گزشتہ دنوں وزیراعظم نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شکایت کی کہ دہشت گردی کے خلاف جو مرحلہ وار منصوبہ اتفاق رائے سے تیار کیا گیا تھا‘ اس کے پہلے ہی مرحلے کی کارروائیوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ انہوں نے تمام کارروائیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ کچھ صوبوں میں ان کے نتائج بہتر برآمد ہو رہے ہیں اور کچھ میں کم۔ ابھی کل ہی رینجرز کی طرف سے ایک حیرت انگیز تبصرہ سامنے آیا۔ بقول ایم کیو ایم‘ ان کے چار کارکنوں کو رینجرز نے ہلاک کر کے پھینک دیا۔ جبکہ رینجرز کی طرف سے جواب آیا کہ یہ لوگ ایم کیو ایم کے سیف ہائوس میں روپوش تھے اور انہوں نے اچانک منظرعام پر آ کرکارروائی کرنا چاہی‘ تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کا نشانہ بن گئے۔ اگر ان باتوں کا تجزیہ کیا جائے‘ تو ایک عجیب منظر سامنے آتا ہے۔ ایک تو یہ کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے سیف ہائوسز ہیں۔ جہاں وہ اپنی خواہش کے مطابق روپوش رہ سکتے ہیں اور جب چاہیں برآمد ہو کر‘ کارروائیاں کرنے لگتے ہیں۔ ایم کیو ایم کا الزام ہے کہ اس کے ڈیڑھ سو کارکنوں کو‘ رینجرز نے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے۔ جنہیں وہ لاپتہ کہتے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے میڈیا بریفنگ میں ایک حیرت انگیز پیش کش کی۔ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے تمام گمشدہ کارکن‘ اصل میں رینجرز نے چھپا رکھے ہیں۔ پھر انوکھی ڈیل کی پیش کش کی۔ فرمایا کہ رینجرز ‘ان لاپتہ لوگوں کی گرفتاریاں تسلیم کر لے‘ تو ہم پچھلے سارے حساب ختم کر دیں گے۔ یعنی ہم اپنے مزیدلاپتہ افراد کی برآمدگی کے لئے رینجرز سے کوئی مطالبہ نہیں کریں گے۔ یہ انسانوں کا لین دین ہو رہا تھا یابوریوں کے سودے کہ ہماری اتنی بوریوں کا قبضہ مان لو‘ باقی بوریاں ہم تمہیں معاف کر دیں گے۔ واضح رہے کہ 90ء کے عشرے میں بوریوں کا دھندہ خوب چلا تھا۔ حکومت کہتی تھی کہ ایم کیو ایم اپنے مخالفین کو کاٹ کربوریوں میں بھر کے پھینک دیتی ہے۔پھر حکومتی ترجمان کہتے تھے کہ ہم بھی تمہیں بوریاں بھر کے بھیجا کریں گے۔ انسانیت پر یقین رکھنے والے اس بے رحمانہ لین دین پر تعجب کیا کرتے تھے۔ مگر یہ باتیں سنجیدگی سے کی جاتی تھیں۔ کراچی آپریشن بڑی امیدوں اور دعوئوں کے ساتھ شروع کیا گیا ۔ اس کی منظوری تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے دی تھی اور رینجرز کو ہر طرح کے اختیارات دے دیئے گئے ۔ لیکن جب منصوبے کے مطابق کراچی میں بحالی امن کی مہم شروع کی گئی‘ تو مسائل پوری طرح حل نہ ہو سکے۔
بیوروکریسی کے اپنے طور طریقے ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی لاش دو تھانوں کی حدود میں نہیں آتی۔ یعنی آدھی ایک تھانے کے علاقے میں ہے اور باقی دوسرے تھانے کے علاقے میں‘ تو دونوں تھانے یہ نہیں دیکھیں گے کہ اسے کفنانے دفنانے کا بندوبست کون کرے؟ وہ بحث شروع کر دیں گے کہ اسے کفنانے دفنانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ جب کراچی آپریشن کا فیصلہ ہوا‘ تب بھی یہی جھگڑا چل رہا تھا کہ رینجرز کا دائرہ اختیار کیا ہے اور صوبائی حکومت کا کیا؟ جب اپیکس کمیٹی بنائی گئی‘ تو اس میں یہی طے ہوا تھا کہ سارے فیصلے اتفاق رائے سے کر کے‘ ان پر عملدرآمد کیا جائے گا اور آپریشن کے کپتان ‘صوبے کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ ہوں گے۔ مگر جب کام شروع ہوا‘ تو تکرار ہونے لگی۔ صوبائی حکومت اپنے آئینی اختیارات کا جھگڑا چھیڑ کر بیٹھ گئی اور رینجرز اپنے اختیارات کا۔ اس حقیقت کوکراچی کے تمام شہری بلا امتیاز تسلیم کرتے ہیں کہ شہر میں امن و امان کی صورتحال ماضی کی نسبت بہت بہتر ہو چکی ہے۔ اب لوگ اپنے اہل خاندان کو ساتھ لے کر ‘ رات کے وقت بے خوف و خطر گھروں سے نکلتے ہیں۔ بازار اور مارکیٹیں رات دیر گئے تک کھلی رہتی ہیں۔ سیرگاہوں کی رونقیں بحال ہو گئی ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ میں کمی آ گئی ہے۔ بھتہ مانگنے کی وارداتیں گھٹ گئی ہیں۔ لیکن تکرار بھی شروع ہے کہ کون اپنی حدود سے تجاوز کر رہا ہے؟ رینجرز ‘ کرپشن کے الزام میں کارروائی کرتی ہے‘ تو سیاسی لیڈر‘ اسے اپنے خلاف انتقامی کارروائی قرار دیتے ہیں۔ مثلاً ایم کیو ایم کو مسلسل ایک ہی شکایت ہے کہ اس کے کارکنوں کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ جبکہ رینجرز کا کہنا ہے کہ وہ جرائم پیشہ افراد کو پکڑتی ہے۔ جو طریقہ کار حکومت نے اختیار کیا ہے‘ اس کے تحت کراچی‘ سندھ اور دیگر صوبوں کے مسائل تاقیامت حل نہیں ہو سکتے۔ ایم کیو ایم کا جھگڑا تو پرانا ہے۔ جو مسائل وہ اٹھاتی ہے‘ انہیں دنیا کی کوئی طاقت حل نہیں کر سکتی۔ مولانا فضل الرحمن کی طرح ایم کیو ایم کے تحفظات کا گورکھ دھندہ بھی کسی کی سمجھ میں آنے والا نہیں۔ ان کا حل صرف ایک ہے کہ یا ایم کیو ایم حکومت کو شکست دے کراپنا کنٹرول خود قائم کر لے۔ یا حکومت کے متعلقہ ادارے‘ ایم کیو ایم کی سرگرمیوں پر کنٹرول قائم کر کے‘ اسے غیرموثر کر دیں۔ یہ کہنا کہ دونوں فریق قانون کے دائروں میں رہ کر‘ اپنی اپنی کارروائیاں کریں گے‘ خیال خام ہے۔ جنگوں کے قوانین نہیں ہوتے۔ یوں تو دنیا بھر میں جنگی اصول پائے جاتے ہیں۔ لیکن عملی جنگ میں ان کا احترام کوئی نہیں کرتا۔ جنگ کا قانون صرف ایک ہے کہ یا حریف کو شکست دے دو۔ یا حریف اپنے دشمن کو شکست دے کر بے بس کر دے‘ قوانین کے پیچے لڑائے جائیں گے‘ تو ان کا فیصلہ کبھی نہیں ہو سکے گا۔
ہمارے معاشرے میں کرپشن بری طرح سرایت کر چکی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ‘ منصف کا کردار ادا نہیں کر سکتی۔ یہ کام صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں ہی کی ذمہ داری ہے۔ اگر ان اداروں پر اعتماد کر کے‘ انہیں ذمہ داریاں دی جائیں‘ تو امن قائم ہو سکتا ہے۔ لیکن جب ادارے ہی ہماری پولیس اور بیورو کریسی جیسے ہوں‘ تو پاکستانی معاشرہ کبھی درست نہیں ہو سکتا۔ ہر کسی نے پولیس میں اپنے اپنے کارندے بھرتی کر رکھے ہیں۔ وہ ریاست کے نہیں‘ اپنے سیاسی آقائوں کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اگر نوازشریف کی حکومت ہے‘ تو باقی ساری جماعتیں الزامات لگائیں گی کہ ن لیگ ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے۔ حکومت پیپلزپارٹی کی ہو گی‘ تو یہی الزام ن لیگ لگائے گی۔ جن معاشروں میں برائے نام بھی اخلاقی اور تہذیبی اقدار موجود ہوتی ہیں‘ وہاں طے شدہ اصولوں پر عملدرآمد کا فارمولہ کارآمد ہو جاتا ہے۔ مثلاً بھارت کرپشن میں کسی سے کم نہیں۔ لیکن وہاں مفاد عامہ کے قوانین پر اتفاق رائے ہو جائے‘ تو ان پر آسانی سے عملدرآمد کر لیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہر پارٹی کے لوگ اپنے اپنے دور اقتدار میں جی بھر کے کرپشن کرتے ہیں۔ مگر جب پکڑے جاتے ہیں‘ تو ان کی پارٹیوں کی قیادتیں اپنے مجرموں کے تحفظ کے لئے میدان میں آ جاتی ہیں۔ اس کا تماشہ گزشتہ روز کراچی میں ساری دنیا نے دیکھا۔ حکمران جماعت کے تین لیڈروں پر قانون کے مطابق مقدمہ چلایا گیا۔ عدالتوں نے انہیں سزائیں دیں۔ پارٹی کے سربراہ نے غیظ و غضب سے بھرا ہوا بیان جاری کر کے‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دھمکیاں دیں۔ صوبے کے چیف ایگزیکٹو اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف‘ دونوں سرکاری گارڈز کے ساتھ ‘ سرکاری گاڑیوں میں عدالتوں کے سزایافتہ مجرموں سے ملاقات کے لئے جیل پہنچے۔ وہیں پر انہیں تمام سہولتیں مہیا کرنے کے احکامات جاری کئے۔ سامنے کھڑے ہو کر‘ انہیں جیل میں اعلیٰ ترین کلاس دے کر ‘تمام سہولتیں اپنی آنکھوں کے سامنے مہیا کرائیں اور اس عزم کے ساتھ واپس گئے کہ قوانین کو تہس نہس کرتے ہوئے‘ سزایافتہ قیدیوں کو رہا کرائیں گے۔ ایسے حالات میں کونسا قانون اور کونسی انتظامیہ؟ جیل کا عملہ سزائے قید کوپرتعیش زندگی میں بدلے یا قانون پر عمل کرے؟ ہر سیاسی جماعت اپنے لئے قوانین کی پابندی چاہتی ہے اور مخالفین کو کرپشن کی سزا دینا اپنی ذمہ داری۔ سماجیات کا کوئی بھی ماہر‘ ایسے معاشرے کو سدھارنے کی کوئی ترکیب جانتا ہو‘ تو خدا کے لئے ہمیں بتا دے۔ زیادہ تاخیر کی گنجائش نہیں۔ جب صوبے کا چیف ایگزیکٹو‘ عدلیہ کے سزایافتہ مجرموں کو خود جیل جا کر ‘غیرقانونی سہولتیں مہیا کرے اور پارٹی کا سربراہ‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چیلنج کر دے کہ وہ ان سے اپنا حساب لے کر رہے گا‘ توپھر ایک ہی طاقت باقی رہ جاتی ہے اور وہ ہے فوج۔ لیکن اب ہمارے حکمران طبقے‘ فوج پر بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔آخر میں دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ فوج‘ کرپشن کے تحفظ کے لئے بنائے گئے قوانین کو پامال کرتے ہوئے‘ خود اقتدار پر قبضہ کرلے یا عوام لاقانونیت کی ظالمانہ روایات کو روندتے ہوئے‘ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ ڈس آرڈر کومکمل انتہا تک پہنچائیں اور پھر اس کے اندر سے ضرورتوں کے جبر کے تحت جو آرڈر برآمد ہو‘ اسے اختیار کر لیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ معاشرے میں نظم و نسق دو ہی طریقوں سے برقرار رہتا ہے۔ یا قانون کی پابندی‘ یا مکمل لاقانونیت۔