"NNC" (space) message & send to 7575

کیا بھارت؟ کیا پاکستان؟ ---------------- وہی زمین‘ وہی آسمان

کچھ لوگ مٹی کے اندر رہتے ہیں اور کچھ اس کے اوپر۔ مٹی کے اوپر رہنے والوں نے بھارت اور پاکستان بنا لئے۔ مٹی کے اندر رہنے والوں کی زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ان کے لئے کیا بھارت؟ کیا پاکستان؟ وہی زمین‘ وہی آسمان۔دونوں ملکوں کے خاک نشین ایک جیسے ہیں۔ دیکھتے ہیں ‘ ان کی زندگی میںکیا فرق ہے؟
بھارت میںانتہا پسند ہندوئوں کی حکومت بنی‘ تو ''گھرواپسی‘‘ پروگرام کے تحت مسلمانوں کو ہندوبنانے کی مہم چلائی گئی۔ اس کے تحت گزشتہ سال دسمبر میں ہندومت قبول کرنے والے 17افراد پر مشتمل خاندان نے نئی امیدوں کے ساتھ زندگی شروع کی۔ یہ لوگ خانہ بدوش تھے۔ مٹی کا وہ ٹکڑا جسے زمین کہتے ہیں‘ اس کے لالچ میں انہوں نے مذہب چھوڑا۔ مٹی نصیب نہ ہوئی اور مسلمان برادری نے بھی انہیں الگ تھلگ کر دیا۔ اب وہ ہندوئوں میں تھے‘ نہ مسلمانوں میں۔ گزشتہ روز سماجی تنہائی سے تنگ آ کر‘ انہوں نے دوبارہ مسلمان بننے کا فیصلہ کیا۔ برادری کے جس نوجوان مناعرف علی محمد نے دبائو ڈال کر ‘ اپنے خاندان کو ہندوبننے پر مجبور کیا تھا‘ جب اہل خاندان نے اسے تنگ کیا‘ تومایوسی کے عالم میں اس نے کہا کہ ''مجھ سے زمین دلانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اب وہ ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔‘‘ وہ گائوں میں ایک جھونپڑی کے اندر رہتے ہیں۔مذہب تبدیل کرنے کے بعد ہندوئوں نے ان سے میل جول نہیں کیا اور مسلمان بھی چھوڑ گئے۔ وہ نہ ادھر کے رہے‘ نہ اُدھر کے۔ سماجی تنہائی سے اکتا کر گزشتہ جمعے کوہندو بننے والی یہ برادری اپنے پرانے گائوں رسول پور میں ایک شادی میں شریک ہونے کے لئے گئی۔ وہاں لوگوں نے ان سے کہا کہ وہ ہندوئوں کو شادی کی رسم میں شریک نہیں کر سکتے۔ اگر انہیں شریک ہونا ہے‘ تو دوبارہ اسلام قبول کریں۔ ان تمام لوگوں نے ازسرنو اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ شہر کے مفتی نے بتایا کہ اسلام چھوڑتے ہی نکاح باطل ہو جاتا ہے‘ پھر سے اسلام قبول کر کے‘ ان لوگوں کو دوبارہ نکاح پڑھوانا پڑیں گے۔ وہ پھر سے نکاح پڑھوا رہے ہیں۔ ہندومت چھوڑ کر‘ مسلمان بن رہے ہیں۔ نہ انہیں ہندو مت قبول کر کے زمین کا کوئی ٹکڑا ملا اور نہ دوبارہ مسلمان ہو کے ان کے ہاتھ کچھ آئے گا۔
آیئے! پاکستان میں سندھ چلتے ہیں۔ عمر کوٹ شہر کے باہر ایک پٹرول پمپ ہے۔ پاس چند ریڑھیاں کھڑی ہیں۔ بھنے ہوئے چنے‘ مونگ پھلی اور کھانے پینے کی دوسری چیزیں دستیاب ہیں۔ تھر جانے والی گاڑیاں جب تیل بھروانے کے لیے یہاں آکر رکتی ہیں ‘تو مسافر ان ریڑھی والوں سے یہ اشیا خرید کرتے ہیں۔ان ریڑھی والوں میں ایک ریڑھی جئے کمار کوہلی کی بھی ہے، جو آزاد ہیں اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق زندگی گزارتے اور کاروبار کرتے ہیں۔ لیکن پہلے ایسا نہ تھا۔ جئے کمار کے والد کسان تھے‘ وہ ابھی دسویں جماعت میں تھے کہ ان کے والد دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے ، جس کے بعد گھر کی ذمے داری کے علاوہ والد کا قرضہ بھی ان کندھوں پر آگیا۔جئے کمار بتاتے ہیں کہ قرضہ تو 8000 تھا لیکن زمیندار نے اس کو 60 ہزار روپے قرار دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ پڑھائی چھوڑ کر قرضہ ادا کرو، جو سننے کے بعد وہ پریشان ہوگئے۔ بالآخر خاندان کولے کر راہ فرار اختیار کی‘ جس کے بعد زمیندار ان کو ڈھونڈتا رہا۔
جئے کمار کی ریڑھی سے چند کلومیٹر دور جبری مشقت سے رہائی پانے والے کسانوں کا کیمپ ہے، جہاں پانی، بجلی اور سکول جیسی کوئی سہولت نہیں۔ رہائی کے وقت یہ کسان خاندان صرف اپنے ساتھ چند چارپائیاں، کچھ برتن اور بسترے لے کر آئے تھے۔11 ہزار سے زائد کسانوں کو گزشتہ 27 ماہ میں عمرکوٹ کی مقامی عدالت کے حکم پر رہائی مل چکی ہے، جن کو رہائش فراہم کرنے کے لئے عدالت کے حکم پر یہ زمین کیمپ کے لیے الاٹ کی گئی۔اس کیمپ کی ایک جھونپڑی میں منگل بھیل دوپہر کو روٹی بنانے میں مصروف تھے جبکہ سامنے موجود ان کا آٹھ نو سال کا بیٹا کیری کی چٹنی بنانے میں مصروف تھا اور ساتھ میں کھانس بھی رہا تھا۔ منگل نے بتایا کہ اس کو دو روز سے بخار ہے۔70 سالہ منگل بھیل کو ہل ورثے میں ملا تھا‘ لیکن اس نے اس وقت بغاوت کی، جب گندم کی بانٹ میں اس کو حصہ نہیں دیا گیا۔بیج، کھاد، زرعی ادویات، ٹریکٹر کے اخراجات میں زمیندار کو آدھا حصہ ڈالنا ہوتا ہے لیکن وہ یہ سارا بوجھ کسان پر ڈال دیتا ہے۔ اس کے علاوہ منشی اور منیجر کے اخراجات بھی ان سے لیے جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں زمیندار کے حصے میں80 فیصد آتا ہے اور کسان کو 20 فیصد ملتا ہے۔ اب کسان کیسے ترقی کرسکتا ہے؟منگل بھیل اس کیمپ میں ہوتے ہیں جبکہ دو بیٹے شہر میں مزدوری کرنے جاتے ہیں، جہاں سے روز 300سے 400 روپے مل جاتے ہیں۔ منگل بھیل کا کہنا ہے کہ کسانوں کو بھی روزانہ اجرت دینی چاہیے‘ جو کم سے کم500 روپے ہو۔جبری مشقت کے خوف نے اب کئی خاندانوں سے کھیتی باڑی کا رشتہ توڑ دیا ہے۔
شریمتی ست بائی نے دو ماہ قبل رہائی حاصل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''زمیندار آٹا اور پانی تک نہیں دیتا تھا۔ انہوں نے دس، دس ہزار قرضہ لیا تھا لیکن اس نے ہر فرد کے ذمے ایک لاکھ روپے نکال لیے۔ بچوں کو پڑھنے اور انہیں کہیں جانے کی اجازت تک نہ تھی۔ اس صورتحال کے بعد وہاں سے نکلے۔ اب ڈر لگتا ہے کہ کسی دوسرے زمیندار کے پاس جائیں گے تو دوبارہ پھنس جائیں گے۔‘‘
سندھ میں لاکھوں افراد کھیتی باڑی سے منسلک ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے زمینداروں سے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔ کسان اور زمیندار کے درمیان حساب کتاب رکھنے کے لیے سندھ ٹیننسی ایکٹ کے تحت تحصیل دار کو ثالثی کا کردار دیا گیا‘ لیکن اس قانون پر عملدر آمد نہیں ہوسکا جس وجہ سے کسان کورٹس کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔زمیندار انور راجڑ خود بھی ایک کسان کے بیٹے ہیں۔ وہ 70 اور 30 فیصد حصے داری سمجھتے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ''زمیندار اور کسان میں اعتماد کا رشتہ ہے۔ اس میں کوئی لکھت پڑھت نہیں۔ اب کسانوں کے اکاؤنٹ تو ہوتے نہیں جو انہیں چیک دیے جائیں‘ یہ سارے معاملات اعتماد پر ہی چلتے ہیں۔‘‘ٹیننسی ایکٹ پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے کسان اور زمیندار میں کشیدگی ہے۔ اگر قانون پر عمل درآمد ہو تو قصور وار کون ہے؟ اس کا پتہ لگ سکتا ہے۔سندھ میں ٹیننسی ایکٹ 50ء کی دہائی میں متعارف کرایا گیا تھا۔ 2002ء میں سندھ ہائی کورٹ نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ اس قانون میں ترامیم کرکے کسان دوست بنایا جائے۔ لیکن اس پر عمل نہیں ہوسکا۔ملک میں ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں زرعی اصلاحات لائی گئیں۔ اس کے بعد سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے۔ خود پیپلز پارٹی اس کی مخالفت کرچکی ہے۔ ماضی میں بے زمین کسانوں میں زمین بھی تقسیم کی گئی لیکن زرعی اصلاحات کی مخالفت کی گئی۔2011ء میں سیلابی بارشوں کے بعد زمیندار معاشی دباؤ کا شکار ہے۔ فصلوں کی لاگت میں اضافہ اور سبسڈی میں کمی ہوئی ہے۔ 90ء کی دہائی سے جبری مشقت کے مسائل اٹھائے جا رہے ہیں۔ ہزاروں کسان زمینداروں سے رہا کرائے گئے ہیں۔یہ حبس بے جا کے قوانین کے مطابق رہا کرائے جاتے ہیں۔ سندھ میں جبری مشقت کے خلاف قانون کا مسودہ اب بھی زیر غور ہے۔ اراکین اسمبلی کی اکثریت کا تعلق زرعی شعبے سے ہونے کی بنا پرکئی رکاوٹیں موجود ہیں۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے پنجاب میں حکم جاری کیا تھا کہ اگر کہیں بھی جبری مشقت کی شکایت آئی تو اس کا مقدمہ متعلقہ ڈی پی او کے خلاف دائر ہوگا‘ جس کے بعد پنجاب میں یہ رجحان کم ہوا۔ سندھ میں یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ کسان ادھر ادھر ہوتے رہتے ہیں کیونکہ فیصلے زمین پر ہوتے ہیں۔ مٹی وہی ایک رہتی ہے‘ جس پر اس کا کوئی حق نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں