"NNC" (space) message & send to 7575

جمہوریت کی ڈگمگاتی نائو

سارے شور‘ ہنگامے اور تحقیق کے بعد پاناما لیکس کی جو اصل کہانی سامنے آ رہی ہے‘ اس میں اپوزیشن اور وزیر اعظم کے موقف میں زیادہ فرق دکھائی نہیں دے رہا۔ کہانی‘ ابتدائی خبر کے ساتھ ایک دم میڈیا پر چھا گئی۔ جس صحافی نے رپورٹ تیار کی‘ اس نے گزشتہ روز ایک پاکستانی ٹی وی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے وضاحت کی کہ آئی سی آئی جے‘ جو کہ ایک گلوبل نیٹ ورک ہے‘ نے اپنی ایک خبر میں پرائم منسٹر نواز شریف کا نام شامل کیا ہے۔ ہم نے اس خبر کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا‘ جس میں یہ کہا گیا ہو کہ پرائم منسٹر کا نام غلطی سے شائع ہو گیا۔ جیرارڈ رائل نے اس کی بھی تردید کی کہ آئی سی آئی جے نے اس خبر کی اشاعت پر معافی مانگی تھی۔ رائل نے اس دعوے کی بھی تردید کی ہے کہ آئی سی آئی جے نے کوئی معافی نامہ جاری کیا ہے۔ ''ہم نے کوئی معافی نامہ جاری نہیں کیا۔ میں یہ خبریں پڑھتا رہا ہوں۔ یہ تمام خبریں گمراہ کن ہیں‘‘۔ جب جیرارڈ رائل سے دریافت کیا گیا کہ وزیر اعظم آف شور پراپرٹیز کو کنٹرول کرتے ہیں‘ جو کہ ان کے بیٹوں اور بیٹی کے نام پر ہیں‘ تو انہوں نے مزیدکہا ''میں نے کبھی یہ نہیں کہا۔ جو شائع ہوا وہ قطعی طور پر نہیں کہا۔ میں نے صرف یہ کہا کہ بچوں کی آف شور انڈسٹری ہے اور میں نے پبلک انٹرسٹ میں یہ کہا کہ یہاں دو بچے ہیں‘ جن کی کمپنیوں کا تعلق لندن کی پراپرٹی سے ہے‘‘۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آئی سی آئی جے تردیدوں کے ذریعے کیا کہہ رہی ہے؟ تو جیرارڈ نے جواب دیا ''ہم نے کوئی معافی نامہ جاری نہیں کیا اور نہ ہی کوئی بیان جاری کیا ہے۔ جو واحد بات ہم نے کہی ہے‘ وہ اپنی خبر کو اپ ڈیٹ کرنے کے لئے کہی۔ ہم نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ کمپنیوں کی ملکیت بچوں کی ہے۔ جب ہم نے خاندان کا موقف معلوم کرنا چاہا تو انہوںنے یہ کہہ کر تبصرے سے انکار کر دیا کہ دستاویزات ہمارا داخلی ریکارڈ ہیں۔ موساک فونسیکا کمپنی نے پاناما میں آف شور کمپنیاں قائم کیں‘‘۔ 
جیرارڈ کی وضاحتوں میں وہ ساری احتیاطیں موجود ہیں‘ جو وزیر اعظم کی طرف سے کی جاتی ہیں‘ لیکن جیرارڈ کا زور اس پر رہا کہ ان کی کمپنی نے اپنی خبروں پر کوئی معذرت نہیں کی۔ یاد رہے یہاں ایسا تاثر دیا گیا تھا‘ جس پر جیرارڈ کو وضاحت کرنا پڑی کہ ان کی کمپنی نے کسی طرح کا معذرت نامہ جاری نہیں کیا‘ لیکن سوال جواب کے اس سلسلے میں ایک بات کھل کر سامنے آ گئی کہ آف شور کمپنیز موجود ہیں‘ جن کا لندن کی پراپرٹیز کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔ جب یہ سارے کنٹریکٹ سامنے آئیں گے‘ تب معلوم ہو سکے گا کہ ان کمپنیوں کی اصل ملکیت کس کے پاس ہے؟ لیکن جو کچھ عالمی مالیاتی قوانین کے حوالے سے پڑھنے میں آیا ہے‘ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ عالمی طور پر ایسا کوئی 
قانون موجود نہیں‘ جس میں نجی کاروبار کرنے والوں کے معاملات کی چھان بین کی جا سکتی ہے۔ سرمایہ کاروں کا وہ کلب‘ جس کا میں گزشتہ کالموں میں ذکر کر چکا ہوں‘ اپنے ملکوں میں اتنا بااثر اور طاقت ور ہے کہ حکومتوں کی پالیسیوں پر براہ راست اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اگر پاکستانی کمپنیوں کے کاغذات منظرعام پر آ گئے‘ تو آف شور کمپنیوں کا سارا بھرم ہی کھل جائے گا۔ آئندہ ان کے ساتھ کاروبار کون کرے گا؟ ناجائز سرمائے کو خفیہ رکھنے والے ادارے ہی ختم ہو گئے‘ تو سارا سرمایہ دارانہ نظام زمین بوس ہو کر رہ جائے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ موجودہ حالات میں اکانومی کا جو نقشہ ہے‘ اس میں کوئی بڑی تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ سوال صرف ہمارے وزیر اعظم کے بچوں کا نہیں‘ پوری سرمایہ دار دنیا کے مفادات خطرے میں ہیں۔ میں شروع میں ہی لکھ چکا ہوں کہ یہ محض وزیر اعظم کی مخالف لابی ہے‘ جو خوش فہمیوں کی بنیاد پر انہیں اقتدار سے باہر کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کو عالمی قوانین کی لپیٹ میں لا کر اگر کسی طرح لاجواب کیا جا سکتا ہے‘ تو وہ اس کے دبائو میں آ کر اپنا منصب چھوڑ سکتے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم کو جتنا میں جانتا ہوں‘ وہ امید کی آخری کرن تک مزاحمت کریں گے۔ وہ اپوزیشن کو آخری لمحے تک تھکا کے‘ بے بس کرنا چاہیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا‘ تو مظلوم بن کر‘ مخالفین کے جذبات ٹھنڈے کر دیں گے اور اپنے لئے مزید حمایت حاصل کر کے‘ دوبارہ اقتدار میں آنے کی راہ نکال لیں گے۔ ان کے جانے کا راستہ صرف پاکستانی ہے‘ جس سے ہم سب کی آشنائی ہے۔ دیکھنے والے احتیاط سے جائزہ لے رہے ہیں کہ عوام میں وزیر اعظم کی مقبولیت کا درجہ کیا ہے؟ تادم تحریر جناب وزیر اعظم کو اس درجے کی مقبولیت حاصل نہیں کہ انہیں اقتدار سے نکالنے والی طاقتوں کی مزاحمت ہو سکے۔ قدرت نے انہیں یہ صلاحیت فراخ دلی سے عطا کی ہے کہ وہ جب چاہیں مظلومیت کا تاثر پیدا کر کے‘ مخالفین کے جذبہء ہمدردی کو ابھار سکیں‘ لیکن یہ خارجی حالات کے منفی اثرات پر منحصر ہے کہ وہ کتنے موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی سیاسی برادری اپنے دفاع کا ٹھیک سے انتظام نہیں کر پائی۔ پہلے ہی امتحان میں صرف سات آٹھ سال کے اندر اپنے سیاسی نظام کے سارے دفاعی انتظامات کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں سیاسی حکمران‘ ایک نظام کے تحت محفوظ رہ سکتے ہیں۔ وہ نظام یہ ہے کہ بھارت جیسے ترقی پذیر ملک سے لے کر امریکہ تک عوام کو یہ احساس رہتا ہے کہ وہی مقتدر قوتوں کو طاقت مہیا کرتے ہیں اور یہ قوتیں ان اہل سیاست پر مشتمل ہوتی ہیں‘ جو انتخابی مقابلہ آرائی میں اکثریت کے ووٹ لے کر فتح یاب ہوتی ہیں‘ لیکن بھارت کے حکمران طبقے انتہائی پُرخطر راستے پر چل نکلے ہیں۔ ریاستی طاقت پر سرمایہ داروں کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ اہل اقتدار کا دائرہ اختیار سمٹ رہا ہے اور حالیہ انتخابات میں یہ نریندر مودی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ میڈیا اور معاشرے کے بااثر حلقوں میں سرمایہ داروں کے اثرات گہرے ہیں اور موجودہ حکمران ٹولے کے پاس وسیع تر عوامی ہمدردیاں ختم ہو رہی ہیں۔ اگر فتح کے نشے میں پسپائی اختیار کرنے والے حکمران طبقوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے‘ تو وہ باہمی سیاسی لڑائیوں میں منتشر ہوتے جائیں گے۔ کوئی بھی پارٹی ملک گیر انتخابی فتح حاصل نہیں کر پائے گی۔ سیاسی برادری ٹکڑوں میں بٹ کر رہ جائے گی۔ جس کے کچھ مظاہرے ابھی سے دکھائی دینے لگے ہیں۔ اس وقت کوئی بھی جماعت ملک کے غالب حصے میں صوبائی حکومتیں نہیں چلا رہی۔ صرف یو پی اور بہار میں جو کہ بھارت کے تیسرے حصے پر مشتمل ہے‘ بی جے پی کی مخالف سیاسی طاقتیں برسر اقتدار ہیں۔ اگر بھارت کی سیاسی برادری اسی طرح کمزور ہوتی گئی‘ تو پھر غیر سیاسی قوتوں کا زور پکڑنا آسان ہو جائے گا۔ آج بھی وہاں کی فوج کا سربراہ‘ وزیر اعظم کے احکامات کی برملا خلاف ورزی کر دیتا ہے۔ جب بھارتی وزیر اعظم نے سیاچن پر کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا کہ ہم اسے غیرفوجی علاقہ قرار دینا چاہتے ہیں‘ تو فوراً ہی فوج کے سربراہ نے اسی مقام پر جا کر اعلان کر دیا تھا کہ ہم ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے۔ اسی طرح شرم الشیخ میں ہمارے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے باہمی تعلقات میں توازن لانے کے لئے تجاویز پیش کیں‘ جنہیں بھارتی وزیر اعظم نے تسلیم کر لیا تھا‘ مگر واپس جاتے ہی‘ ان کی پارٹی کی بااثر شخصیتوں نے کھلے ایوان میں انہیں کڑی تنقید 
کا نشانہ بنایا اور جو کچھ شرم الشیخ میں طے ہوا تھا‘ اسے مسترد کر دیا۔ ہم ان مراحل سے گزر چکے ہیں۔ سیاسی طاقتوں کو بارہا‘ غیر سیاسی طاقتوں کے سامنے پسپا ہو کر انتشار کی لپیٹ میں آنا پڑا۔ آج انتخابی عمل عوام کی نظروں میں بے وقار ہو چکا ہے۔ انتخابی ہارجیت پر الیکشن کمیشن کا کنٹرول ہے اور سیاستدان‘ عوام کی طرف دیکھنے کے بجائے‘ الیکشن کمیشن سے مہربانی کی توقعات رکھتے ہیں اور اسی کی حمایت حاصل کرنے پر اپنی قوتیں صرف کر دیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن بھی جمہوریت کو کمزور اور بے اثر کرنے میں مصروف ہے۔ ہمارے ہاں 1958ء والی صورتحال پھر پیدا ہونے لگی ہے۔ آف شور سرمایہ کاری کا سکینڈل کہیں رہی سہی جمہوریت کا دم نہ گھونٹ دے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں