پرانے زمانے میں ٹھگوں کے ایک گائوں کی کہانی سنا کرتے تھے۔ اس گائوں میں سارے ہی گھر ٹھگوں کے نہیں تھے‘ لیکن گائوں کی وجہ شہرت وہاں کے ٹھگ تھے۔ جب بھی گائوں کا باسی کوئی ٹھگی کرتا‘ فوراً بھاگ کر اپنے گائوں میں پہنچ جاتا۔ اس کے بعد ٹھگی کا شکار ہونے والاخود یا پولیس کو ساتھ لے کر ‘ ٹھگی کرنے والے کو ڈھونڈنے آتا‘ تو گائوں کا ہر شخص ‘ پولیس اور ٹھگی کا شکار ہونے والے کو بڑے احترام سے ملتا۔ اس کی خاطرمدارت کرتا۔ اگر کوئی جلدی میں ہوتا‘ تو بظاہر دوچار معززین مدد کرنے کے لئے ساتھ ہو جاتے اور بڑے خلوص سے ٹھگی کرنے والے کا گھرگھر جا کر پتہ لگاتے اورپھر افسوس کے ساتھ بتاتے کہ ان کا مطلوبہ ٹھگ ہاتھ نہیں لگا۔ جب پولیس اور ٹھگی کا شکار ہونے والا شخص‘ ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جاتے‘ تو گائوں والے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے کہ انہوں نے تو ہرطرح سے مدد کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ٹھگ نہ جانے کہاںغائب ہو گیا؟ گائوں میں آتا تو ہم یقینا آپ کے حوالے کر دیتے۔ اسلام آباد‘جہاں پورے ملک میں لوٹ مار کرنے والوں کے ٹھکانے ہیں ‘ وہاں کا حال بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا فراڈ ہو جائے۔ رشوتوں اور بے ایمانیوں سے سرکاری رقم بٹور لی جائے۔ ٹھیکوں اور ایجنسیوں کی بلیک ہو۔ لائسنسوں کا لین دین ہو یا سرکاری اختیارات کی مدد سے مال کما لیا جائے‘ بڑے سے بڑا سراغ رسان پتہ نہیں لگا سکتا کہ اصل لوٹ مار کس نے کی؟۔ کبھی کبھار براہ راست عوام کی چیخیں نکلتی ہیں‘ تو ملک کے بڑے بھی حرکت میں آ جاتے ہیںاوراس طرح ہمدردیاں جتانے لگتے ہیں‘ جیسے انہیں تو کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔ وعدے ہوتے ہیں۔ہم ذمہ داروں کا سراغ لگا کر مجرموں کو قرارواقعی سزائیں دیں گے۔ عوام فکر نہ کریں‘ ان کے مسائل حل کرنے میں تاخیر نہیں کی جائے گی۔ اس کے بعد ایک کمیٹی بنا دی جاتی ہے۔ کافی دن تک کمیٹی کی رپورٹ ہی نہیں آتی اور جب کمیٹی رپورٹ تیار کر کے‘ دیتی ہے‘ تو اس وقت تک لوگ تھک تھکا کر مایوس ہو چکے ہوتے ہیںیا مسئلہ ختم ہو جاتا ہے یا عوام تکلیفوں کے عادی ہو جاتے ہیں۔ لیکن جس کی تلاش شروع کی جاتی ہے‘ وہ کبھی قابو نہیں آتا۔ کسی کو پتہ چلے تو قابو آئے؟ جب گائوں ہی ٹھگوں کا ہے‘ تو کون کس کو ڈھونڈے؟
آج کل پنجاب اور خیبرپختونخوا کے عوام پٹرول کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ آٹھ دن ہونے کو آئے‘ لوگ پٹرول کے ایک ایک لیٹر کے لئے قطاروں میں لگ رہے ہیں۔ چھ چھ سات سات گھنٹے انتظار کرتے ہیں۔ بیشتر کو پھر بھی مایوس جانا پڑتا ہے۔ پٹرول پمپ مالکان نے مسلسل تجربات کے بعد انڈرگرائونڈ مارکیٹ کا نظام کھڑا کر لیا ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ آپ کے ہاں کوئی بھی کاروبار ‘کسی نہ کسی سرکاری محکمے کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ اگر آپ اس محکمے کے مافیا سے رابطے میں آ جاتے ہیں‘ تو پھر آپ کے وارے نیارے ہیں۔ جی بھر کے نفع کمایئے۔ انہیں بھی کھلایئے اور خود بھی کھایئے۔ حکومت نے کافی عرصہ پہلے سے پٹرول کے نرخ مقرر کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لے رکھی ہے۔ ہر مرتبہ نئے نرخ مقرر ہونے کی خبریں پہلے سے آنے لگتی ہیں۔ قیمتوں میں کمی ہو یا اضافہ‘ ڈیلروں کے وارے نیارے ہیں۔ قیمتوں میں کمی ہونا ہو‘ تب بھی پمپوں پر فروخت روک دی جاتی ہے۔ اضافہ ہونا ہو‘ تب بھی فراہمی میں رکاوٹ پڑ جاتی ہے۔ صارفین اب اس کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ جیسے ہی پٹرول کی مہنگائی یا ارزانی کی خبر کے بعد‘ پٹرول دینے میں حیل و حجت شروع ہوتی ہے‘ عادی لوگ خود ہی کہہ دیتے ہیں کہ اچھا بھائی جو تھوڑا بہت کم زیادہ لینا ہے لے لو‘ پٹرول ڈال دو۔ یہ کاروبار تین چار دن تک چلتا ہے۔ اس دوران اربوں روپے کی نفع خوری ہو جاتی ہے اور اس کے بعد پٹرول نئی قیمت پرملنے لگتا ہے۔ اس پریکٹس میں ڈیلروں اور بلیک مارکیٹ کرنے والوں کے درمیان باقاعدہ ایک نظام معرض وجود میں آ چکا ہے۔ جیسے ہی پمپوں پر سپلائی رکتی ہے‘ کھلا تیل فروخت کرنے والوں کی خدمات دستیاب ہو جاتی ہیں اور عام صارفین کو پہلے سے خبر ہوتی ہے کہ پٹرول کہاں سے ملے گا؟ وہ دوچار روپے زیادہ دے کر‘ پٹرول خرید لیتے ہیں اور کام چلتا رہتا ہے‘ لیکن نفع خوروں نے اب ایک نیا راستہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ اتنے وسیع پیمانے پر غالباً یہ پہلا تجربہ ہے‘ لیکن جس طرح جھولیاں بھر کے چند روز میں دولت لوٹی گئی‘ اس سے مجھے شک پڑ گیا ہے کہ آئندہ ہر دوتین سال کے بعد‘ ایک ایسی ہی قلت مینوفیکچر کی جائے گی۔ اسی طرح چند روز تک اندھی لوٹ مچے گی۔ میڈیا پٹرول کی قلت کی خبریں چھاپ کر مفت کی تشہیر کر دیتا ہے۔ کاروبار مزیدچمکتا ہے اور اربوں روپے عوام کی جیب سے مزید نکل جاتے ہیں۔
لاہور کی حد تک میں جانتا ہوں کہ بہت سے پٹرول پمپ‘ حکمران خاندانوں کے لاڈلوں کی ملکیت ہیں۔ کچھ بیوروکریٹس نے بنا رکھے ہیں۔ کچھ تاجروں کے بھیس میں سیاست کرنے والوں نے۔ اگر آپ ان کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو جائیں‘ تو ہر قلت کے موقع پر نگرانی کر کے دیکھ لیجئے گا‘ ایسے پمپوں پر رات کے کسی بھی پہر‘ چپ چاپ ٹینکر آتے ہیں اور پٹرول دے کر نکل جاتے ہیں۔ ٹینکر کے جاتے ہی قناتیں لگا کر راستے بند کر دیئے جاتے ہیں اور پھر خاموشی سے چھوٹی بڑی پک اپ آنے لگتی ہیں۔ ان کے اندر سے خالی ڈرم نکال کر رکھ دیئے جاتے ہیں۔ پردوں کے پیچھے ہی انہیں بھر دیا جاتا ہے اور یہ تیل گلی گلی‘ سیل پوائنٹس پر بکنے کے لئے روانہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ دو نمبر کی مارکیٹ پورے شہر میں پھیلی ہے۔ میں نے اس مرتبہ کا ریٹ معلوم کیا‘ تو پتہ چلا کہ پمپ پرایک لٹر پٹرول کی قیمت 120 روپے وصول کی گئی اور ''پرچون فروشوں‘‘ نے 200 روپے سے لے کر 300 روپے فی لٹر تک وصول کئے گئے۔ بعض سنگدلوں نے تو لوگوں کی مجبوری دیکھ کر 400 روپے فی لٹر بھی وصول کئے۔ میںاور آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ گزشتہ 8دنوں کے دوران‘ عوام کی جیبوں سے کتنے ارب روپے نکال لئے گئے ہیں؟ پٹرول پمپ بند رہے‘ لیکن طاقت اور پیسے سے ضرورت کا تیل پٹرول پمپوں پر بھی ملتا رہا اور بلیک مارکیٹ میں تو ایک دن بھی کمی نہیں آئی۔ سوال یہ ہے کہ اگر پٹرول کی سپلائی واقعی بند تھی‘ تو بلیک مارکیٹ میں یہ کہاں سے آتا رہا؟ اگر بچا بچایا پٹرول بلیک میں بیچا گیا‘ تواسے دو تین دن میں ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ مگر وہ آج تک ختم ہونے میں نہیں آیا۔ جب نرخوں کی کمی بیشی پر پٹرول کی قلت ہوتی تھی‘ تو آپ کو لاہور کے راستوں پر منرل واٹر کی لال رنگ کے محلول سے بھری ہوئی بوتلیں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رکھے‘ نوجوان دکھائی دینے لگتے تھے۔ نہر کے کنارے یہ لوگ نمایاں نظر آتے۔ یہ اس بات کی نشانی ہوتی ہے کہ آپ بوتل والے کے پاس رک کر‘ مطلوبہ مقدار میں پٹرول کا سودا کریں اور بتائی ہوئی جگہ پر جا کر مال وصول کر لیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں آپ نے غور کیا ہو گا کہ نہرکنارے لال رنگ کی بوتلیں رکھ کر بیٹھنے والوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہو گیا۔ اسی طرح قریباً ہر بس سٹاپ کے آگے یہ بوتلیں رکھی ہوئی نظر آتی تھیںاور ضرورت مندوں کو پٹرول مل جاتا تھا۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میںاس منڈی کی توسیع دیکھ کر دوسرے صوبوں کے نفع خوروں کوبھی سمجھ آئی۔ اب سنا ہے کہ سندھ پٹرول پمپ والوں نے بھی قلت کا ڈرامہ شروع کر دیا ہے۔ دوچار دن تو وہ بھی لگائیں گے۔ بلوچستان میں ایران کا پٹرول پہلے سے بوتلوں میں دستیاب ہے۔ پنجاب میں قلت ابھی ختم نہیں ہوئی‘ تھوڑا بہت کاروبار مزید چند روز چلے گا۔ اس دوران آپ چاہیں‘ تو نہر اور سڑکوں کے کنارے رکھی ہوئی لال بوتلیں ‘آپ کو کہیں نہ کہیں ضرور نظر آ جائیں گی۔ قلت کے طویل دورانیے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ خفیہ مارکیٹ کا یہ نظام بڑے شہروں سے نکل کر دیہات تک پھیل چکا ہے۔ اب اسے روکنا کسی حکومت کے اختیار میں نہیں رہے گا۔ ہماری حکومتیں تو چرس‘ افیون‘ ہیروئن‘ ناجائزاسلحہ‘ غرض کسی بھی ممنوعہ چیز کی فروخت کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ پٹرول کی بلیک مارکیٹ تو انتہائی مختصر عرصے میں بھاری منافع دیتی ہے۔ اب اسے کون روکے گا؟
رہ گئے حکومت کے یہ بیانات کہ اس قلت کا ذمہ دار کون تھا تو فکر نہ کریں؟آپ جس بڑے آدمی کے پاس بھی جائیں گے‘ وہ آپ سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے آپ کی ''ہرممکن‘‘ مدد کے لئے تیار ہو جائے گا۔ ذمہ داروں کو گرفت میں لینے کے وعدے بھی کرے گا۔ آئندہ یہ خرابی دور کرنے کے طریقے بھی بتائے گا‘ لیکن اس قلت اور چور بازاری کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کا پتہ آپ کو نہیں چل پائے گا۔ چند سرکاری ملازم بھینٹ چڑھائے جا چکے ہیں۔ چند مزید چڑھا دیئے جائیں گے۔ ابھی تک تو پاور کمپنیوں کے ساتھ لین دین میں معقول آمدنی ہو جاتی تھی‘ مگر گزشتہ چند روز کی بھاری آمدنی دیکھ کر تو سب کی آنکھیں چندھیا گئی ہوں گی۔ اب تمام اہم لوگ سر جوڑ کے بیٹھیں گے اور تجارت کے اس نئے میدان کے قواعد و ضوابط طے کر کے‘ درجہ بدرجہ حصہ پتی کی شرح طے کی جائے گی اور آئندہ ہر قلت کے موقع پر بلیک کا مال آسانی سے دستیاب ہونے لگے گا۔پاکستان کی اس خوبی کا آپ کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ یہاں تمام ممنوعہ لین دین اور کاروبار کرنے کے دونمبر راستے ہر شعبے میں موجود ہیں۔ ذرا سی تلاش کی ضرورت ہے‘ آپ کی ہر ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ ٹھگوں کے گائوں میں رہنے والے سارے ٹھگ ‘ بڑے بااخلاق اور مددگار ہوتے ہیں۔