گزشتہ روز وزیراعظم ہائوس میں انتہائی اہم اجلاس ہوا۔ جس میں مختلف فرقوں کے علمائے کرام‘ فوجی قیادت اور حکومتی نمائندوں نے شرکت کی۔ میرے نزدیک پاکستان میں امن قائم کرنے کے لئے یہ بنیادی اقدام تھا۔ پاکستان میں جو مختلف تنظیمیں‘ دہشت گردی کا بازار گرم کئے ہوئے تھیں اور انہوں نے ہزاروں پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتارا‘ ضرب عضب کے بعدان کی اصل طاقت ختم ہو چکی ہے اور بقول جنرل راحیل شریف‘ ان کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ طالبان کے دہشت گرد گروہ اتنے خطرناک نہیں تھے‘ جتنی کہ فرقہ وارانہ نفرتیں حکومت اور معاشرے کے لئے خطرناک ہیں۔ دہشت گرد ‘ سیاسی واقعات کا نتیجہ تھے۔ سیاست بدلنے کے ساتھ‘ ایسے گروہ بھی منظر سے ہٹ جاتے ہیں۔ وہ اکادکا وارداتیں تو کر سکتے ہیں لیکن منظم کارروائیاں کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ ایسا نہیں کہ وہ ختم ہو گئے۔ وہ یقینی طور پر موجود ہیں اور اکادکا وارداتیں جاری رکھ سکتے ہیں۔ لیکن فرقہ واریت کا جوزہر ‘ہمارے معاشرے کی رگوں میں دوڑ رہا ہے‘ وہ صدیوں پرانا ہے اور آج کی مسلم دنیا میں تو اس نے اتنی تباہی پھیلائی ہے ‘ جو مسلم معاشروں میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔آج ہم مسلمان ملکوں پر نظر دوڑائیں‘ تو حالات دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی مختصر سی حکومت نے جو فرقہ وارانہ قتل عام کیا‘ وہ اس کے سامنے کچھ بھی نہیں جو آج کل عراق‘ شام‘ لبیا‘ یمن اور شرق اوسط کے بیشتر علاقوں میںجاری ہے۔ آج دنیا میں جو لاکھوں بے گھر لوگ ‘اپنی عورتوں اور بچوں کے ساتھ بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ انہیں کوئی ٹھکانہ نہیں ملتا اور اب تو حالت یہ ہے کہ ان کے بھرے ہوئے بحری جہاز اور کشتیاں‘ جب کسی ملک کے ساحل کی طرف جاتی ہیں‘ تو مقامی باشندے اور حکومتیں‘ کناروں پر پہرے لگا دیتے ہیں اور انہیں اپنی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ہو سکتا ہے‘ قدیم انسانی تاریخ میں‘ انسان اتنا بے بس اور وحشی بناہو۔ مگر آج کل جو کچھ دیکھنے میں آ رہا ہے‘ میرے علم کے مطابق دور حاضر میںشاید ہی پہلے کبھی ہوا ہو۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ چار پانچ سال کا جو بچہ‘ ایلان کُردی سمندری موجوں کے تھپیڑے کھاتا کھاتا ‘ مر کے ساحل پر آن لگا‘ اس کی تصویر عالمی میڈیا میں آ گئی اور دنیا کے تمام حساس اور نیک دل لوگ‘ اسے دیکھ کر تڑپ کے رہ گئے اور حکومتیں جو پہلے سمندروں میں بھٹکتے ہوئے بے بس مسلمانوں کو اپنی سرزمین پر اترنے کی اجازت نہیں دے رہی تھیں‘ ان کے بھی دل تڑپ اٹھے اور کئی ملکوں نے فوری طور پر انہیں اپنے ہاں‘ پناہ دینے کا اعلان کر دیا۔
ان میں دلچسپ واقعہ برطانیہ کا ہے‘ جہاں کے وزیراعظم نے سمندروں میں بھٹکتے ہوئے مظلوں کو پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس بچے کی تصویر دیکھ کر وہ خود پیش کش کر چکے ہیں کہ برطانیہ انہیںبڑی تعداد میں آباد کرنے کو تیار ہے۔ ایسی ہی پیش کش آسٹریا نے کی۔ سب سے اچھا طرزعمل جرمنی کا رہا‘ جس نے بہت بڑی تعداد میں نہ صرف انہیں پناہ دینے بلکہ جرمنی میں آباد کرنے کی پیش کش کر دی۔ اب انہیں آسٹریلیا بھی پناہ دے رہا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ دنیا کے اور کس کس ملک نے ان مظلوموں کو اپنے ہاں قیام کرنے کی اجازت دی ہے؟ لیکن پاکستان سمیت کسی مسلمان ملک نے انہیں پناہ دینے کی پیش کش نہیں کی۔ورنہ بہت سے خوشحال مسلمان ملک‘ انہیں آباد کرنے کی گنجائش بھی رکھتے ہیں اور وسائل بھی۔ مثلاً ترکی تو فرقہ وارانہ فسادات کے ان مراکز کے‘ بالکل قریب واقع ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ وہ شام کے حکمران فرقے کی حمایت میں‘ مخالف فرقے پر بمباری کر رہا ہے۔ کس کس کا نام لوں؟ سب کچھ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ مثال اس لئے عبرتناک ہے کہ فرقہ وارانہ نفرتوں نے‘ مسلمانوں کو باہمی تباہی و بربادی کے کس مقام پر پہنچا دیا ہے؟ میں اپنے ملک میں بھی دیکھوں‘ تو فرقہ وارانہ نفرت کے جو دلدوز مناظر میرے اہل وطن دیکھ رہے ہیں‘ وہ بھی کسی سے کم نہیں۔اگر مجموعی طور سے دیکھا جائے تو طالبان کی 10سالہ خونریزی کا شکار ہونے والے ‘بے گناہ مسلمانوں سے زیادہ کلمہ گو ‘فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کا ہدف بنے ہیں۔ گزشتہ سال فرقہ وارانہ حملوں میں 208 کے قریب پاکستانی مسلمانوں کی جان گئی۔ گزشتہ 8ماہ کے دوران 202افراد کو لقمہ اجل بنایا گیا۔ اسی سال شکار پورسندھ میں 60افراد ‘ فرقہ وارانہ دہشت گردی کا نشانہ بنے اور یہ بے رحمانہ واقعہ بھی کراچی میں ہوا‘ جہاں بچے‘ عورتیں اور مرد ‘ عبادت کے لئے جا رہے تھے کہ ان کی بس پر قبضہ کر کے‘ ایک ایک فرد کو نشانہ باندھ کے مارا گیا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ دہشت کے مارے ہوئے یہ مردوزن‘ بچنے کی کوشش بھی نہیں کر رہے تھے۔ ماہر نشانچی‘ ایک ایک سر کا نشانہ باندھ کر ‘ گولیوں سے ان کے بھیجے اڑاتے رہے اور وہ بیچارے کوئی مزاحمت بھی نہ کر سکے۔ اتفاقاً جو چند ایک بچے‘ انہیں دہشت گرد گھبراہٹ میں چھوڑ کر بھاگے تھے۔ اس واقعے میں 43اسمٰعیلی جان سے گئے تھے۔ ایسے واقعات ہمارے ہاں تھوڑے تھوڑے وقفوں سے رونما ہوتے رہتے ہیں۔ شاید اسی لئے ہم اجتماعی طور پر ‘ان کا نوٹس نہیں لیتے۔ لشکر جھنگوی کا لیڈر ملک اسحق اپنے دو بیٹوں سمیت ‘پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنا‘ تو چند ہی روز کے بعد پنجاب کے بہادر وزیرداخلہ ‘شجاع خانزادہ کو ان کے گھر میں ‘بم کے دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ اگر دہشت گرد فرقہ وارانہ تنظیموں کا شمار کیا جائے‘ تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ اتنی آزادی سے منظم کیسے ہوتے ہیں؟ نقل و حرکت کس طرح کرتے ہیں؟ بدنصیبی یہ ہے کہ بعض سیاسی جماعتیں بھی ان کی سرپرستی کرتی ہیں اور ایک دہشت گرد تنظیم کے سربراہ تو قومی اسمبلی کے رکن بھی ہیں۔ بہت سے گروپ جن کی سرگرمیوں پر پابندیاں لگائی جا چکی ہیں‘ وہ بھی کھلم کھلا وارداتیں کرتے ہیں اور کسی میں ہمت نہیں کہ انہیں روک سکے۔ بعض دہشت گرد گروپوں کے لیڈر وں کوجیل میں بیٹھ کر بھی ہر طرح کی سہولتیں حاصل ہیں۔ اندر بیٹھے بیٹھے مختلف افراد اور گروہوں کو مار دینے کے احکامات جاری کرتے ہیں اور ان پر عملدرآمد بھی ہو جاتا ہے۔ بعض مرض تو جسم کے ایک حصے میںخرابی پیدا کرتے ہیں اور ان کا علاج یا آپریشن کیا جا سکتا ہے۔ مگر فرقہ واریت کی بنیاد پر دہشت گردی کرنے والے‘ تو خون کے ایک ایک ذرے کو نشانے پر رکھتے ہیں اور جسے چاہیں مسل دیتے ہیں۔
ہمارے چیف آف آرمی سٹاف نے ‘بہت پرانے اور خطرناک مرض پر حملہ کر کے‘ اس کی کمر توڑی ہے۔ مگر فرقہ واریت کے اس پھیلے ہوئے زہر کو ختم کرنا زیادہ مشکل ہے۔ یہ وہ مرض ہے‘ جس کا خاتمہ بڑے بڑے جابر حکمران بھی نہیں کر سکے۔ بظاہر یہ اپنے اپنے فرقے کے علما کے اطاعت گزار ہوتے ہیں۔ لیکن انہی کے احکامات کے نتیجے میں ‘ اپنے ہی عالم اور فاضل علما کو مخالف فریق کے ہاتھوں ہلاک کروا دیتے ہیں۔آپ کئی علما کو یاد کر کے دیکھ لیں‘ انہیں دوسرے فرقے کے نشانچیوں نے گولیوں یا دھماکوں سے مارا۔ کس کس کا نام لوں؟ مولانا اعظم طارق‘ مولانا ضیاالحق قاسمی‘ مولانا عارف الحسینی‘ ایرانی قونصل جنرل ڈاکٹر صادق گنجی۔ آپ کسی بھی فرقے کے ہلاک ہونے والے عالم و فاضل کا نام لیں‘ اس کا قاتل دوسرے فرقے سے نکلے گا۔ فرقہ واریت کا یہ کینسر صدیوں سے مسلمان معاشروں میں تباہی پھیلا رہا ہے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ مرض بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سے نجات حاصل کرنا اتنا آسان کام نہیں کہ ہماری ایک حکومت یا ایک سپہ سالار‘ اس دیرینہ مرض سے نجات دلوا سکے۔ میں موجودہ حکمرانوں اور کمانڈروں کے لئے‘ دعائے خیر ہی کر سکتا ہوں‘ جنہوں نے اس مشکل کام میں ہاتھ ڈالا ہے۔ پوری قوم کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن ان سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس کام کا انہوں نے ارادہ کیا ہے‘ اس کے لئے انتہائی دوراندیشی‘ جنگی حکمت عملی اور دینی علم کی ضرورت ہے۔ مناسب ہو گا کہ تمام اعتدال پسند اور دینی علم پر عبور رکھنے والے علمائے کرام کو باہمی مشاورت کے لئے یکجا کیا جائے۔ ان کے درمیان روایتی مناظرے نہیں‘ علمی و فکری تبادلہ خیال ہونا چاہیے۔ فرقہ وارانہ فساد کا اصل مرکز ہٹ دھرمی اور اپنے موقف پر نظرثانی کی اہلیت سے محرومی ہے۔ پاکستانی علمائے کرام‘ اتنے تنگ نظر بھی نہیں ۔ ان گنت مثالیں موجود ہیں‘ جن میں تمام فرقوں کے علمائے کرام نے‘ باہمی بحث و مباحثے کے بعد اتفاق رائے پیدا کیا اور ملت کو تفرقوں سے بچایا۔ قرارداد مقاصد اس کی ایک مثال ہے۔ جس پر تمام فرقوں کے علمائے کرام نے اتفاق رائے کیا تھا اور آج بھی ان نکات پر متفق ہیں‘ جو قرارداد مقاصدکی بنیادوں کا حصہ ہیں۔
----------------------