پیپلزپارٹی کا مسئلہ یہ نہیں کہ وہ قومی سیاست میں دوبارہ برتری کیسے حاصل کرے؟ سیاسی جماعتوں کو ایسے امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے اور پیپلزپارٹی تو بارہا گزری ہے۔لیکن اس کی موجودہ قیادت نے اپنے لئے مشکلات کے دھاگوں کو الجھا کر‘ ایک ایسا گچھا بنا لیا ہے‘ جس کے دھاگے نہ سلجھتے دکھائی دیتے ہیں اور نہ ان الجھے دھاگوں سے کچھ بنتا نظر آرہا ہے۔ جہاں تک پارٹی کا تعلق ہے‘ یہ سرفروشوں اور جاں نثاروں کی پارٹی ہے‘ جو ہر امتحان میں سرخرو ہوئی۔ مار کھا کے بھی ہمت نہ ہاری۔ خصوصاً بھٹو صاحب کے جیل میں جانے کے بعد‘ جب پارٹی اپنے لیڈر کی رہنمائی سے محروم ہوئی‘ تو اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ وہ کدھر جائے؟ بدنصیبی یہ تھی کہ اس کی قیادت کی دوسری صف میں کسی میں اتنی صلاحیت نہیں تھی ‘جو بھٹو صاحب کی طرح ہمہ جہت مشکلات سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈ سکتا۔بھٹو صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں کی آزمائش اس وقت بھی ہوئی‘ جب انہوں نے اپنی پارٹی نہیں بنائی تھی اور اس وقت بھی‘ جب پارٹی بنانے کے بعد‘ سیاسی اتحادوں کے کھیل میں اپنے لئے کوئی جگہ نہ بنا پائے۔ متضاد خیالات رکھنے والے سیاسی گروہوں میں گھلنا ملنا‘ انہیں آتا نہیں تھا اور دیگر جماعتیں ان کی قیادت قبول کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ یہ ان کی آزمائش کا انتہائی کڑا امتحان تھا۔ ایک ایسے وقت میں‘ جب چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتیں‘ آمریت کے سیاسی مقاصد پورے کرنے کی اہل نہیں تھیں‘ اس کے باوجود وہ سب گول میز کانفرنس میں جا بیٹھیں۔ ان کے فوجی سرپرست سمیت کسی کو سیاسی بحران کا حل نہ ملا۔
مشرقی پاکستان سے مولانا بھاشانی اور مغربی پاکستان سے بھٹو صاحب نے اس گول میز کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا۔ توقع کے عین مطابق کانفرنس ناکام ہوئی۔ ایوب خان قائدانہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہے۔ بدحواسی میں اقتدار یحییٰ خان کو منتقل کر کے گھر جا بیٹھے۔ سچی بات ہے‘ ان کی صحت بھی مشکل حالات میں ‘ملکی امور کو دیکھنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ یحییٰ خان کے مقاصد مختلف تھے۔ میرے لئے مناسب ہو گا کہ میں اس کہانی کا پول کھول دوں‘ جس کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ 1970ء کے انتخابات‘ ملکی تاریخ کے سب سے منصفانہ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یحییٰ خان نے ان کا انعقاد اپنے مقصد اور مفادات کے تحت کیا تھا تا کہ کوئی پارٹی فیصلہ کن اکثریت حاصل نہ کر سکے۔ ترپ کے پتے کے طور پر‘ انہوں نے قیوم لیگ کی خدمات حاصل کیں۔ حسب روایت‘ خفیہ ایجنسیوں نے انہیں یقین دلا دیا تھا کہ قیوم لیگ قابل ذکر نشستیں حاصل کر کے‘ سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ ساتھ ہی اس گٹھ جوڑ کو کامیاب بنانے کے لئے‘ جماعت اسلامی کابندوبست بھی کر لیا گیا تھا۔ اس زمانے کے اخبارات کا ریکارڈ دیکھا جائے‘ تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ایجنسیوں کے دیئے ہوئے جو اندازے اور تخمینے‘ میڈیا نے شائع کئے‘ ان میں صرف جماعت اسلامی کو‘ عوامی لیگ اور پیپلزپارٹی سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں دکھایا جاتا تھا۔ جبکہ قیوم لیگ کو دانستہ پس منظر میں رکھا جاتا اور اسے روایتی سیاستدانوںکی حمایت دلا کر‘ یہ انتظام کیا گیا تھا کہ ملک کے دونوں حصوں میں قیوم لیگ 25 سے30 کے درمیان نشستیں حاصل کر کے آجائے اور جوڑ توڑ میں وہی کردار ادا کرے‘ جو یحییٰ خان کی ضروریات کے مطابق ہو۔ نتائج برآمد ہوئے‘ تو سارے انتظامات دھرے رہ گئے اور عوامی لیگ اور پیپلزپارٹی بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو گئیں۔ عوامی لیگ تو کسی تعاون کے بغیر ہی واحد اکثریتی پارٹی بن گئی تھی۔ سیاسی تقاضوں کے مطابق اُسے مغربی پاکستان کی جماعت کی مدد کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لئے مغربی پاکستان کی تین جماعتیں تیار ہو گئیں۔ جب یحییٰ خان نے اسمبلی کا پہلا اجلاس بلانے کا اعلان کیا‘ تو بھٹو صاحب نے دھمکی دے دی کہ مغربی پاکستان سے جو منتخب نمائندے آمریت کو تقویت دینے کے لئے مجوزہ اجلاس میں جائیں گے‘ ان کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ سارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے اور حکومت سازی کے لئے جو کورم درکار تھا‘ پورا نہ کیا جا سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ یحییٰ خان اور اس کے پٹھوئوں نے ‘ بھٹو اور مجیب دونوں کو ناکام بنانے کی خاطر ‘اپنے جوڑ توڑ کے لئے ایک تھرڈ پارٹی کھڑی کرنے کی کوشش کی‘ جسے بلاشبہ شیخ مجیب الرحمن نے سبوتاژ کر دیا اور یحییٰ خان نے اسے مغربی پاکستان میں نمائندگی سے محروم رکھ کے‘ حکومت سازی کے قابل نہ چھوڑا۔ یہ ہے 1970 ء کے عام انتخابات کی اصل کہانی۔ اس دور کے ہارنے والے سیاستدانوں اور ان کے سرپرست یحییٰ خان نے یہ کہانیاں پھیلا دی تھیں کہ 1970ء کے انتخابات منصفانہ تھے۔ حقیقت یہ نہیں۔ بھٹو اور مجیب نے فوجی آمر کو دھاندلی کا موقع ہی نہیں دیا تھا۔ بلاشبہ اس میں عوام کا کردار فیصلہ کن تھا۔
یہ اس پیپلزپارٹی کا تذکرہ ہے‘ جس کی قیادت بھٹو صاحب کر رہے تھے۔ انتقال اقتدار کے مراحل کے دوران‘ طرح طرح کے نازک موڑ آئے۔ بھٹو اور مجیب دونوں کو راستے سے ہٹانے کی سازش بھی تیار کی گئی۔ جس کا انکشاف کرتے ہوئے خود مجیب نے بھٹو صاحب کو بتایا دیا تھا کہ ''یحییٰ خان منتخب حکومت نہیں بنانا چاہتے۔ یہ پہلے مجھے ماریں گے۔ بعد میں تمہیں مار کے‘ اقتدار پر ہمیشہ کے لئے قبضہ کر لیں گے۔ ‘‘حقیقت میں یہی ہوا۔
آج کے حالات مختلف ہیں۔ بظاہر فوج اقتدار ہتھیانے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتی۔ لیکن سیاستدان بدحواسیوں‘ بے مقصد لڑائیوں اور حکومت اپنی جمہوری کارکردگی کو جس بری طرح سے مسخ کر رہی ہے‘ اس میں نہ تو حکمران جماعت کے ہاتھ کچھ آئے گا اور نہ ہی اس کی مخالف سیاسی جماعتیں اپنے لئے کوئی لائحہ عمل تلاش کر سکیں گی۔ بھٹو اور مجیب دونوں کو پتہ تھا کہ یحییٰ خان اقتدار پر قبضہ کرنے کا
خواہش مند ہے۔ لیکن ایک دوسرے کے گریبانوں کی کھینچاتانی کرتے ہوئے‘ آج کے سیاستدان جو کچھ کر رہے ہیں‘ مجھے تو اس میں‘کچھ بھی ان کے ہاتھ لگتا نظر نہیں آتا۔ ایک ایسی کشمکش جو بظاہر کشمکش نہ لگتی ہو‘ اس میں دکھائی نہ دینے والا کردار ‘ہمیشہ اصل کھلاڑی ہوتا ہے۔افسوس کی بات ہے کہ موجودہ سیاستدانوں میں ایک بھی شخصیت قدآور نہیں۔ بھٹو صاحب کو کھلے پیغامات مل رہے تھے کہ ضیاالحق ‘ آپ کو مار دے گا۔ آپ عارضی طور پر ملک سے باہر جا کر وقت گزار لیں۔ مگر وہ نہیں مانے۔ جب انہیں جسٹس صمدانی نے ضمانت پر رہا کیا‘ تو میں کم مائیگی کے باوجود‘ ٹکٹ کا انتظام کر کے‘ تیزی سے کراچی پہنچا۔ ان سے ملاقات کا وقت لیا۔ 70کلفٹن پہنچا (جس میں 71بھی شامل ہو چکا تھا)۔ اندر گیا تو سٹنگ روم میں بھٹو صاحب کے پاس محمودشام بیٹھے تھے۔ انہوں نے وہیں بات کرنا چاہی۔ میں اپنی طرف سے بہت اہم بات کرنے والا تھا۔ وہ مجھے ساتھ لے کر قریبی بیڈروم میں چلے گئے اور کھڑے کھڑے کہا ''بتائو! کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے بات کو سمیٹتے ہوئے عرض کیا ''یہاں سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر انٹرنیشنل سرحدیں شروع ہو جاتی ہیں۔آپ 10منٹ میں انہیں کراس کر کے‘ ملک سے باہر جا سکتے ہیں۔‘‘ بھٹو صاحب نے میری طرف دیکھا اور انجان بنتے ہوئے پوچھا ''اس سے کیا ہو گا؟‘‘ میں سمجھ گیا کہ وہ اس معاملے پراچھی طرح سوچ سمجھ کے فیصلہ کر چکے ہیں۔ وہ میرے نادر اور اچھوتے خیال سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوئے۔ میں اپنا سا منہ لے کر واپس آ گیا اور راستے میں سوچا کہ میں نے اپنی نیک نیتی کا اظہار کر دیا۔ جو بات میرے ذہن میں آئی‘ ایشیا کے عظیم لیڈر کے سامنے‘ تجاویز ہی نہیں‘ پیش کشوں کی صورت میں بھی آ چکی ہو گی۔ مگر وہ پاکستان میں رہ کر ہی حالات کا مقابلہ کرنے کا عزم کر چکے تھے۔ میری ناقص عقل اس سوال کا جواب نہ دے پائی کہ وہ ملک کے اندررہ کر‘ ایک ظالم کے ہاتھوں اپنی موت کا انتظار کیوں کر رہے تھے؟ لیکن جب میں ان کی جانشینی کے دعویدار‘ آصف زرداری کو دیکھتاہوں‘ تو ہنسی آتی ہے۔ ان کے پاس کونسی چیز ہے؟ جسے بچانے کے لئے آصف زرداری وطن چھوڑے بیٹھے ہیں۔پارٹی بھٹو صاحب کی اور حوصلہ رفیع رضا کا۔ واضح رہے‘ اس واقعہ کے بعد مجھے علم ہوا کہ سب سے پہلے بھٹو صاحب کو یہی مشورہ رفیع رضا نے دیا تھا۔ آج آصف زرداری کو‘ ان کے سینکڑوں ساتھیوں نے یہی مشورہ دیا ہو گا اور آصف زرداری نے کسی کو بھی مایوس نہیں کیا‘ پارٹی کے مخلص کارکنوں کے سوا۔بھٹو صاحب جان بچا لیتے‘ تو ہو سکتا ہے ملک اور عوام کے لئے ایک پرامید مستقبل کا چراغ روشن رہ جاتا۔ زرداری صاحب نے اپنی جان بچا کر ملک اور عوام کے لئے کیا بچایا؟بے حساب دولت مندی میں ‘ان کی جھولی آج بھی خالی ہے۔یہ کبھی نہیں بھرے گی۔ہم جس گرداب میں آ گھرے ہیں‘ اس سے بچ نکلنے کی دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ہمارے سٹریٹجک ماہرین‘ بھارت کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دیتے ہیں۔ دھمکی دے کر سارا فیصلہ بھارت پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ چاہے‘ تو ایٹمی جنگ کو روکنے کا بندوبست کر لے۔اگر اس نے کر لیا تو؟