"NNC" (space) message & send to 7575

مسئلہ صرف عامر خان کا نہیں

کلدیپ نیئر بھارت کے سینئر ترین صحافیوں میں سے ہیں۔میرا ان سے دیرینہ تعلق ہے۔ جب بھی پاکستان آتے ہیں‘ گپ شپ ہو جاتی ہے۔ کلدیپ تقسیم کے بعد سیالکوٹ سے ترک وطن کر کے دہلی چلا گیا۔ لیکن اس سرزمین سے اس کا رشتہ آج بھی برقرار ہے۔ کسی خوش فہمی کا شکا ر نہیں ہونا چاہیے۔ اسے فسادات کے نتیجے میں اپنے خاندان سمیت بادل نخواستہ ترک وطن کرنا پڑا اور دلی جہاں جا کر اس نے اپنا ٹھکانا بنایا‘ وہ ایک نئی دنیا تھی۔ جس میں بہت جلد وہ گھل مل گیا۔ اعلیٰ درجے کی ذہانت اور لکھنے کی صلاحیت کے بل بوتے پر دلی کے علمی اور صحافتی حلقوں میں جلد ہی مقبول ہو گیا۔ یہاں تک کہ اسے بھارت کا ہائی کمشنر بن کر لندن میں ذمہ داریاں پوری کرنے کا اعزاز ملا۔اپنی صحافتی اور سفارتی سرگرمیوں کے دوران‘ وہ بھارتی سیاست کے اسرار و رموز سے خوب اچھی طرح واقف ہوا۔ کئی عشروں سے وہ بھارتی شہری ہے۔ فسادات کے بعد جس نفرت نے پاکستان اور بھارت کے باشندوں پر غلبہ پایا‘ کلدیپ بھی اس سے آزاد نہیں۔ بہرحال وہ کوشش کرتا ہے کہ غیرجانبدار قلمکار کی حیثیت میں اظہار خیال کرے۔ لیکن برصغیر کے ہندوئوں اور مسلمانوں میں جو باہمی دوری اور شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں‘ کلدیپ بھی ان سے آزاد نہیں۔ یہ اس کے اختیار کی بات نہیں کہ وہ اپنے ہندو ہونے سے انکار کر دے۔ لیکن بہرحال وہ ایک آزاد منش ہندو ہے۔ گزشتہ دنوں عامر خان کے ساتھ اچانک جو سانحہ ہوا‘ اس تقریب میں کلدیپ نیئر بھی شریک تھا اور وہ لکھتا ہے کہ'' اداکار عامر خان نے وہاں جو کچھ کہا وہ صرف یہ تھا کہ میری بیوی اپنے بچوں کی صحت مند پرورش و پرداخت کے لئے کسی دوسرے ملک میں جانے کا کہہ رہی تھی۔ عامر کے لہجے میں قدرے اداسی تو تھی لیکن مخاصمت نہیں تھی۔ پھر بھی مجھے عامر کے اس جملے پر صدمہ پہنچا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس پر پورے ملک کو افسوس ہوا۔ مجھے اس سے کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ معاملات اس قدر ابتر ہو گئے ہیں کہ عامر جیسا شخص بھی یہ سوچنے لگا ہے کہ کیا انہیں کسی دوسرے ملک میں چلے جانا چاہیے۔ اقلیتی فرقوں کے کم تر حیثیت والے افراد‘ ضرور اس خیال سے دہشت زدہ ہو جائیں گے؟
ملک کے تقریباً پانچ سو فنکاروں اور دانشوروں کے اعزازات لوٹانے کی بات تو سمجھ میں آنے والی ہے۔ یہ غم و غصہ کے اظہار کا ان کا اپنا طریقہ ہے۔ اس حد تک نہ جانے والے افراد بے بسی کے احساس میں شریک ہیں۔
عامر خان کے جملے سے فرقہ پرستوں کو سر جوڑ کر بیٹھنے اور اس پر غور کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے کہ وہ کون سی چیز ہے کہ جس نے اقلیتوں کی پیٹھ دیوار سے لگا دی ہے اور عامر خان کی طرح کے باصلاحیت اور مہذب ترین افراد بھی یہی احساس رکھتے ہیں۔
اس کے بجائے بی جے پی ‘عامر خان پر ٹوٹ پڑی ہے اور انہیں کھلے طور پر گالیاں دی ہیں۔ اس طرح کی فقرے بازیاں کی گئی ہیں کہ ہندوستان نے انہیں بنایا ہے اور وہ اسی کی ناشکری کر رہے ہیں۔ عامر خان نے اپنی محنت سے یہ مقام حاصل کیا ہے اور ملک کے عوام نے ان کی اداکاری کی تحسین و ستائش کی ہے۔
میرے خیال میں ایسی کوئی نئی بات نہیں ہوئی تھی جس پر اس انداز میں رائے زنی کی جاتی۔ لیکن یہ عامر خان کا اپنا طرز احساس ہے۔ میں ان کے احساسات کا احترام کرتا ہوں۔ ہم سب کو اپنے ضمیر کو ٹٹولنا چاہیے کہ عامر خان جیسا ہردل عزیز شخص کیوں ایسا جملہ کہے گا؟ انہیں اس پر ضرور غور کر لینا چاہیے تھا کہ اس کا اثر کیا ہو گا؟ وہ ایک حساس انسان ہیں۔ انہوں نے یہ محسوس کیا ہو گا کہ ملک میں روز بروز بڑھتی ہوئی عدم رواداری ‘ان جیسے شخص کو بھی بے وقعت کئے دے رہی ہے۔ ان کی سیکولراسناد پر شک کیا ہی نہیں جا سکتا اور ان کی زندگی کھلی کتاب ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کے جملے پر ہونے والی بحث ‘صحت مند نہیں ہے۔ بجائے اس کے کہ ان کے اس جملے کے اسباب و وجوہ پر غور کیا جاتا‘ اس پر ہنگامہ شروع ہو گیا کہ انہوں نے ایسا کہنے کی جرأت کیسے کی؟ ایک بار پھر ہندو مسلم روابط کا سوال سامنے آ گیا۔ ہر مسئلے کی پردہ پوشی کے رجحان سے کام نہیں چلتا۔ ماضی میں بھی یہی ہوتا آیا ہے۔ عوام میں اس سوال پر پوری طرح بحث کرنی چاہیے۔ اقلیتوں میں تحفظ کا احساس ہونا چاہیے۔ جو کچھ وہ سمجھتے ہیں اس کی اہمیت ہے نہ کہ اکثریت کی رائے زنی کی۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک کی تقسیم اب بھی موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے۔ بٹوارہ ایک حقیقت ہے۔ اس فارمولے کو جواہرلعل نہرو اور سردار پٹیل نے قبول کیا تھا‘ جو اس وقت آزاد حکومت کے قائدین تھے۔ یہ سچ ہے کہ تقسیم کو قبول کرنے میں انہیں پس و پیش تھا۔ لیکن جب اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ایٹلی نے کہا کہ وہ کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان سمجھوتے کے بغیر رخصت ہو جائیں گے ‘تو نہرو اور پٹیل نے حقائق کا سامنا کرتے ہوئے تقسیم سے اتفاق کر لیا۔ چاہے یہ بادل نخواستہ ہی ہوا ہو۔
یہ بات درست ہے کہ مذہب کی بنیاد پر کھینچی گئی لکیر نقصان دہ رہی ہے کیونکہ اس سے دو بڑے فرقوں یعنی ہندوئوں اور مسلمانوں میں ٹکرائو پیدا ہو گیا۔ لیکن یہ برطانوی سامراج کے ملک چھوڑنے کی قیمت بھی تھی‘ جو عوام کو ادا کرنی پڑی۔پریشان کن پہلو یہ ہے کہ برطانوی اقتدار کے بعد دونوں ملک یعنی ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے دوست کے بجائے پکے دشمن بن گئے۔ اس کے لئے دونوں طرف کے سیاستدان ذمہ دار ہیں۔ 
آزادی کی تحریک میں قائدانہ کردار ادا کرنے والی پارٹی کانگریس کو عوام کے سامنے اس کی وضاحت کرنی چاہیے تھی کہ دو قومی نظریے کو عموماً باور کرا دیئے جانے کے بعد تقسیم کا کوئی متبادل کیوں نہیں رہ گیا تھا؟ بانی پاکستان محمد علی جناح کی توجیہ یہ تھی کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔ انہوں نے مذہب کو قومیت کی بنیاد بنا دیا۔ 
اقتدار کی منتقلی کا عمل برائے نام ہی پرسکون تھا۔ رہنمائوں کی طرف سے امن و دوستی کی یقین دہانیوں کے باوجود دونوں طرف کے عوام نے اپنے فرقے والوں کے ملک میں پناہ لینے کے لئے گھر بار کو خیرباد کہہ دیا۔ تاریخ میں اس سے پہلے اتنے بڑے پیمانے پر خون خرابہ کبھی نہیں ہوا تھا۔ دونوں فرقوں کے تقریباً ایک کروڑ افراد مارے گئے اور اس سے کئی گنا زیادہ افراد بے گھر ہو گئے۔ 
آج تک زخم بھر نہیں پائے ہیں۔ دونوں ملکوں نے تین بے فیصلہ جنگیں لڑی ہیں اور دیرپا امن کے قیام کا کوئی امکان نہیں۔ مسلمان‘ ہندوستان میں اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ اگرچہ ان کی آبادی 15کروڑ سے زیادہ ہے اور ہندوئوں کی آبادی پاکستان میں 2 فیصد سے کم ہے۔
آزادی کے بعد پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ وہ اسلامی ریاست ہو گا اور اس کے مطابق اس نے اپنا آئین وضع کیا۔ ہندوستان نے سیکولر ریاست رہنے کا انتخاب کیا۔ اپنی 80 فیصد کی آبادی کے باوجود ہندوئوں نے ایسے آئین کی بالادستی کو ترجیح دی ‘جس نے خود ہی سیکولرازم کو تمہید کی حیثیت دی۔ قانون کی نظروں میں سب برابر ہیں اور کوئی ہندوستانی دوسرے سے مذہب کی بنیاد پر کمتر نہیں ہے۔ تاہم ملک کے انتظامی امور میں مسلمانوں کی اہمیت بہت ہی کم ہے۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں