"NNC" (space) message & send to 7575

ہمارے رہبر‘ ہمارے لیڈر

خدا کا شکر ہے‘ ہم نے کرپشن کے تاریک ماضی کو دفن کر دیا۔ اب یہاں ووٹوں کی خرید و فروخت نہیں ہو گی۔ وزیر اعظم جناب نواز شریف نے اپنی زندگی کا اصول بتاتے ہوئے کہا کہ ''میں پیسے دے کر ووٹ خریدنا‘ کاروبار سمجھتا ہوں۔ سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ خریدنا‘ ضمیر خریدنے والی بات ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ وہ پیسے دے کر ووٹ خریدنے کو مکروہ کاروبار سمجھتے ہیں۔ ہم سب کو مل کر اس ضمیر فروشی کو ختم کرنا ہے۔ پیسے دے کر ایوان میں آنا‘ افسوسناک ہے۔ ووٹ خریدنے کا سلسلہ بند کر نا ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر‘ جناب نواز شریف نے اپنی سیاسی زندگی میں ووٹ فروشی کی ہمیشہ مذمت کی۔ اسے ''نفرت کی نظر‘‘ سے دیکھا۔ یہ ''نفرت کی نظر‘‘ انہوں نے سیف الرحمن اور اپنے دیگر کئی مصاحبوں کے حوالے کر رکھی تھی۔ یہ لوگ اراکین اسمبلی کو جمع کر کے چھانگا مانگا لے جاتے۔ ان پر ''نفرت کی نظر‘‘ ڈالتے تھے اور بڑے بڑے مخالفین کو میاں صاحب کے حق میں ہموار کر کے ووٹ دینے پر رضامند کر لیتے تھے۔ جب ووٹروں کے ضمیر بیدار ہو جاتے اور ''نفرت کی نظر‘‘ ان کے اندر موجود حرص و ہوس کو جلا کر راکھ کر دیتی تو اس کے بعد انہیں میاں صاحب کی خدمت میں پیش کیا جاتا۔ مخالف جماعتوں کے ٹکٹوں پر منتخب ہو کر آنے والے‘ جب اپنے ماضی سے تائب ہو کر‘ میاں صاحب کی مسلم لیگ کو ووٹ دینے پر تیار ہو جاتے تو پھر ان کی ''حفاظت‘‘ کا انتظام‘ میاں صاحب کے جانثار کارکنوں کے سپرد ہو جاتا۔ ان کے چاروں طرف پہرے لگا دیئے جاتے۔ ٹیلی فون بند کر دیئے جاتے۔ عیش و آرام کے لئے وہ جو کچھ بھی طلب کرتے‘ انہیں وہیں چھانگا مانگا میں پہنچا دیا جاتا۔ پاکستانی سیاست کو صاف و شفاف بنانے میں میاں صاحب نے جو شاندار کردار ادا کیا ہے‘ ہماری سیاسی تاریخ میں اسے ہمیشہ سنہرے لفظوں میں لکھا جائے گا۔
میاں صاحب کی اصول پسندی کو پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ قدر و احترام کی نظر سے دیکھا گیا۔ بے نظیر بھٹو‘ بحالی جمہوریت کے بعد‘ مختلف جماعتوں کو ساتھ ملا کر‘ اپنی حکومت بنانے میں کامیاب تو ہو گئیں‘ لیکن میاں صاحب کو یہ بے اصولی ہرگز پسند نہ آئی اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف قرارداد عدم اعتماد لائیں گے۔ قرارداد پیش کرنے کے لئے انہوں نے اراکین قومی اسمبلی کی حمایت حاصل کرنا شروع کر دی۔ یہ پہلا موقع تھا جب براستہ شادی قومی سیاست میں وارد ہونے والے مفاہمتی سیاست دان‘ جناب زرداری نے گھریلو حکومت بچانے کی ذمہ داری اٹھائی۔ انہوں نے مختلف جماعتوں کے ممبران قومی اسمبلی کو قائل کرنا شروع کیا کہ محترمہ بے نظیر کی وزارت عظمیٰ کو بچانا ہی پاکستانی جمہوریت کی خدمت ہے۔ زرداری صاحب کے ذاتی وفاداروں کے چار پانچ گاڑیوں پر مشتمل‘ چھوٹے چھوٹے قافلے‘ رات ڈھلتے ہی اسلام آباد کی سڑکوں پر رواں دواں ہو جاتے۔ اس زمانے میں لین دین کی بات نہیں ہوتی تھی۔ نہ پیسے کی بات ہوتی اور نہ نوٹ گنے جاتے۔ صرف ایک دو تین چار کی طرز پر‘ بریف کیسوں کا ذکر ضرور آتا۔ روپے پیسے کا ہرگز لین دین نہیں ہوتا تھا۔ صرف اِدھر کے بریف کیس اُدھر ہو جاتے۔ بی بی‘ مسلم
لیگ کی بھرپور مخالفانہ مہم سے انتہائی پریشان تھیں۔ وہ سبز چادر اوڑھ کر اپنی والدہ محترمہ کے ہمراہ مختلف درگاہوں اور مزاروں پر دعائیں کرتیں۔ ان کے شوہر‘ آصف زرداری کے بریف کیسوں میں ''برکت‘‘ آ جاتی اور جس رکن اسمبلی کا ضمیر بیدار ہوتا‘ اسے فوری طور پر سوات منتقل کر دیا جاتا کیونکہ اس صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ دوسری طرف میاں صاحب کے کارندے‘ جب جیالوں کا ضمیر بیدار کرتے‘ تو انہیں فوری طور پر مری منتقل کر دیا جاتا کیونکہ پنجاب میں میاں صاحب کی حکومت تھی۔ ضمیر فروشی کے خلاف مذکورہ دونوں‘ قومی لیڈروں نے جتنی انتھک جدوجہد کی‘ وہ آج بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی دور میں عوام نے کئی سیاسی معجزے رونما ہوتے ہوئے دیکھے۔ گلزار خان صاحب نے نہ تو کسی سیاسی پارٹی سے ٹکٹ مانگا اور نہ کسی کے ووٹ کا احسان لیا۔ ووٹروں کے دلوں میں ''دیانت داری‘‘ کی جُوت جگائی اور اس کی روشنی میں سادہ بیلٹ پیپر لے کر‘ محفوظ کر لئے۔ یہ سارے ووٹ جو ہرگز خریدے ہوئے نہیں ہوتے تھے‘ ایک قابل اعتماد رکن اسمبلی کی جیب میں ڈال دیئے جاتے اور جب اس کا نمبر آتا‘ وہ قومی مفاد کی بنیاد پر جمع شدہ بیلٹ پیپر کو‘ بوتھ کے اندر جا کر‘ بیلٹ باکس میں ڈال دیتے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب موبائل ٹیلی فون نہ تو جیب میں رکھا جا سکتا تھا اور نہ اس سے تصویر اتاری جا سکتی تھی۔ ڈیڑھ دو کلو کا ایک ٹیلی فون سیٹ ہوتا‘ جسے بریف کیس کی طرح ہاتھ میں لے کر‘ چلنا پڑتا تھا۔ جب پل بھر میں فوٹو اتار کر محفوظ کرنے والے موبائل فون آ گئے تو ووٹر اپنی ''دیانت دار ی‘‘ کا ثبوت دینے کے لئے‘ پولنگ بوتھ کے اندر ہی اپنے نشان زدہ بیلٹ پیپر کی تصویر اتار کے ساتھ لے آتے اور دیانت داری کا جو صلہ پہلے سے کسی مشترکہ دوست کے پاس محفوظ ہوتا‘ اسے جذبہ خیر سگالی کے تحت ایمانداری سے ''حقدار‘‘ اپنے پاس رکھ لیتا۔ یہ مشق ہونے سے پہلے‘ جادو کا بریف کیس بطور امانت کسی تیسرے فریق کے پاس موجود ہوتا‘ ووٹ دینے والا رکن‘ اسمبلی سے باہر آ کر جزاک اللہ کہہ کے ''صلہ شہید‘‘ وصول کر لیتا۔ 1993ء کے انتخابی نتائج کے بعد‘ پنجاب کی سیاست میں ''خلوص و دیانت‘‘ کا ایک نیا پیکر ابھر کے سامنے آیا۔ انتخابی نتائج میں عوام نے دونوں بڑی حریف پارٹیوں میں سے کسی کو بھی فیصلہ کن اکثریت نہ دی۔ منظور احمد وٹو نے ''جذبہ ایثار‘‘ کے تحت‘ 18 یا 19 اراکین صوبائی اسمبلی کا ایک گلدستہ بنا کر‘ میز پر رکھ دیا اور دونوں جماعتوں کو دعوت دی کہ ان میں سے جو بھی اس گلدستے کے بدلے‘ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا بوجھ‘ ان کے نازک کندھوں پر رکھنے کو تیار ہو جائے‘ وہ اس کی حمایت کریں گے۔ بی بی شہید‘ نے اس سیاسی قربانی کی پیش کش کو خلوصِ دل سے قبول کرتے ہوئے‘ وزارت اعلیٰ کا منصب ان کے سپرد
کر دیا۔ اب اتنا ''ایثار‘‘ کون کرتا ہے؟ منظور وٹو کو 19 حامیوں کے ساتھ‘ پورے پنجاب کی وزارت اعلیٰ بطور تحفہ دے دی گئی۔ اپنے وقت کے وہ دونوں عظیم سیاست دان یعنی بی بی شہید اور نواز شریف مل کر مخلوط حکومت بنانے کی بجائے‘ منظور وٹو کی حکومت قبول کرنے پر تیار ہو گئے اور پھر وٹو صاحب نے دونوں بڑی پارٹیوں کو صرف انیس ووٹوں کے بل بوتے پر‘ تگنی کا ناچ نچایا اور یہ دونوں بڑی جماعتیں‘ ایک دوسرے کے ناچ کی فنی نزاکتوں سے لطف اندوز ہوتی رہیں۔ ایسا نہیں کہ میاں منظور وٹو‘ نواز شریف کے اصولی مخالف تھے۔ ان کی حمایت یا مخالفت ''وصولی‘‘ پر مبنی ہوتی ہے۔ ''وصولی‘‘ میں کیا رکھا ہے؟ ایک وقت آیا جب پیپلز پارٹی نے میاں منظور وٹو کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا تو وٹو صاحب نے نواز شریف کے گھر جا کر‘ انہیں اپنی مخلصانہ حمایت پیش کر دی۔ بدلے میں انہوں نے کچھ نہیں مانگا۔ صرف یہ کہا کہ اپنے حامیوں کو ساتھ لے کر میرے گھر آ جائیں۔ وٹو صاحب اپنے تمام حمایتیوں کو ساتھ لے کر ماڈل ٹائون گئے۔ گنتی کی گئی تو وٹو صاحب کے ووٹ ایسے غائب ہو گئے‘ جیسے کسی تنخواہ دار کی جیب یکم تاریخ کو گھر پہنچنے سے پہلے کٹ جائے۔ وٹو صاحب کی جیب بھی ماڈل ٹائون جاتے جاتے کٹ چکی تھی۔
بہت سے دوسرے اصول پسند لیڈروں کی مثالیں بھی یاد آ رہی ہیں لیکن ایک کالم میں اس کی گنجائش نہیں ہوا کرتی۔ ضمیر کی بیداری کے ان دنوں میں‘ ایم کیو ایم کے فاروق ستار بھی نئی آئینی ترمیم کے حق میں سرگرم ہیں۔ انہیں اپنی پارٹی سے وفاداری کا امتحان نہیں دینا پڑتا۔ خود پارٹی فیصلہ کر لیتی ہے کہ حکومت سازی میں کس کا ساتھ دینا ہے؟ یہ کام انتہائی خلوص اور دیانت داری کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ پارٹی کے منتخب اراکین‘ صوبہ سندھ اور وفاق میں وزارتوں پر قناعت کر کے‘ اللہ تعالیٰ سے اپنی نیکیوں کا صلہ پا لیتے ہیں۔ اس پس منظر میں جب میں نے میاں نواز شریف صاحب کے یہ الفاظ پڑھے کہ ''وہ پیسے دے کر‘ ووٹ خریدنے کو مکروہ کاروبار سمجھتے ہیں‘‘ تو اس کی شانِ کبریائی دیکھ کر‘ سربسجود ہونے کو دل چاہتا ہے۔ خدا جب چاہتا ہے دلوں کو بدل ڈالتا ہے اور جب دل بدلتے ہیں تو دیانت و شرافت کا اظہار کرنے والے الفاظ بھی بدل جاتے ہیں۔ آصف زرداری اور نواز شریف نے ضمیر فروشی کا دھندہ بند کرانے کے لئے‘ دیانت داری سے ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی جو نئی مثال قائم کی ہے‘ وہ کسی معجزے سے کم نہیں۔ یہ (ن) لیگ کے طویل سیاسی جدوجہد کرنے والے کارکن‘ جناب ظفر علی شاہ کی تازہ مثال سے واضح ہوتا ہے۔ زرداری صاحب نے پنجاب سے سینیٹ کی سیٹ لینے کے لئے‘ میاں صاحب سے کچھ ووٹوں کا تحفہ مانگا اور جواب میں میاں صاحب نے بھی اپنے پارٹی کے لئے تحفہ طلب کر لیا۔ دونوں نے اپنے اپنے ''خلوص‘‘ کا ثبوت دینے کے لئے‘ سینیٹ کی ایک ایک سیٹ بدلے میں دینے کا فیصلہ کر لیا۔ میاں صاحب نے ظفر علی شاہ کے کاغذات نامزدگی داخل کرا دیئے اور زرداری صاحب نے اپنے وفادار کو امیدوار بنانے کا فیصلہ کیا۔ وفاداری بشرط استواری اسے کہتے ہیں کہ ظفر علی شاہ کو اپنے کاغذات نامزدگی سندھ سے واپس لینا پڑے اور سندھ سے جناب زرداری کے جو امیدوار کاغذات نامزدگی تیار کر رہے تھے‘ انہیں پہلے ہی پتہ چل گیا کہ ''سیاسی محبت‘‘ کتنی دلکش ہوتی ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں