘ جب شہر لاہور میں مارشل لا نافذ ہوا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے‘ صرف دو جماعتوں مجلس احرار اور جماعت اسلامی نے احتجاجی تحریک شروع کی تھی۔ مجھے فوجی عدالت کا تجربہ نہیں ہوا۔ جھنگ میں پولیس نے گرفتار کر کے سنٹرل جیل پہنچا دیا۔ وہیں پر سیفٹی ایکٹ دفعہ 3 کے تحت‘ 90 دن کی نظربندی کا آرڈر پہنچا دیا گیا۔ چند روز کے بعد لاہور میں کیمپ جیل منتقل کر دیا گیا۔ نظربندی کا دوسرا آرڈر لاہور میں ہی جیل کے اندر ہی پہنچایا گیا۔ گویا میں 6 مہینے جیل کے اندر رہا۔ نہ مجھے کسی فوجی عدالت میں لے جایا گیا اور نہ ہی براہ راست‘ مجھے فوجی عدالت میں جانے کا موقع ملا۔ کیمپ جیل میں پورے پنجاب کے سرکردہ مذہبی لیڈر جمع کئے گئے تھے۔ مضافات کی جیلوں میں ان دنوں بی کلاس کی سہولتیں میسر نہیں تھیں۔ مجھے بھی جھنگ سے لاہور منتقل کر کے‘ پنجاب کے باقی سینئر لیڈروں کے ساتھ رہنے کا موقع دے دیا گیا۔ مولانا مودودی اور مولانا عبدالستار خاں نیازی کو سزائے موت ہوئی تھی‘ اس لئے انہیں خصوصی حفاظتی انتظامات کے تحت قید تنہائی میں رکھا گیا۔ جبکہ باقی سارے لیڈر ایک ہی جگہ‘ کیمپ جیل میں قید تھے۔ ان سب کو میری ہی طرح‘ 3 ماہ کی نظربندی کے احکامات دیئے گئے تھے۔ جو بات میں بطور خاص عرض کرنا چاہتا ہوں‘ وہ یہ تھی کہ اس کے بعد جتنے بھی مارشل لا نافذ ہوئے‘ ان میں عوام کے لئے کچھ نہیں تھا۔ یہ واحد مارشل لا تھا‘ جس نے نفاذ کے پہلے ہی دن سے شہری زندگی پر براہ راست اثرات پیدا کئے۔ ہر چیز مقررہ نرخ پر دستیاب ہونے لگی۔ ہر دکان پر اشیائے ضرورت کا نرخ نامہ نمایاں جگہ پر آویزاں کیا گیا۔ فوجی افسروں نے خود نگرانی کر کے شہر کی صفائی کرائی۔ جب تک وہ مارشل لا نافذ رہا‘ شہر میں چوری چکاری کا نام و نشان ختم کر دیا گیا تھا۔
عملی زندگی میں اہل لاہور کو جس مارشل لا کا تجربہ ہوا‘ اس میں سیاسی دہشت گردی کا نام و نشان نہیں تھا۔ اس کے برعکس شہریوں کے ساتھ فوجیوں کا سلوک انتہائی مشفقانہ اور برادرانہ ہوا کرتا تھا۔ فوج کا صرف ڈر تھا۔ اس طرح فوج شہروں میں نہیں آئی تھی‘ جو بعد کے مارشل لائوں میں آتی رہی۔ سب سے زیادہ دہشت‘ جنرل ضیاالحق نے پھیلائی تھی۔ انہوں نے شہر میں جگہ جگہ پھانسی گھاٹ بنوائے اور وہاں قیدیوں کو لا کر‘ ایک بڑے ہجوم کے سامنے پھانسیاں لگوائیں اور مرنے والوں کی لاشوں کو کافی دیر تک لٹکایا گیا۔ دہشت گردی کے یہ مناظر دکھا کر بھی قانون شکنی ختم نہ کی جا سکی۔ الٹا‘ اس مارشل لا کے خلاف اتنی شدید نفرت کے مظاہرے دیکھنے میں آئے‘ جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔ مارشل لا کی پابندیاں توڑ کر‘ لوگوں نے جلوس نکالے۔ انتہا یہ ہوئی کہ پیپلز پارٹی کے جیالوں نے شہر کے پُررونق مقامات پر جلسے جلوسوں پر لگی پابندیاں توڑیں اور خود سوزی کے مظاہرے کئے۔ میں یہ فرق واضح کر رہا ہوں کہ جس مارشل لا میں فوجیوں نے شہری زندگی کو عوام کے لئے پُرامن اور پُرسکون بنایا‘ اس کا چہرہ اور طرز عمل انسانی تھے۔ ابتدائی چند روز کی بدامنی کے بعد تحریک ختم نبوتﷺ پُرامن انداز میں چلتی رہی۔ اس مارشل لا کی خوبی یہ تھی کہ فوجیوں نے شہریوں کو خوفزدہ کرنے کی
معمولی سی کوشش بھی نہیں کی۔ اس کے برعکس شہریوں کو باعزت طریقے سے امن و امان نافذ کر کے دکھایا۔ صفائی کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ اشیائے خورونوش کی دکانوں پر جالیاں لگوا دیں۔ گوشت اور کھانے پینے کی چیزوں پر مکھی نظر آنا بند ہو گئی۔ سبزیوں تک کی دکانوں پر مقررہ نرخ نامے آویزاں ہو گئے تھے۔ چوری چکاری کا نام و نشان نہ رہا۔ یہی وہ مارشل لا تھا‘ جس نے 1958ء کے مارشل لا کے لئے فضا ہموار کی۔ لوگوں نے شہری نظم و نسق کو فوج کے کنٹرول میں‘ جتنا بہتر اور انسان دوست پایا‘ اسی کا نتیجہ تھا کہ جب 1958ء کا مارشل لا نافذ ہوا‘ تو اس کے خلاف زیادہ مزاحمت نہ کی گئی بلکہ عوام نے فوج کا خیرمقدم کیا اور جس مارشل لا میں عوام کو دہشت زدہ کرنے کے لئے‘ چوراہوں میں پھانسیاں لگا کر ان کی نمائش کی گئی‘ اس کے دوران فوجی حکومت کی مزاحمت شروع ہو گئی تھی۔ جب ایوب خان کا مارشل لا لگا‘ تو مشرقی پاکستان
میں امن و امان کی صورت حال ابتر ہو گئی تھی۔ یہ تھے وہ حالات‘ جن میں جنرل اعظم خان مشرقی پاکستان کے صوبائی گورنر اور فوج کے سربراہ بن کر گئے۔ انہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں اپنے حسن سلوک سے فوج کو عوام دوست بنایا۔ بغاوت پر تلے ہوئے بنگالی‘ حکومت سے تعاون کرنے لگے۔ جنرل اعظم خان کی مقبولیت دیکھ کر‘ انہیں عہدے سے فارغ کر کے واپس بلا لیا گیا۔ میرا خیال ہے‘ مشرقی پاکستانیوں نے وطن سے محبت کا آخری مظاہرہ‘ اس وقت کیا جب اعظم خان دونوں عہدوں سے فارغ ہو کر مغربی پاکستان کے لئے روانہ ہو رہے تھے۔ گورنر ہائوس سے ایئرپورٹ تک‘ دونوں طرف لاکھوں کی تعداد میں عوام‘ انہیں الوداع کہنے آئے۔ وہ جنرل اعظم خان کو روتے ہوئے رخصت کر رہے تھے۔ جس فوج کا بنگالیوں نے سامنے آ کر مقابلہ کیا‘ اسی فوج کا ایک جنرل‘ اس صوبے کا انتظامی سربراہ رہنے کے بعد رخصت ہوا‘ تو پورا ڈھاکہ رو رہا تھا اور جب جنرل ٹکا اور جنرل نیازی نے‘ مشرقی پاکستان کا چارج لے کر سختی سے عوام کو دہشت زدہ کرنے کی پالیسی بنائی اور شہروں میں ٹینک آ گئے‘ تو ایسی بغاوت پھیلی کہ فوج بھی اس پر قابو نہ پا سکی اور مشرقی پاکستان‘ ہم سے الگ ہو گیا۔ آج کی نوجوان نسل کو شاید اندازہ نہ ہو کہ پہلے مارشل لا سے مشرقی پاکستان میں اعظم خان کی گورنری تک جب اور جہاں عوام کو‘ ایک حقیقی فوجی طرز حکومت کا تجربہ ہوا ‘ ان کی حب الوطنی غالب آ گئی اور جہاں فوجی حکومتوں نے عوام میں دہشت پھیلائی‘ وہیں باغیانہ جذبات اور تحریکوں نے جنم لیا۔ موجودہ جمہوری دور میں فوج کو جس کام پر لگایا جا رہا ہے‘ ہو سکتا ہے اس کے نتیجے میں عوام کو دہشت گردی سے نجات مل جائے‘ لیکن جس مقصد کے لئے باضابطہ اعلان کر کے‘ فوجی عدالتیں بنائی جا رہی ہیں‘ ان کے نتیجے میں عوام پر جو اثرات ہوں گے‘ میں ان کے بارے میں سوچ کر فکر مند ہو رہا ہوں۔ سیاستدانوں نے اپنے آپ کو پوری طرح محفوظ کر لیا ہے‘ مگر فوج کو ایک عجیب کردار کے ساتھ عدالتی اختیارات دیئے جا رہے ہیں اور ڈیوٹی یہ لگائی گئی ہے کہ پھانسیوں کی سزائیں فوجی عدالتیں دیا کریں گی اور فوجی عدالتوں کے پاس جو مقدمات آئیں گے‘ ان کا فیصلہ منتخب حکومت کرے گی اور پھانسیوں کی سزائوں پر دستخط فوجی افسر کریں گے۔ آج دہشت گردوں کے خلاف‘ عوام کے اندر جو نفرت پائی جا رہی ہے‘ وہ فوجی عدالتوں کے احکامات کے مطابق پھانسیاں ملنے کے بعد کیا برقرار رہ سکے گی؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ فوج کو پھانسیاں لگانے کے بجائے‘ عوام کو امن و امان‘ شہریوں کے تحفظ اور سلامتی کی ڈیوٹیاں دے کر شہروں میں بٹھایا جاتا اور ان کو ذمہ داری دی جاتی کہ وہ شہروں کے اندر امن قائم کر کے‘ عوام کی زندگی کو آسان اور پُرامن بنائیں۔ انہیں کرپشن اور جرائم کے خاتمے کے لئے ہنگامی اختیارات دیئے جاتے اور یہ آزادی فراہم کی جاتی کہ وہ کرپشن جیسے قومی جرائم کرنے والوں کے ساتھ ‘جو سلوک چاہیں کریں۔ کسی کو خصوصی حیثیت حاصل نہ ہو۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر فوج کو وہ کردار دیا جاتا‘ جس کا جنرل اعظم خان نے دو مرتبہ عملی تجربہ کر کے دکھایا ہے‘ تو فوج اور عوام شیر و شکر ہو جاتے۔ دہشت گردوں کے خلاف دونوں کے تعاون سے امن اور بھائی چارے کی جو فضا پیدا ہوتی‘ اس میں دہشت گردوں کے پنپنے کی گنجائش ہی نہ رہتی۔ دہشت گردی‘ کرپشن‘ بدعنوانی‘ ناانصافی اور عام شہریوں کے جان و مال کے عدم تحفظ کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ مذہب کے نام پر دہشت گردی کو بھی اسی وجہ سے قدم جمانے کے مواقع ملے کہ حکومتی مشینری‘ ناانصافیوں کی محافظ بن کر‘ عوام کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔ لوٹ مار اور عوام دشمن کارروائیاں جاری رہیں اور بغاوت کرنے والوں کو فوج کے ہاتھوں پھانسیاں دلوائی گئیں‘ تو نتیجے کا خود فیصلہ کر لیں کہ وہ کیا ہو سکتا ہے؟ بھارت نے سرحدوں کو کسی منصوبے کے تحت گرم کیا ہے۔ ایک طرف بھارتی فوجیں سرحدوں پر‘ہماری فوج پر گولہ باری کر رہی ہوں گی اور دوسری طرف فوجی عدالتیں اپنے ملک کے لوگوں کو پھانسیوں کی سزائیں دے رہی ہوں گی‘ نتیجے میں ملک کے اندر کیا صورتحال پیدا ہو سکتی ہے؟ سیاسی حکمران‘ فوج سے جو کام لینا چاہتے ہیں‘ وہ کسی بھی طرح ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ فوج کو ذمہ داریاں دینا تھیں‘تومکمل اختیار کے ساتھ اسے ٹارگٹ دیئے جاتے کہ وہ دہشت گردی اور دیگر ہر قسم کے جرائم کا 2سال کے عرصے میں خاتمہ کر کے‘ ایک انصاف پسند‘ عوام دوست اور کرپشن سے پاک انتظامیہ قائم کر کے مزید 2سال تک اس کی نگرانی کرے اور پھر اپنی نگرانی میں شفاف انتخابات کرا کے حقیقی طور پر عوام کی صحیح نمائندہ حکومت قائم کرے۔ جب فوج واپس بیرکوں میں جا رہی ہو‘ تو یہی عوام سڑکوں اور چھتوں پر کھڑے ہو کر‘ اسے پرنم آنکھوں سے الوداع کہیں‘ تو ملک تمام مسائل سے آزاد ہوکرحقیقی عوامی جمہوریہ بن سکتا ہے۔ فوج کو صرف پھانسیوں کی سزائیں دینے کے لئے طلب کر کے‘ نہ عوام کی خدمت کی جا سکتی ہے اور نہ خود فوج کو نیک نامی مل سکتی ہے۔اگر 6مارشل لائوں کے بعد بھی‘ ہمارے حکمران‘ فوج سے یہی کام لینا چاہتے ہیں‘ تو ان کی دوراندیشی کی داد دینا چاہیے۔ ہماری پارلیمنٹ میں صرف 2اراکین ایسے نکلے‘ جو 21ویں آئینی ترمیم کے نتائج کو دیکھتے ہوئے غمزدہ ہو رہے تھے۔ حکمران اداروں کے یہی 2 اراکین رضا ربانی اور اعتزاز احسن ‘اپنے فیصلے کے انجام پر غمزدہ تھے۔