"NNC" (space) message & send to 7575

پارٹی بن رہی ہے

ایک طرف عمران خان کے حامی تو کیا اپنے ساتھی بھی اس شک میں مبتلا ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت کا گراف نیچے گر رہا ہے اور دوسری طرف اپنے اپنے حلقوں کے مقبول لیڈر‘تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر رہے ہیں۔کسی بھی مقامی لیڈر سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ ووٹروں کا رجحان کدھر ہے۔ وہ انہی کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ عوام کس کو ووٹ دیں گے۔ خصوصاً ایسے امیدوار‘ جو ہمیشہ کامیاب ہوتے ہوں۔ سردار طالب نکئی انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ نہ تو میڈیا میں آتے ہیں اور نہ ہی تقریربازی یا شورشرابہ کر کے‘ سرخیوںمیں رہنے کے شوقین ہیں، مگر جب الیکشن آتا ہے‘ تو ان کے حلقے کے لوگ ‘دیوانہ وار ووٹ دے کر انہیں کامیاب کراتے ہیں۔ صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کس لیڈر اور پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں؟ یہ سردار طالب کا انتخاب ہوتا ہے کہ وہ کس پارٹی کا ٹکٹ لیتے ہیں؟ وہ ہمیشہ اسی پارٹی کی طرف رجوع کرتے ہیں‘ جس کی قیادت پر انہیں بھروسہ ہو اورایسے ہی امیدوار ہوتے ہیں‘ جنہیں دیکھ کر عوام کے رجحان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ لیڈروں کی مقبولیت کا اندازہ اخباری سرخیوں یا ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز اور تبصروں سے نہیں ہوتا۔ بلکہ اکثراوقات یوں ہوتا ہے کہ جس لیڈر یا پارٹی کا زیادہ دھوم دھڑکا ہو‘ وہ الیکشن کے میدان میں کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکتی اور ایک ایسا لیڈر‘ جسے بڑے بڑے نامور لوگ اہمیت دینا پسند نہیں کرتے‘ اخبارات اس کی تقریریں اور بیانات نہیں چھاپتے، ٹیلیویژن کے تبصرہ نگار اسے خاطر میں نہیں لاتے، جہاں اس کا نام آتا ہے‘ اسے بے اعتنائی سے نظرانداز کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ وہ تو دوچار سیٹیں بھی جیت گیا تو بڑی بات ہو گی۔لیکن عوام کے اندر جب تبدیلی کی لہر چلتی ہے‘ تو وہ ٹی وی اور اخباروں میں نظر نہیں آتی‘ پولنگ سٹیشنز پر جا کر پتہ چلتا ہے کہ عوام کس کے حق میں ہیں۔ 
یہ تماشا ہم ایک بار پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ 1970ء کے انتخابات سے قبل ذوالفقار علی بھٹو‘ میڈیا کے انتہائی ناپسندیدہ لیڈر تھے۔ سرکاری اور غیرسرکاری میڈیا دونوں ہی نے انہیں ہدف بنایا ہوا تھا اور جتنی زبردست کردارکشی ان کی ہوئی‘ وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ایسے ایسے گندے اور متعفن صحافی ان کے بارے میں غلیظ کہانیاں گھڑ کے شائع کیا کرتے تھے‘ جن کی تحریریں پڑھ کر قارئین کو کراہت آتی تھی۔ ایسے لوگ مسلسل مہم جوئی کے انداز میں بھٹو صاحب کو ہدف بنایا کرتے۔ مختلف بدنام ایکٹروں اور غنڈوں کے جسم پر ‘بھٹو صاحب کا سر لگا کر ان کی تذلیل کی جاتی۔ ایک صاحب توبھٹو صاحب کے نام و نسب کے بارے میں اپنے ذہنی تعفن کو پھیلاتے ہوئے‘ ان کے والدین کا تعلق کسی ہندو خاندان سے جوڑ کے سمجھتے کہ انہوں نے بھٹو صاحب کی تذلیل کر دی ہے۔ان کی بیگم محترمہ نصرت بھٹو کے بارے میں ایسی ایسی کہانیاں گھڑتے اور ان کی بگاڑی ہوئی تصاویر چھاپتے کہ کوئی عزت دار شخص اسے برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ ان کی سیاسی حیثیت کو تو اہمیت ہی نہ دی جاتی۔ وہ پورے ملک میں ایک ایک گائوں کا دورہ کر کے عوام سے براہ راست مخاطب ہوتے، مگر عوامی رابطے کی اس عظیم مہم کو میڈیا میں جگہ ہی نہ ملتی اور ملتی بھی کیسے؟ یحییٰ خان اور نوابزادہ شیرعلی خان کا ماتحت میڈیا‘ گائوں گائوں ہونے والے ان جلسوں کا ذکر بھی نہیں کرتا تھا، مگر بھٹو صاحب ان تمام مغلظات سے بے نیاز ‘ ایک عوامی طوفان پیدا کر رہے تھے۔ وہ کچے پکے راستوں سے گزرتے ہوئے‘ چھوٹے چھوٹے دیہات میں جاتے۔ عوام سے براہ راست مخاطب ہوتے اور پھر اگلے گائوں کی طرف روانہ ہو جاتے۔ مجھے اکثر ان کے ساتھ ایسے دوروں پر جانے کا اتفاق ہوا۔ کاش! دیگر صحافی بھی اس انقلابی سفر کو دیکھتے۔ بھٹو صاحب نے فاصلوں کو مٹا کر‘ ہر گائوں کو دوسرے گائوں سے جوڑ دیا تھا۔ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کہیں پر کوئی خالی سڑک یا پگڈنڈی بھی ہے۔ ایک رش تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ دور دور تک بکھرے ہوئے گائوں‘ انسانی ہجوم نے جوڑ دیئے تھے اور میڈیا اور بڑے بڑے لیڈر اپنی دھن میں مگن تھے کہ بھٹو انتخابات میں ان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ ویسے بھی ان کے بیشتر امیدوار سیاست میں نئے تھے۔ ان کے نام بھی کوئی نہیں جانتا تھا اور نہ ان کا کوئی سیاسی پس منظر تھا۔ بھٹو سے عوام کے براہ راست رشتے اور رابطے استوار ہو رہے تھے۔ کسی کو پروا نہیں تھی کہ امیدوار کون ہے۔ وہ صرف بھٹو کا نام اور تلوار کا نشان ذہن میں لئے پولنگ سٹیشنوں پر گئے اور تلوار پر ٹھپے لگا کر آ گئے اور جب انتخابی نتائج آئے تو سارے بڑے بڑے لیڈر منہ کے بل گرے تھے۔ گمنام تاج محمد لنگاہ نے ملک کے بڑے لیڈر میاں ممتازدولتانہ کو شکست دے دی تھی۔ نوجوان مصطفی کھر نے اپنے علاقے کے نامور لیڈروں کو دھول چٹا دی تھی۔ غرض یہ کہ اپنے دور کے تمام بڑے بڑے لیڈر ‘جو بھٹو کی طرف حقارت سے دیکھا کرتے تھے‘ توہین آمیز شکست پر منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ پورے مغربی پاکستان کا سیاسی نقشہ اس طرح سے بدلا کہ میڈیا اور بڑے لیڈر‘بھٹو کی ناکامیوں کے بارے میں کی گئی اپنی پیش گوئیوں پر شرمندہ تھے۔ اکثر واقعات میں ایسے گمنام کارکنوں کو ٹکٹ دیئے گئے کہ انہوں نے انتخابی مہم میں حصہ ہی نہیں لیا۔ کارکنوں نے خود زرضمانت دے کر ان کے کاغذات نامزدگی زبردستی پُر کرائے اور اس امیدوار کو ساتھ لے کر جمع کروا دیئے اور جب انتخابی نتائج آئے تو ایسے امیدوار بھی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو چکے تھے۔ یہ تھے وہ مناظر‘ جن کا میں نے خود مشاہدہ کر رکھا ہے۔ 
آج جب میں تمام بڑے بڑے لیڈروں اور میڈیاکو عمران خان پر تیراندازی کرتے دیکھتا ہوں‘ تو وہی زمانہ یاد آ جاتا ہے۔وہی بڑے بڑے لیڈر‘ جو بھٹو کو خاطر میں ہی نہیں لاتے تھے‘ انہیں بھٹو کے چھوٹے چھوٹے امیدواروں نے بڑی بڑی شکستیں دے کر گھر بٹھا دیا تھا۔ عمران خان کے آج کے واقعات وہی پرانی کہانیاں یاد دلا رہے ہیں۔ ہر مبصر ایک ہی رٹ لگا رہا ہے کہ عمران کی سیاست ختم ہو گئی۔ ہر بڑا لیڈر دعویٰ کر رہا ہے کہ عمران خان کے ووٹر اب باقی نہیں رہ گئے۔ جتنے ضمنی انتخابات میں عمران کے امیدوار کھڑے ہوتے ہیں‘ وہ حکومت کے سامنے جیت تو نہیں سکتے۔ لیکن ان کا ہارنے والا ہر امیدوار‘ اس سے زیادہ ووٹ لے جاتا ہے‘ جتنے اس نے گزشتہ انتخابات میں لئے تھے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے‘ شہروں اور دیہات میں عمران کی لہرتیزی سے اندر ہی اندر پھیل رہی ہے۔ مثلاً سردار طالب کا تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنا‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ خاموش دیہاتی ووٹر کا رجحان کس طرف ہے؟ سردارطالب ہمیشہ اپنے حلقے کے اندر رہتے ہیں اور انہیں ایک ایک ووٹر کے مزاج کا علم ہوتا ہے ۔ یہ وہ دن ہیں جن میں حکومت نے پے درپے اپنی کامیابیوں کے ڈھول بجائے ہیں اور بڑے بڑے جغادری یہ کہہ رہے ہیں کہ عمران کی بری طرح سے پسپائی ہو رہی ہے۔ ان کی پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ ہے۔ ان کی مقبولیت پہلے جیسی نہیں رہ گئی۔ ایسے ماحول میں جب ایک روایتی امیدوار‘ تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کرتا ہے‘ تو سمجھ لینا چاہیے کہ زمینی حقیقت کیا ہے؟ ابھی الیکشن دور ہے۔ جیسے جیسے انتخابات قریب آئیں گے‘ عمران کی مقبولیت کی دھیرے دھیرے بڑھتی ہوئی لہر پھیلتی چلی جائے گی۔ ایسا نہیں کہ بڑے لوگ‘ عمران سے رابطے نہیں کر رہے، لیکن تحریک انصاف ہر کسی کا خیرمقدم نہیں کر رہی۔ بدنام اور بری شہرت رکھنے والے امیدواروں کی حوصلہ 
افزائی نہیں کی جاتی۔ چوہدری سرور ہر امیدوار کا پوری طرح سے جائزہ لیتے ہیں اور صرف ایسے امیدواروں کو پارٹی میں شامل کیا جاتا ہے‘ جن کا ماضی زیادہ داغ دار نہ ہو۔ الیکشن میں ابھی اڑھائی سال کا عرصہ پڑا ہے۔ اس لئے زیادہ سرگرمیاں دکھائی نہیں دے رہیں، لیکن تحریک انصاف کے پھیلائو کا عمل مسلسل جاری ہے۔ عمران خان‘ انتخابی کھلاڑیوں پر زیادہ توجہ نہ دیں، محض انتظار کریں۔ اس بات کی پروا نہ کریں کہ آنے کے خواہش مند بڑے ہیں یا امیر۔ انہیں صرف نیک نام اور اچھے لوگوں کا چنائو کرنا چاہیے۔ میرا اندازہ تو یہ ہے کہ عمران ‘ کھمبے کو ٹکٹ دیں گے‘ تو وہ بھی کامیاب ہو جائے گا۔ اگر کسی پرانے پاپی کو ٹکٹ دیا‘ تو اس کا نقصان خود تحریک انصاف کو پہنچے گا۔ وہ اپنی پارٹی کو صاف ستھرا رکھیں۔ عوام اور وقت ‘ان کے ساتھ ہیں۔ مجھے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ بھٹو کی انتخابی کامیابی کی کہانی ایک بار پھر دیکھنے کو ملے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں