"NNC" (space) message & send to 7575

درد کی داستان (آخری قسط)

''جس کا مطلب ہے کہ جب تک اقوامِ متحدہ اْن کے معاملات کی چھان بین کا عمل مکمل نہیں کرلیتا اْس وقت تک انہیں نہ تو گرفتار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی پناہ گزینی کی تلاش کے جْرم میں پابندِ سلاسل کیا جاسکتا ہے۔پہلے میں نے صابر نامی ایک شخص سے ملاقات کی جو دو سال قبل پاکستان سے اپنی بیوی لیلیٰ، دوبیٹیوں، لیلیٰ کے والدین، لیلیٰ کے بہن بھائیوں اور اْن کے دادا، دادی، نانا، نانی کے ہمراہ فرار ہوکر یہاں آئے۔ وہ تمام دس افراد لیلیٰ کے گذشتہ ماہ گرفتار ہونے تک ایک چھوٹے اور کم گنجائش والے کمرے میں رہتے تھے جس میں نہ باورچی خانہ ہے اور نہ ہی بیت الخلا ہے۔صابر نے اپنی بیوی کو تب سے نہیں دیکھا اور سسکیاں لیتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنی بیوی کے بغیر برباد ہوگیا ہے۔ تاہم اْنہیں پاکستان چھوڑنے پر کوئی افسوس نہیں ہے ،جہاں اْن کے مطابق ایک گروہ اْن کے خاندان کو مذہب اسلام اختیار نہ کرنے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہا تھا۔انہوں نے بتایا 'یہاں ہمیں اگر کوئی خوف ہے تو وہ صرف امیگریشن پولیس کا ہے‘ اس کے علاوہ کوئی خوف نہیں۔‘
لیکن اقوامِ متحدہ سنہ 2018 تک اِن کے کیس کی تحقیقات نہیں کرے گا۔ اْن کا کہنا ہے کہ انہیں بتایاگیا کہ ایسے کیسوں کا انبار لگا ہوا ہے۔بی بی سی کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے یو این ایچ سی آر نے تسلیم کیا کہ وہ جدوجہد کررہے ہیں۔لیکن یو این ایچ سی آر نے کہا کہ اْس نے گذشتہ چھ ماہ کے دوران 400 سے زائد افراد کو 'جو یواین ایچ سی آر کے قوانین کے دائرہ کار میں آنے والے لوگ تھے، رجسٹری شدہ پناہ گزینوں کی حیثیت کے طور پر منوانے کے بعد گرفتاری سے بچایا ہے۔ تاہم تھائی لینڈ کی حکومت کو شکایت ہے کہ اقوام متحدہ کی عدم توجہی اْن کی حفاظت پر دوررس اثرات مرتب کررہی ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ایک بڑی تعداد میں تارکینِ وطن کی گرفتاریوں کی وجہ سے تھائی لینڈ کو ایک خوف یہ بھی ہے کہ پاکستانی مہاجرین دہشت گردی میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ کوئی بھی شخص جسے گرفتار کیا جاتا ہے ‘جیسے کہ صابر کی بیوی کی مثال لے لیں تو اس گرفتار شدہ شخص کو بینکاک کے گندے اور لوگوں سے کھچا کھچ بھرے امیگریشن حراستی مرکز لے جایا جاتا ہے۔اندر صحافی اور کیمرے لے جانے کی اجازت نہیں ہے لیکن قیدیوں کے لیے انتہائی ضروری تازہ پانی اور کھانے لے جانے والے رضاکاروں کو داخلے کی اجازت ہے اور اسی طرح سے میں بھی بی بی سی کے عملے کے دیگر ارکان کے ہمراہ وہاں داخل ہوا۔ تلاش پْروف خفیہ کیمرے پہنے ہم بے چینی سے حفاظتی چیک پوائنٹس سے گزرے اور تلاشی لینے والے چوکیداروں کو اپنا پانی اور کھانا تھمایا۔ہمیں ایک بڑے، حبس زدہ کمرے میں لے جایا گیا جو پناہ گزینی کے خواہشمند سینکڑوں افراد سے بھرا ہوا تھا جو اپنے چہرے ایک تار سے بنی اندرونی رکاوٹ سے چپکائے کھڑے تھے۔ وہ تقریباً تمام پاکستانی ہیں۔ دن میں ایک گھنٹے کے لیے 200 کے قریب قید پناہ گزینوں کو اْن کے سیل سے ملاقاتیوں سے ملنے کے لیے باہر نکالا جاتا ہے۔وہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ ہم بی بی سی کے صحافی ہیں۔ مرد نیم عریاں تھے اور انھوں نے ہمیں اس کی وجہ یہ بتائی کہ کھچا کھچ بھرے ہوئے اِن قید خانوں میں خود کو ٹھنڈا رکھنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔خواتین نے مضبوطی سے اپنے بچوں کو تھام رکھا تھا۔ زیادہ تر خواتین اس بات کی شکایت کررہی تھیں کہ اْن کے بچے صفائی سْتھرائی کی خراب صورتحال اور پینے کے گندے پانی کی وجہ سے ہیضہ اور قے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔کمروں میں بے حد شور مچا ہوا تھا کیوں کہ قیدی وہاں آنے والے امدادی کارکنوں سے اپنی رہائی میں مدد کرنے کی اپیل کررہے تھے لیکن کارکن اْنھیں صرف اور صرف پینے کا صاف پانی اور کھانا ہی فراہم کرسکتے تھے۔ایک ماں نے مجھے بتایا کہ وہ گذشتہ تین ماہ سے اپنے بچوں کے ہمراہ یہاں قید ہیں۔ اْنہوں نے بتایا میرا چھوٹا بچہ تین سال اور بڑا بچہ دس سال کا ہے۔ اْنہیں یہاں رہنے میں بہت مشکلات کا سامنا ہے اور وہ بہت بیمار پڑ رہے ہیں۔تھائی لینڈ کی حکومت کا کہنا ہے کہ والدین اکثر خود اپنے ساتھ اپنے بچوں کو حراستی مرکز میں رکھنے کا انتخاب کرتے ہیں۔
باوجود اس کے کہ تھائی لینڈ نے اقوامِ متحدہ کے بین الاقوامی قوانین پر دستخط کیے ہیں جن کے تحت قیدیوں کے ساتھ شفیق رویہ روا رکھا جائے گا اور بالخصوص بچوں کو بالغوں کے حراستی مراکز سے باہر رکھا جائے گا۔جتنے بھی قیدیوں سے میں نے بات کی اْن میں سے کسی کو بھی اْن کی حراست سے لے کر اب تک یو این ایچ سی آر کی جانب سے قانونی مدد فراہم نہیں کی گئی۔19 سالہ ندیم جنہوںنے اپنے بازوئوں میں اپنے چھوٹے سے کزن کو اْٹھا رکھا تھا، نے مجھے بتایا کہ ہمیں اقوامِ متحدہ پر اعتماد نہیں ہے۔ ہمیں صرف خدا پر اعتماد ہے۔ وہ ہمیں آزادی دے گا۔‘انہیں قید سے باہر نکالنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مقامی خیراتی ادارے تھائی حکام سے ضمانت کی درخواست دائر کریں۔ ایک شخص کی رہائی پر 1250 ڈالر لاگت آتی ہے۔ اس لیے وہ جنہیںسب سے کمزور تصور کرتے ہیں یہ عمل صرف اْن کے لیے کرتے ہیں۔
زیرِحراست افراد کے متعلق کوئی قانونی اعداد وشمار موجود نہیں ہیں لیکن مہم کاروں کا کہنا ہے کہ وہ ہر ماہ سینکڑوں کی تعداد میں بڑھ رہے ہیں۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ گذشتہ سال مارچ میں صرف ایک روز کے دوران 132 پاکستانی عیسائیوں کو گرفتار کیا گیا۔ تھائی لینڈ میں 11 ہزار 500 پاکستانی پناہ گزینوں کا تخمینہ لگایا جاتا ہے جو میانمار کے علاوہ دنیا میں کسی بھی ملک میں پناہ گزین افراد کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
اچانک مجھے وہ خاتون مل گئیں جن سے ملنے کی مجھے اْمید تھی۔ حفاظتی حصار کی دوسری جانب صابر کی بیوی لیلیٰ موجود تھیں۔ یہ ایک جذباتی قسم کی ملاقات تھی۔ وہ یقینی طور پر اپنے خاندان کو دیکھنے کے لیے بہت بے چین تھیں۔ انہوںنے ملتجیانہ انداز میں کہا میں اْنھیں بہت یاد کرتی ہوں، میری بیٹیوں کو یہاں لے آئیں تاکہ میں اْن کے چہرے دیکھ سکوں۔ لیکن مستقبل میں اپنی بیٹیوں کو دیکھنے کا صرف ایک ہی راستہ اْن کے پاس ہے اور وہ یہ ہے کہ اْنھیں بھی گرفتار کرلیا جائے۔
بی بی سی کو ایک بیان دیتے ہوئے یو این ایچ سی آر کا کہنا تھا کہ وہ تھائی حکومت کے ساتھ مل کر مسئلے کا حل نکالنے کے لیے کام کررہے ہیں۔ 'بین الاقوامی قانونی اصولوں کے مطابق بہتر اور مزید رحم دلانہ انتظام بنانا بہت ضروری ہے۔تھائی حکومت کا اصرار ہے کہ عالمی انسانی اصولوں پر مبنی ہر ممکن بہترین دیکھ بھال فراہم کرنے کی پْوری کوشش کررہی ہے۔اس کے باوجود کچھ پاکستانی عیسائیوں اور اْن کے بچوں کو بہت خراب صورتحال کا سامنا ہے۔ وہ جو 4000 بھات ادا کرنے کے قابل نہیں اْنھیں گرفتار کرکے تھائی لینڈ کی بدنامِ زمانہ جیلوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ایسا ہی گذشتہ ماہ 20 پاکستانی خواتین، بچوں اور مردوں کے ایک گروہ کے ساتھ ہوا۔ خواتین کے علاوہ مردوں کے سر مونڈ دیے گئے اور اْن کے ٹخنوں اور ہاتھوں کو باندھ دیا گیا۔اْن کے ایک کلاس فیلو ڈینیئل نے جب بتایا کہ اْن کی تلاشی کس طرح لی گئی تو وہ بتاتے ہوئے رو پڑے ‘ہمیں پہننے کے لیے جو کچھ دیا جاتا تھا وہ صرف کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا۔ایک مقامی مسیحی مْبلغ نے آخرکار اْنہیں اس قید سے رہائی دلائی۔ لیکن قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ڈینیئل اب بھی اْن کے لیے دعا کرتے ہیں اور انہیںمعاف کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں