آج آپ تاریخ کا ایک دلچسپ اور تکلیف دہ باب پڑھیں گے۔ بھٹو صاحب کا دور تھا۔ اصول کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف کا منصب ‘جنرل مجید ملک کو ملنا تھا۔ ہماری بدنصیبی کہ وہ رہ گئے اور ضیاالحق ہمارے پلے پڑ گیا۔ یہ کیسے ہوا؟ جنرل مجید ملک کی تازہ کتاب ''ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘ میں ‘انہی کے الفاظ میں پڑھیے۔ باب ذرا طویل ہو گیا۔ دوسری قسط کل ملاحظہ فرمایئے۔
''1975ء میں مجھے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر پشاور میں ایک نئی کور کی بنیاد رکھنے پر مامور کیا گیا‘ جس کو 11 کور کا نام دیا گیا۔ نئی کور کو وجود میں ڈھالنا‘ یونٹوں کو ایک نئی فارمیشن میں جکڑنا بڑا مشکل کام تھا۔ میرے علاوہ میرے چند ایک سٹاف ممبران نے صحیح معنوں میں رات دن کام کر کے یہ نئی کور تیار کی۔ اس کور پر ملک کی مغربی سرحد ‘یعنی ڈیورنڈ لائن کے دفاع کی ذمہ داری عائد تھی۔ ویسے تو ایک کور کی نئی فارمیشن تیار کرنے اور مختلف یونٹوں کو ایک مربوط فارمیشن میں ڈھالنے کے بہت سے پہلو ہیں۔ لیکن میں نے اس نئی فارمیشن کو تیار کرنے کے دوران دو باتوں پر خصوصی توجہ دی‘ جن میں افغانستان کے ساتھ سارے بارڈر کا معائنہ کرنا اور دفاعی اور دوسرے انتظامات کا صحیح جائزہ لے کر ان کے مطابق انتظام و انصرام کرنا شامل تھا۔
7ڈویژن (جس کا پہلے ذکر کیا گیا ہے) کو اس کور کا حصہ بنایا گیا اور ساتھ ہی ایک نئے ڈویژن‘ 9 ڈویژن کو کوہاٹ میں تیار کر کے‘ اس کور میں شامل کیا گیا۔ توپ خانے‘ انجینئرنگ اور دوسری مختلف یونٹوں وغیرہ کو نئے سرے سے ترتیب دینے میں میرا بہت سا وقت صرف ہوا مگر بفضل خدا ایک سال سے کم عرصہ میں ہم نے 11 کور کو مؤثر اور لڑائی کے قابل فارمیشن بنا دیا۔
1976ء میں چونکہ آرمی چیف ٹکا خان کی سروس کا عرصہ ختم ہونے کو تھا‘ اس لئے قدرتی طور پر 1975ء کے آخر میں چھوٹی موٹی چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ آئندہ آرمی چیف کون بنے گا؟ اسی عرصے میں ایک دن ذوالفقار علی بھٹو نے مجھے غلام مصطفیٰ کھر (اس وقت گورنر پنجاب) کے سامنے بلایا اور کہا کہ میں آئندہ آرمی کی کمان آپ کے حوالے کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت آرمی میں سات لیفٹیننٹ جنرل تھے‘ بلحاظ سینیارٹی ان کے نام یہ ہیں۔
-1 لیفٹیننٹ جنرل محمد شریف۔-2لیفٹیننٹ جنرل محمد اکبر خان۔-3لیفٹیننٹ جنرل آفتاب احمد خان۔-4لیفٹیننٹ جنرل عظمت بخش اعوان۔-5لیفٹیننٹ جنرل آغا ابراہیم اکرم۔-6لیفٹیننٹ جنرل عبدالمجید ملک۔-7لیفٹیننٹ جنرل محمد ضیاالحق۔
میں ان جرنیلوں میں بلحاظ سینیارٹی چھٹے نمبر پر تھا اور ضیاالحق ساتویں نمبر پر ۔
جب بھٹو نے کھر کے سامنے مجھے چیف آف آرمی سٹاف کی ذمہ داری دینے کا عندیہ دیا تو میں نے کہا کہ مجھے ایک انٹرویو کا وقت دیں۔ بھٹو نے مجھے دوسرے دن بلایا۔ یہ ملاقات خفیہ طور پر منعقد ہوئی۔ میں نے بھٹو سے کہا کہ مجھ سے پانچ جنرل سینئر ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک پیشہ ورانہ قابلیت کا حامل ہے۔ ہر ایک کی نوکری کی اوسط 35 سال بنتی ہے۔ اگر مجھے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر ترقی دی جاتی ہے تو ان پانچوں جرنیلوں کے 175 سالوں کا عسکری تجربہ ضائع ہو جائے گا۔ اس لئے میری رائے یہ ہے کہ سب سے سینئر جرنیل جنرل محمد شریف کو جوائنٹ چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ دیا جائے اور جنرل محمد اکبر خان کو چیف آف آرمی سٹاف بنایا جائے۔ مگر بھٹو نے کہا کہ میں یہ فیصلہ آرمی کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے پاک آرمی اور ملک کے بہتر مفاد میں کر رہا ہوں۔ جو میں جانتا ہوں وہ آپ نہیں جانتے۔
جنرل محمد ضیاالحق جو سات جرنیلوں میں سب سے جونیئر تھے‘ ان کا بھٹو سے پہلا رابطہ اس وقت ہوا جب یحییٰ حکومت کی برطرفی کے بعد آرمی کے ینگ آفیسرز میں بہت ہی سخت ردعمل کی فضا موجود تھی اور ان میں سے اکثریت آرمی کی اعلیٰ قیادت سے ناخوش تھی۔ ینگ آفیسرز سمجھتے تھے کہ 1971ء کی ہزیمت اور شکست جو آرمی کو ہوئی ہے اور ملک دو لخت ہوا ہے‘ اس میں حکومت اور آرمی کے سینئر آفیسرز ذمہ دار تھے۔ ان ینگ آفیسرز میں ان خیالات کے باعث آہستہ آہستہ ایک بغاوتی قسم کا احساس پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا اور کچھ عرصہ بعد کچھ ینگ آرمی آفیسرز نے اس وقت کی آرمی اور حکومت کے خلاف بغاوت کر کے خود کمان سنبھالنا چاہی۔ میجر فاروق آدم خان جو ایک ریٹائرڈ جرنیل آدم خان کے بیٹے تھے‘ اس وقت بغاوت کے محرک اور لیڈر تھے اور ان کے علاوہ دیگر آفیسرز بشمول میرے بھتیجے میجر سلیم اصغر بھی شامل تھے۔ اسی بغاوت میں معروف عسکری شخصیت جنرل اختر حسین ملک کے صاحبزادے ‘کیپٹن سعید اختر بھی پیش پیش تھے۔ ان سب نے جی ایچ کیو کو ٹیک اوور کرنے کا پورا پلان بنایا اور پلان کو خفیہ رکھنے کا حلف دیا۔ جب منصوبے پر عملدرآمد کا وقت آن پہنچا تو ان میں سے سگنلز کور کے ایک آفیسر میجر رفیع نے یہ اطلاع ہائی کمان کو دے دی‘ جس کے نتیجے میں ان سب آفیسرز کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کیس کو ''اٹک میونٹی کیس‘‘ کہتے ہیں۔ ان سب آفیسرز کا قلعہ اٹک میں ٹرائل ہونا طے پایا۔ اس کورٹ مارشل کے ٹرائل کے سربراہ کے طور پر ضیاالحق کو منتخب کیا گیا اور ضیاالحق کو اس ٹرائل کے دوران پرائم منسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ پہلی مرتبہ رابطہ کرنے کا موقع ملا۔ اس کورٹ مارشل کی پراگریس میں بھٹو کی ذاتی دلچسپی بھی تھی اور کہا جاتا ہے کہ ضیاالحق ہر شام کو کورٹ مارشل کی پروسیڈنگ کی اطلاع بھٹو کو دیتا تھا تاکہ اس کا اعتماد اور خوشنودی حاصل کر سکے۔
اس کورٹ مارشل میں گوجرانوالہ چھائونی کے وہ آفیسر بھی شامل تھے جنہوں نے 1971ء کی جنگ کے بعد جنرل یحییٰ اور جنرل حمید کے خلاف مہم چلائی تھی۔ جن میں بریگیڈیئر ایف بی علی اور ان کے ساتھی نمایاں تھے۔ ان سب آرمی آفیسرز کو مختلف سزائیں ہوئیں۔ ضیاالحق نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھا کر بھٹو سے تعلقات کے کئی زینے طے کر لئے اور ان کی نظروں میں اپنی واضح پہچان کرانے میں کامیاب ہو گئے۔
کچھ عرصہ بعد ضیاالحق کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی ملی اور اس کو ملتان کور (جس میں فرسٹ آرمڈ ڈویژن بھی تھا) کی کمان ملی۔ اس سلسلے میں ایک اور واقعہ بھی مشہور ہے کہ جب بھٹو نے ملتان وزٹ کرنا تھا تو ضیاالحق نے حکم جاری کیا کہ ہماری کور کے تمام آفیسرز سڑک پر لائن میں کھڑے ہو کر بھٹو کا استقبال کریں گے۔ ضیاالحق اور باقی تمام آفیسرز نے سڑک پر کھڑے ہو کر بھٹو کا استقبال کیا۔ یہ بات بھی فوجی روایات کے بالکل برعکس تھی۔
بھٹو کی قربت حاصل کرنے کے لئے ضیاالحق نے ایک اور اہم فیصلہ کیا کہ بھٹو کو آرمڈ کور کا اعزازی کرنل انچیف بنایا جائے۔ یاد رہے کہ اعزازی کرنل انچیف اسی کور کا کوئی سینئر ریٹائرڈ آفیسر بنایا جاتا ہے جس کی تقرری پر باقاعدہ ایک تقریب منعقد ہوتی ہے اور اعزازی کرنل انچیف کو یونیفارم پہنا کر اس کو کرنل کے رینکس پہنائے جاتے ہیں۔ بھٹو کو بطور اعزازی کرنل انچیف بنایا جانا آرمی کی تاریخ کا پہلا اور آخری موقع تھا کہ جب ایک سویلین کو آرمڈ کور کا کرنل انچیف بنایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب "If I Am Assassinated" کے صفحہ 134 پر اس واقعے کا یوں ذکر کیا ہے:
''اس نے مجھے آرمڈ کور کے کرنل انچیف بننے کی تجویز بھی پیش کی۔ کھاریاں میں مجھے یہ رینک دینے کی تمام تقریب تحسینی تھی۔ بالفرض اگر میں آرمی کا دشمن تھا اور اس کو تباہ کرنے کا ذمہ دار تھا تو وہ اسلام کا سپاہی میری ان سرگرمیوں سے کیسے لاعلم رہ سکتا تھا؟ اگر اسے یہ علم تھا کہ میں آرمی کو تباہ کر رہا ہوں تو وہ مرد مومن سپریم کمانڈر کی حیثیت سے بار بار اور اتنے والہانہ انداز سے میری تعریف کیوں کرتا؟‘‘
بھٹو کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ضیاالحق کے بارے میں ایک اور واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے جس کا تذکرہ بیگم نصرت بھٹو نے سپریم کورٹ میں بھٹو کی سزائے موت کی معافی کے لئے جمع کرائے گئے حلف نامے میں بھی کیا ہے جس میں یہ تحریر کیا گیا کہ ضیاالحق نے بھٹو صاحب کو اپنی وفاداری کا حلف دیا تھا۔ ضیاالحق کی ان سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاک آرمی میں نمایاں پوزیشن بنانے میں کوشاں رہے اور کئی ایسے اقدامات کئے جو آرمی کی روایات کے خلاف تھے مگر ان کا مقصد واضح طور پر وزیراعظم بھٹو کو خوش کرنا تھا۔(جاری)