"NNC" (space) message & send to 7575

سندھ کے پیچیدہ مسائل

یہ درست ہے کہ ایم کیو ایم نسلی شناخت اور لسانی و تہذیبی فرق کی بنیاد پر بہت عرصے تک متعصبانہ سلوک کا نشانہ بنی رہی۔ ایم کیو ایم کا وجود بھی اسی کے ردعمل میں سامنے آیا۔ مگر اب ایم کیو ایم کے پرچم تلے مہاجر کمیونٹی نے منظم ہو کراپنی طاقت ثابت کر دی ہے؛ تاہم جس ظلم و زیادتی کے نتیجے میں ایم کیو ایم نے اپنی طاقت کو منظم اور اس کا اظہار کیا‘ کم از کم میرے علم کے مطابق اس کا جواز ختم ہو چکا ہے۔ ایم کیو ایم کی طاقت نے ان کمیونٹیز کے طرزعمل کو پوری طرح سے بدل دیا ہے‘ جس سے مہاجروں کو شکایات تھیں۔ مناسب یہ ہوتا کہ ایم کیو ایم ‘ مہاجروں کی کمزوری کا احساس ختم کر کے‘ باقی تمام کمیونٹیز کے ساتھ برابر کی سطح پر تعلقات استوار کرتی اور دنیابھر میں جس طرح نقل وطن کر کے آنے والی کمیونٹیز‘ وقت کے ساتھ ساتھ گھل مل کے رہنے لگتی ہیں‘ سندھ میں اسی طرح مہاجرین بھی مقامی آبادی کا حصہ بن جاتے۔ مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔ ایم کیو ایم نے سماجی اور سیاسی طاقت حاصل کر کے‘ اس کا بدلہ لینا شروع کر دیا۔ جن وجوہ کی بنا پر مہاجروں میں احساس محرومی پیدا ہوا تھا‘ ان کے خاتمے کے بعد ردعمل کے رویے بدل جاتے۔ افسوس! ایسا نہ ہوا۔وہ لسانی اور تہذیبی فرق جو تاریخی سانحے کا نتیجہ تھا‘ سندھ کے معاشرے میں حقیقت بن کر شامل ہو گیا۔ اب وہ فرق سندھ کے اندر ایک تضاد کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ دوبارہ 50ء اور 60ء کے عشرے جیسی ہم آہنگی اس معاشرے میں شاید ہی کبھی آئے! موجودہ نسل باہمی نفرت اور عدم اعتمادی کے ماحول میںپروان چڑھی۔ مہاجر اور غیر مہاجر کے فرق نے دونوں کو مستقل مقابلے اور محاذآرائی کے راستے پر ڈال دیا۔
ایم کیو ایم کی قیادت نے بہت سوچ سمجھ کر‘ قومی یکجہتی کے جذبے کو فروغ دینے کی خاطر مہاجرقومی موومنٹ کا نام بدل کر‘ متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا‘ لیکن یہ محض نام کی تبدیلی تھی‘ قلب و ذہن کی نہیں۔ سماجی رشتوں کا تضاد جو عارضی تھا‘ وہ وقت کے ساتھ ساتھ معاشرتی روایات کا حصہ بن گیا۔ میں اکثر یہ سوچ کر پریشان ہو جاتا ہوں کہ یہ تضاد سندھ کو کہاں لے جائے گا؟ ایک علاج تو الطاف حسین تجویز کرتے ہیں کہ سندھ کو دو صوبوں میں تقسیم کر دیا جائے‘ لیکن میرا نہیں خیال کہ یہ تقسیم ‘مہاجر اور غیر مہاجر کے تضاد کو حل کر پائے گی۔ جتنی باہمی عدم اعتمادی آج پیدا ہو چکی ہے اگر اس کی موجودگی میں سندھ تقسیم ہوا‘ تو ایک بار پھر 1947ء کے واقعات دہرائے جا سکتے ہیں۔ جہاں مہاجر زیادہ ہیں‘ وہاں سے غیرمہاجروں کو نکالا جائے گا اور جہاں غیر مہاجر زیادہ ہیں‘ وہاں سے مہاجروں کو نکلنا پڑے گا۔ یہ ایسا خوفناک منظر ہے‘ جس کا تصور کر کے ہی دل لرز اٹھتا ہے۔
آج اگر پاکستانی سندھ کی مختصر تاریخ کو دیکھا جائے‘ تومہاجر اور غیرمہاجر دونوں نے سندھ کے نئے تہذیبی ڈھانچے کو تشکیل دینے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اندرون سندھ‘ سندھی اور پنجابی آباد کاروں میں شدید تضاد پایا جاتا تھا‘ مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں کمی آ رہی ہے۔ ایک بات تو وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مہاجر باقی سب کمیونٹیز کو خود سے علیحدہ تصور کرتے ہیں۔ سندھ میں سب سے پہلے بلوچوں نے آ کر رہنا شروع کیا اور دونوں پوری طرح گھل مل گئے۔ پنجابی بھی قیام پاکستان سے بہت پہلے سندھ میں زیرکاشت آنے والی نئی زمینوں کو آباد کرنے کے لئے بسنے لگے تھے۔ اندرون سندھ رہنے والے پنجابیوں کی بڑی تعداد اسی دور میں آئی تھی۔ افغانستان کی جنگ کے بعد پختونوں کی بہت بڑی تعداد سندھ میں آ گئی۔ ابھی تمام پختونوں کے خاندان منتقل نہیں ہوئے‘ مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے روزگار اور رہائش کے انتظامات ہوتے ہی سندھ میں منتقل ہو رہے ہیں۔ انہیں بھی ایک دن اپنے نئے وطن میں نئے سماجی رشتوں کے ساتھ رہنا ہو گا۔ پختون اپنے نسلی رشتوں سے بہت کم علیحدہ ہوتے ہیں‘ جبکہ پنجابیوں اور مہاجروں میں باہم گھل مل جانے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ آپ کو بے شمار ایسے پنجابی اور مہاجر ملیں گے‘ جو ایک دوسرے کے خاندانوں میں رشتے داریاں قائم کر چکے ہیں۔ فی الحال پختونوں کو اس طرح گھلنے ملنے کا موقع نہیں ملا۔ لسانی‘ تہذیبی اور طبقاتی فرق انہیں دوسری کمیونٹیز کا حصہ نہیں بننے دے رہا‘ لیکن مجھے امید ہے کہ وہ بھی پرانے رشتے کے کڑے بندھن ڈھیلے کر کے‘ نئے رہائشی تقاضے پورے کرنے لگیں گے۔ اس ہلکے سے جائزے کا مطلب یہ تھا کہ کراچی جیسا کاسموپولیٹن شہر ‘ آبادی کی نئی نئی لہروں سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ میں نے ابھی صرف پاکستانی کمیونٹیز کا ذکر کیا ہے۔ مگر کراچی میں کئی دوسری نسلیں اور تہذیبی کمیونٹیز بڑی تعداد میں موجود ہیں اور اس کا حصہ بن چکی ہیں۔ بنگالی‘ برمی‘ بروہی‘ آغا خانی‘ غرض ایسے ایسے کئی چھوٹے گروپ بھی اس صوبے کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں سندھ کو انتظامی یونٹوں میں تو تقسیم کیا جا سکتا ہے لیکن مقامی اور مہاجر کی بنیاد پر صوبے کو تقسیم کرنے کا مطلب‘ امن سے طویل مدتی محرومی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔
سندھ میں مقامی اور مہاجر کی بنیاد پر مفادات کا ٹکرائو پیدا کر کے‘ سندھی سیاستدانوں نے فساد کی جڑ لگائی تھی۔ یہ جڑ کوٹہ سسٹم کی شکل میں لگی۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ایک پسماندہ کمیونٹی‘ ترقی یافتہ کمیونٹی کے روزگار چھین کر دوسروں کو دینے لگے۔ اس طرح کے کوٹہ سسٹم بہت محدود ہوتے ہیں۔ جیسے دو یا چار فیصد۔ اگر کوٹہ سسٹم بلاامتیاز صوبائی بنیادوں پر رائج کر دیا جائے‘ تو یہ میرٹ کا قتل عام ہو گا۔ جیسا کہ کوٹہ سسٹم کے نتیجے میں ہوا۔ اس سے نہ صرف اہل اور تعلیم یافتہ طبقوں میں احساس محرومی پیدا ہوا بلکہ سرکاری محکموں میں کوٹہ سسٹم سے فائدہ اٹھا کر‘ نااہل لوگ بھی ملازمتوں میں آ گئے۔ اس کے نتیجے میں کارکردگی کا معیار جتنا پست ہوا‘ وہ ایک عبرتناک مثال ہے۔ کوئی بھی معاشرہ علم و ہنر کی قیمت ادا کر کے روزگار مہیا نہیں کر سکتا۔ اس کے برعکس نااہل لوگوں کی بھرتیاں عمومی کارکردگی کا بیڑا غرق کر دیتی ہیں اور ان کے نتیجے میں ترقیاتی عمل جس طرح تباہ و برباد ہوتا ہے‘ اس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے سے رک جاتے ہیں۔ ہمارے بہت سے ادارے کوٹہ سسٹم کے نتیجے میں تباہی کا شکار ہوئے۔ یا تو حکومت انہیں اضافی رقوم دے کر خسارے پورے کرتی ہے یا پرائیویٹائز کر کے اونے پونے بیچنے لگتی ہے۔ یہ ہے وہ مسئلہ جس پر ایم کیو ایم کو خصوصی توجہ دینا چاہیے۔ صوبے نہ مانگیں‘ علم و اہلیت کی فوقیت پر زور دیں۔
کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 246 میں ضمنی انتخاب سے سب نے کچھ نہ کچھ حاصل کیا۔
جماعت اسلامی تو مستقل اس کیفیت کا شکار ہے'' کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن‘ کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی۔‘‘ جماعت اسلامی انتخابات کے لئے بنائی ہی نہیں گئی تھی۔ اس کے کارکنوں کی بنیادی تربیت میں رائے عامہ کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ یہ جب بھی انتخابی عمل میں اتری یا تو کسی کا سہارا لیا یا بری طرح سے شکست کھائی۔ طویل عرصے سے انتخابی عمل میں شریک ہو کر جماعت کو ہمیشہ ایک ہی سبق ملا کہ اسے عوامی ووٹ نہیں مل سکتے۔ مگر وہ مختلف آمروں کی سرپرستی میں‘ اسمبلیوں کی نشستیں حاصل کر کے خود فریبی کا شکار ہو جاتی ہے کہ اسے ووٹ مل سکتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ یہی ہوتا ہے‘ جو کراچی میں ہوا۔ تحریک انصاف بہرحال ایک عوامی جماعت ہے۔ اس نے ایم کیو ایم کے گڑھ میں انتخابی مہم چلانے کا حق لے کر 24ہزار ووٹ بھی حاصل کر لئے۔ لیکن جس طرح اس کی قیادت یہ سمجھ رہی تھی کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت کی وجہ سے اسے مقابلے کے ووٹ مل جائیں گے‘ ایسا ممکن نہیں تھا۔ ایم کیو ایم پاکستان کی سب سے منظم جماعت ہے اور اس کے گڑھ میں جا کر ووٹ لینا ناممکن تھا۔ اس منزل تک پہنچنے کے لئے تحریک انصاف کو کراچی میں انتہائی مضبوط اورجانفروش ٹیمیں تیار کرنا پڑیں گی۔ عمران خان کی شخصی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ تنظیمی ڈھانچہ تیز رفتاری سے تیار کیا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے جماعت اسلامی کی حمایت کر کے‘ اپنے آپ کو خواہ مخواہ رسوا کیا۔ 9ہزار 56ووٹوں میں سے ن لیگ کے ووٹ کتنے ہوں گے؟ اور جماعت اسلامی کے کتنے؟ جماعت اسلامی سے پوچھئے تو اس کے لیڈر یہی جواب دیں گے کہ 9 ہزار ووٹ ہمارے تھے اور باقی ووٹ ہمیں ن لیگ کی وجہ سے ملے۔شاید اگلے چند روز میں وہ یہ بھی کہنا شروع کر دیں کہ ہم ن لیگ کی حمایت کی وجہ سے ہارے‘ ورنہ ہم جیت رہے تھے۔آخر میں ایک نکتہ الطاف بھائی کے غوروفکر کی خاطر پیش کر رہا ہوں اور وہ یہ کہ جب وہ فوج کی کڑی نگرانی میں اتنی بھاری اکثریت سے الیکشن جیت سکتے ہیں‘ تو انہیں ''باقی کام‘‘ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں