پنجابی میں ایک کہاوت ہے کہ جنون اور اشتعال کے عالم میں جب کوئی قتل کر بیٹھتا ہے‘ تو اس کی سزا کا سلسلہ پہلے ہی دن سے شروع ہو جاتا ہے۔ یعنی قاتل کے گھر کے زیورات اور دوسری قیمتی اشیاچالان تیار ہونے تک بک جاتی ہیں۔ کیس عدالت میں لگتا ہے‘ تو وکلا کی باری آتی ہے۔ یہ قاتل کی سزا کا دوسرا دور ہوتا ہے۔ جس میں اس کے کھیت‘ گھر اور دیگر قیمتی اشیاء بک جاتی ہیں۔ عدالت سے سزا ملنے کے بعد‘ قاتل کی زندگی کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے‘ جو تاحیات جاری رہتا ہے۔ اس دور میں قاتل کے بھائی‘ بیٹے اور گھر کے دوسرے لوگ‘ محنت مزدوری کر کے جو کچھ کماتے ہیں‘ وہ جیل والوں کی نذر ہوتا رہتا ہے۔ یہ تینوں مرحلے کہاوت میں یوں بیان کئے گئے ہیں کہ اگر کسی سے قتل کا جرم سرزد ہوتا ہے‘ تو اس کے گھر کے زیورات پولیس کھا جاتی ہے۔ جائیداد وکیلوں کی نذر ہو جاتی ہے اور کفن کے پیسے جیل کا عملہ کھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے‘ تو پھانسی کی سزا اگر بروقت ہو جائے‘ تو قاتل کے خاندان کی سزا کا عرصہ کم ہو جاتا ہے۔ مگر یوں ہوتا نہیں۔ بہن بھائی محبت میں‘ قربانیوں کی مدت میں خود ہی اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ وکیل نکتے نکالتے ہیںکہ دفعات کا سہارا لے کرقاتل کو زندگی کے مزید کتنے مہینے اور برس مل سکتے ہیں؟ اگر قاتل کے اہل خاندان کو پہلے سے علم ہو کہ دو چار مہینے یا سال دو سال کی مزید مقدمے بازی کے بعد آخرکار پھانسی لگ جانی ہے‘ تو شاید وہ پہلے ہی کڑوا گھونٹ پی لیں۔ مگر ایسا ہوتا نہیں۔ وکیل ہر بار نئے قانونی نکتے کا جو فائدہ بتاتا ہے‘ وہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ہم اس بنیاد پر اپیل کریں‘ تو زندگی بچائی جا سکتی ہے۔ کونسے بہن بھائی یا والدین ایسے ہیں‘ جنہیں یہ امید ہو جائے کہ ان کے عزیز کی زندگی بچائی جا سکتی ہے اور وہ اس کے لئے کوشش نہ کریں؟ وہ عزیز و اقارب سے قرض مانگتے ہیں۔ گھر کی شادی شدہ لڑکیوں کے زیور مانگ لیتے ہیں۔ جہاں سے قرض ملنا ممکن ہو‘ وہاں سے قرض حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن ہوتی آخرکار سزائے موت ہی ہے۔ تباہ حال خاندان‘ پھانسی کے مختلف مراحل میں بھی اپنے رہے سہے اثاثے بیچ کر میت حاصل کرتا ہے۔ قاتل قبر میں چلا جاتا ہے اور باقی سارا خاندان زندہ درگور ہوجاتا ہے۔ یہ ہے پھانسی کی سزا۔ بظاہر سزاقاتل کو ملتی ہے‘ مگر اصل سزا قاتل کا پورا خاندان بھگتتا ہے۔
خاندان کی سزا میں نے بہت سادہ الفاظ میں بیان کر دی ہے۔ مگر مقدمے کے دوران اور کیا کیا جاتا ہے؟ وہ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ قاتل کے گھر کی جواں سال خواتین کی قربانیاں کسی کھاتے میں نہیں لکھی جا سکتیں۔ یہ میرے مشاہدے کی بات ہے کہ ایسے مظلوم گھروں کی بیٹیاں اور بہوئیں‘ مختلف افسروں کی خدمات بجا لانے میں لگی رہتی ہیں کہ شاید وہ اپنی عزت دے کر‘ قاتل کو سہولت پہنچا سکیں۔ جن ملکوں میں پھانسی کی سزا ختم کر دی گئی ہے‘ وہاں بھی گھر والوں کو تکالیف اٹھانا پڑتی ہیں۔ مگر قاتل کی زندگی چونکہ خطرے میں نہیں ہوتی‘ اس لئے سزا کے فوراً ہی بعد خاندان والوں کو علم ہوتا ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے؟ عام طور پر وہ مجرم کو جیل میں سہولت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی مشقت معاف کرا لی۔ بیماری میں علاج کی سہولت مہیا کر کے‘ اپنے آپ کو مطمئن کر لیا۔ قیدی کی خوراک کے لئے جس قدر ہو سکے‘ اسے بہتر غذا مہیا کر دی۔ یہ ایسے اخراجات ہیں‘ جو غریب سے غریب لوگ بھی محنت مزدوری کر کے مہیا کر سکتے ہیں۔ لیکن خاندان پر وہ تباہی نہیں آتی‘جو قیدی کو پھانسی تک پہنچانے کے عمل میں خاندان پر آتی ہے۔ جرم و سزا کی ہر کہانی درد ناک ہوتی ہے۔ مجرم کو پھانسی دی جائے یا اسے باقی ماندہ زندگی جیل میں گزارنا پڑے‘ خاندان پر گزرنے والی تکلیفوں اور صدموں کا سلسلہ یکساں ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ کسی بھی ایک طریقے پر عمل کر کے‘ جرائم کا خاتمہ ممکن ہے‘ تو ایسا نہیں ہوتا۔پھانسیاں لگتی رہیں‘ تو بھی روایتی قتل جاری رہتے ہیں۔ ماسوا گزشتہ چند سالوں کے‘ ہمارے ملک میں ہمیشہ سے پھانسی کی سزا برقرار رہی ہے۔ لیکن قتل کے واقعات میں کبھی کمی نہیں آئی۔ ہمارے معاشرے میں زیادہ قتل‘ غیرت کے نام پر ہوتے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں تو عموماً یہ قتل ملی بھگت سے کئے جاتے ہیں۔ پنچایت بیٹھ کر فیصلہ کرتی ہے‘ جس خاتون یا لڑکی پر تہمت لگائی جاتی ہے‘ اسے ساری برادری مل کر موت کی سزا دیتی ہے اور اس قتل پر نہ کوئی گواہی ملتی ہے اور نہ اس کی ایف آئی آر لکھوائی جاتی ہے۔ یہ قتل قانون کی زد میں ہی نہیں آتے۔ سارے قاتل دندناتے پھرتے ہیں‘ مظلوم اور بے بس خواتین ایسی ایسی عبرتناک سزائیں پا کر موت کے منہ میں جاتی ہیں کہ انسانیت لرزاٹھتی ہے۔ آپ اکثر اخباروں میں ایسی خبریں پڑھتے ہوں گے کہ فلاں علاقے میں ایک لڑکی یا عورت کو پتھروں سے ہلاک کر دیا گیا۔ وحشت اور درندگی کا یہ کھیل دل دہلا دینے والا ہوتا ہے۔ سزایافتہ لڑکی یا خاتون‘ جان بچانے کے لئے ادھر ادھر بھاگتی ہے اور اس کے اپنے ہی ہر طرف سے اسے پتھروں کا نشانہ بناتے ہیں اور جب تک اس کے جسم میں جان باقی رہتی ہے‘ سنگساری کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اور اکثر اوقات وحشت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بے جان اور مردہ جسم پر بھی پتھر برسائے جاتے ہیں۔ سندھ میں لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا ہے۔ جس معاشرے میں مظالم کی یہ انتہا ہو اور دہشت گردوں کو قانونی راستے مہیا کر کے بچ نکلنے کے مواقع آسانی سے دستیاب ہوں‘ دہشت گردوں کو فراخ دلی سے آزاد ہو کر خون کی ہولی کھیلنے کی آزادی میسر آتی ہو‘ ان حالات میںدرحقیقت قانون‘ دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ کراچی کے شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو برسوں سے یہی شکایت ہے کہ پولیس والے جانوں پر کھیل کر ‘ دہشت گردوں کو پکڑتے ہیں۔ مگر قانونی کارروائی کے دوران وہ عدالتوں سے کسی نہ کسی بہانے آزاد ہو جاتے ہیں اور مزید دہشت گردی کے لئے زیادہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ انسانی جانوں سے کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔کراچی پولیس مدتوں سے دہائی دے رہی ہے کہ انصاف کے عمل کو موثر اور تیز کیا جائے‘ تو عوام کو ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی سے بچایا جا سکتا ہے۔ ورنہ جو حالات چل رہے ہیں‘ ان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کو روکنا‘ پولیس کے بس کی بات نہیں۔ یہی وہ صورتحال تھی‘ جس سے تنگ آ کر‘ فوجی عدالتیں قائم کرنے کافیصلہ کیا گیا۔ قانونی موشگافیوں کی بنا پردہشت گردی کے مقدمے نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے اور وہی طریقہ کام آیا‘ جو پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے دوران استعمال کیا۔ آج عدالت عظمیٰ نے فوجی عدالتوں کے معاملے میں آخرکار فیصلہ دے کر‘ ان عدالتوں کو بحال کر دیا۔ فوج نے آپریشن کے دوران بہت سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے لیکن ان کا پوری طرح خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ وہ فوجی آپریشن سے بچنے کے لئے خفیہ پناہ گاہوں میں چوہوں کی طرح چھپ کر بیٹھ گئے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ جیسے ہی موقع ملے‘ باہر نکل کر دہشت گردی کی واردات کردیں۔ یہ خطرہ اب بھی موجود ہے۔ کسی بھی وقت دہشت گرد‘ کہیں بھی نمودار ہو کر واردات کر سکتے ہیں اور انہیں حوصلہ ہوتا ہے کہ وہ پکڑے بھی گئے‘ تو پولیس عام قوانین کے تحت ان پر مقدمے چلائے گی۔ کراچی میں جرائم کے خاتمے کے لئے رینجرز کو خصوصی فرائض سونپ کر متحرک کیا گیا۔ لیکن اس کے سامنے بھی یہی مسئلہ رہا کہ وہ دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کرنے کی پابند تھی اور پولیس جس طرح چالان تیار کر کے‘ عدالتوں میں لے جاتی ہے‘ وہاں سے زیادہ تر مجرم ضمانتوں پر رہا ہو کر‘ دوبارہ خونریزی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ رینجرز کو خاص طور پہ یہی شکایت تھی کہ اس کے جوان جان پر کھیل کر‘ جن قاتلوں اور دہشت گردوں کو پکڑتے ہیں‘ وہ دوبارہ آزاد ہو کر خونریزی میں لگ جاتے ہیں۔ فوجی عدالتوں کی بحالی سے ‘ رینجرز اب زیادہ اعتمادکے ساتھ اپنا کام کر سکے گی۔ دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کر کے‘ خود ہی فوجی عدالتوں میں لے جا سکے گی اور ان میں سے جو مجرم ہوں گے‘ وہ آزاد نہیں ہو سکیں گے۔ یقینی سزا پائیں گے۔یہی وہ مقصد تھا‘ جس کے تحت رینجرز کو خصوصی ذمہ داریاں دی گئیں۔ یہ ہیں وہ پھانسیاں‘ جن کے لئے یہ سزا بحال کی گئی۔