"NNC" (space) message & send to 7575

دہشت گردوں کا قیدی

یہ ساڑھے چار سال کی اذیت ناک اور قسط وار قید کی ایک ایسی کہانی ہے‘ جس میں اغواکاروںنے مغوی کی فیملی سے تاوان پر طویل عرصے تک سودے بازی بھی کی اور دام بڑھانے کے لئے مغوی کو ایسی ایسی اذیتیں دیں کہ ایک عام آدمی بھی ان کی تفصیل سن کر لرز جائے۔ جبکہ اصل واقعات میںجدائی کی ماری ماں تھی‘ جسے تڑپانے کے لئے بتایا جا رہا تھا کہ ''آج ہم نے تمہارے بیٹے کے ہونٹ سی دیئے ہیں۔ آج ہم نے زنبور (پلاس) سے اس کی پشت کا گوشت نوچا ہے۔‘‘وہ ہر بار ایک نئی اذیت سوچ کر اپنے شکار پر تجربہ کرکے‘ ماں کو اس کی اطلاع دیا کرتے۔ وہ صرف تاوان ہی نہیں مانگ رہے تھے‘ قید میں پڑے ہوئے اپنے ساتھیوں کی رہائی بھی چاہتے تھے‘ جو اس کی ماں کے بس میں نہیں تھا۔لیکن ماں کسی ایسے انتظام پر اصرار کر رہی تھی‘ جس کے تحت تاوان اور مغوی کا تبادلہ اطمینان بخش طریقے سے ہوجائے۔ لیکن اغوا کاروں کی نیت کچھ اور تھی۔ وہ مغوی کو بھی ٹھکانے لگانا چاہتے تھے اور تاوان کی رقم بھی وصول کرنے کے خواہش مند تھے۔ یہ قصہ شہبازتاثیر کی اس اذیت ناک قید کا ہے‘ جو ساڑھے چار سال کو محیط ہوئی۔ یہ ایسی قید تھی‘ جو پہلے دن سے ہی نہیں سنائی گئی۔ قیدی کو کبھی معلوم نہ ہوا کہ اس کی آزادی کے لئے کونسا دن مقرر ہے؟ تشدد‘ تنہائی اور جدائی‘ یہ تین ہتھیار تھے‘ جو شہباز پر آزمائے گئے۔ آگے شہباز کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ فرمایئے۔
''26 اگست 2011ء ایک عام سا دن، دفتر جانے کے لیے وہی پرانا راستہ اور ذہن میں گردش کرتے ہوئے وہی عام سے خیالات۔ سامنے ایک گاڑی راستہ روکے ہوئے ہے۔ میں اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ جب وہ میری کنپٹی پر پستول رکھتے ہیں تب کہیں جا کر مجھے احساس ہوتا ہے کہ میری دنیا تہہ و بالا ہونے کو ہے۔
8 مارچ 2016ء یہ کوئی عام دن نہیں ہے۔ میں جس موٹر سائیکل پر سفر کر رہا ہوں وہ پکی سڑک پر چڑھ جاتی ہے اور مجھے معلوم ہے کہ یہ راستہ آزادی کی منزل کی طرف جاتا ہے۔ دو سڑکیں اور ان کے درمیان ساڑھے چار سال کا لمبا، مشکل سفر۔
اِغوا ہونے کے تیسرے ماہ تک میں جان چکا تھا کہ یہ کوئی عام اِغوا برائے تاوان نہیں۔ میرے اغوا کارروں نے پنجاب کے سابق گورنر کے بیٹے کو اٹھا کر ایک پوائنٹ سکور کیا تھا۔ یہاں پیسے سے کہیں بڑھ کے داؤ پر لگا ہوا تھا۔ وہ مختلف جیلوں میں قید اپنے ''بھائیوں‘‘کی رہائی چاہتے تھے۔مجھے معلوم تھا کہ راستہ کٹھن ہو گا اور میری رہائی میں وقت لگے گا۔ ایسے تاریک لمحات میں آپ بڑی آسانی سے مایوسی کے سمندر میں ڈوب سکتے ہیں۔ اس سے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو کسی بات سے جوڑے رکھیں۔ میرے لیے یہ بات میرے والد کی یادیں تھیں۔ ان کی بہادری، ارادوں کی پختگی اور اپنی سوچ کی خاطر ڈٹ جانا۔ انہوںنے ایک آمر کے خلاف تشدد اور قیدِ تنہائی برداشت کی اور اس صورت حال سے مزید مضبوط بن کر نکلے۔ (آمریت میں انہیں لاہور کے شاہی قلعے میں لے جا کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔کالم نگار)میں نے اپنے آپ کو سمجھایا کہ اگر وہ سرخرو ہو کر نکل سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں؟ پھر مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ میرا خاندان مجھے واپس لانے کے لیے سب کچھ کرے گا۔ میرے گھر والے امید کا دامن تھامے رہیں گے۔ اس کے علاوہ میرا ایمان تھا اور قرآن مجید۔ اس میں بہت تسکین تھی، آرام تھا، جس نے میری سوچ کو تقویت پہنچائی کہ خدا میرے ساتھ ہے اور آزادی کا ایک دن ضرور آئے گا۔
جسمانی اذیت چوتھے ماہ شروع ہوئی۔ میرے ازبک اغوا کندگان کو ایذارسانی میں عجیب مزا ملتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب میں زیادہ عبادت کرتا اور اس سے راحت پاتا تھا۔ میں دعا کرتا تھا کہ اس دن اور اس کے اگلے دنِ‘درد کی دھار کند ہو جائے۔ میں درد کو اس وقت تک برداشت کرنے کی دعا کرتا تھا، جب تک خود، درد پہنچانے والے کمزور نہ پڑ جائیں۔ میں اپنے والد کے بارے میں سوچا کرتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اگر آپ جسمانی درد سے اپنی روح کو متاثر نہ ہونے دیں تو یہ محض سطحی ہوتا ہے۔ میں نے اسی خیال کا دامن تھامے رکھا اور امید کبھی نہیں ہاری۔ امید کا دامن آپ کبھی نہیں چھوڑ سکتے۔میرے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ کس چیز کو برداشت کرنا زیادہ مشکل تھا، جسمانی مارپیٹ یا پھر وہ ذہنی داؤ پیچ‘ جو وہ میرے ساتھ لڑاتے تھے۔ وہ مجھے میرے خاندان کی ٹویٹس دکھاتے اور کہتے کہ ''یہ دیکھو وہ تمہیںبھول گئے ہیں یا تمہارے ساتھ جھوٹ بول رہے ہیں اور دیکھو کہ تمہاری والدہ کو نشانہ بنانا کتنا آسان ہے۔‘‘وہ ہمیشہ میرے دماغ میں شک کے بیج بونے کی کوشش کرتے کہ کوئی میرے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے اور میری رہائی کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا۔ انہوںنے میری بیوی کی کعبے میں تصویر کو منافقت کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے میرا کچھ خیال نہیں ہے۔ میری بہن کی نیلسن منڈیلا کی موت پر‘ پوسٹ کو اس طرح پیش کیا کہ دیکھو وہ ایک کافر کی پوجا کرتی ہے۔ میرے بھائی کی ایک سماجی تقریب میں تصویر سے، وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ تمہارا خاندان کتنی بے راہ روی کا شکار ہے؟تاہم انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ سب باتیں مجھے مزید تقویت بخشتی ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ میرا خاندان ٹھیک ہے، مجھے معلوم تھا کہ وہ اور کئی لوگ میرے لئے دعائیں کر رہے ہیں اور مجھے ہرگز نہیں بھولے۔ پھر میرے اندر نیلسن منڈیلا کی 'آزاد سپرٹ‘ کو اپنانے کا عزم تھا۔ میں نے عہد کیا کہ میں بھی ایک نہ ایک دن، ان کی طرح آزادی حاصل کر لوں گا۔قید تنہائی، اکیلا پن، شک اور اضطراب ذہن پر عجیب اثرات چھوڑ سکتے ہیں۔ آپ اپنے ذہنی توازن پر شک کرنے لگتے ہیں۔ وہ چہرے جنہیںآپ پیار کرتے ہیں دھندلے پڑنے لگتے ہیں۔ وہ آوازیں جو آپ اکثر سنا کرتے تھے، بھولنے لگتی ہیں لیکن یادوں کا اپنا ایک جادو ہے۔ یہ زمان و مکان سے ماورا ہوتی ہیں۔ میں گھر نہیں جا سکتا تھا لیکن گھر کو تو اپنے پاس بلا سکتا تھا۔ وہ جگہیں جہاں میں جایا کرتا تھا، وہ میری یاد میں آ کر اور پرمسرت ہو جاتی تھیں۔ میں ان پرسکون جگہوں پر رہنے والے لوگوں سے دھیمی دھمی گفتگو کیا کرتا تھا جو اندھیرے کو دور رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی تھی۔ لیکن آپ شور شرابہ کرنے والے دوستوں کے ساتھ دھیمی دھیمی گفتگو نہیں کر سکتے۔ اس لیے میں انہیںایک ایک کر کے خیالوں میں لاتا تھا، اور اپنے آپ کو ایک سٹینڈ اپ کامیڈین تصور کر کے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مزاحیہ بات چیت کا مظاہرہ کیا کرتا تھا۔ اس مشق کی وجہ سے مجھے اپنے ماضی کا سامنا کرنے میں آسانی ہو جاتی تھی۔ان تمام برسوں میں کوئی 30 ماہ ایسے تھے، جس میں میرا بیرونی دنیا سے ہفتہ وار بغیر کسی نگرانی کے ایک عجیب و غریب قسم کا رابطہ ہوتا تھا۔ میرا محافظ میری طرح تھا، مانچسٹر یونائیٹڈ کا دلدادہ۔ وہ ہر دوسرے ہفتے ایک ریڈیو چھپا کر میرے کمرے میں لے آتا اور ہم مل کر کمنٹری سنتے۔اس کے نزدیک یہ ایک لطف انگیز گناہ تھا کیونکہ ان کے مطابق کھیلوں میں حصہ لینا اور سننا دونوں حرام تھے۔ میرے لیے وہ دنیا کی جانب کھلنے والی کھڑکی تھی۔ ایک ایسی دنیا جہاں ذہنی توازن کھو دینا انتہائی آسان تھا۔ مین یونائیٹڈ کی خبریں، مجھے ذہنی توازن برقرار رکھنے میں مدد دیتی تھیں۔ میں اپنے آپ سے کہتا کہ 'تم مین یونائیٹڈ کے واحد مداح ہو گے، جو اس طرح کی صورتِ حال میں گھرا ہوا ہے۔ وہ صرف تمھارے لیے میچ جیت رہے ہیں۔‘‘
کافی عرصے بعد قدرت نے ایک ڈرامائی چال چلی اور مین یونائیٹڈ کا ،وہ خفیہ مداح خود قیدی بن گیا۔ ایک دن اس نے مجھ سے کہا 'میں نے ہمیشہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کیا۔‘ میرے منہ سے نکلا، 'اچھا؟... تمہی تو ہو جس نے ہر روز مجھ پر میری زندگی کا دروازہ بند کیا تھا۔‘وہ دوسری جانب دیکھنے لگا اور مجھے نہیں لگتا کہ میری بات اس کی سمجھ میں آئی تھی۔ماضی میں جھانکتے ہوئے میں دیکھ سکتا ہوں کہ میں ہمیشہ آزاد تھا۔ آپ کے علاوہ کوئی دوسرا ،آپ کو کبھی قید نہیں کر سکتا۔ وہ میری زندگی مشکل بنا سکتے تھے لیکن جب تک میں برداشت کر سکتا تھا، میں آزاد تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ میں خدا کے ہاتھوں میں ہوں، نہ کہ ان کے ہاتھ میں۔ اور خدا نے میرا خیال، معجزاتی طور پر ہمیشہ برقرار رکھا۔ ڈرون، بیماری، گولی، جسمانی تشدد، رہائش کے ناگفتہ بہ حالات، جھڑپیں، افغان طالبان کا ازبکوں کو اکھاڑ پھینکنا، اسی نے ان سب سے مجھے گزارا۔
میں گھر واپس آ چکا ہوں اور اب یہ میری دنیا ہے۔ میں اب بغیر کسی کے خوف کے معمول کی زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ بہت سی چیزیں بدل گئی ہیں لیکن بہت سی اہم چیزیں جوں کی توں ہیں۔ میں اپنی بیوی، والدہ، بہن اور بھائی کی طرف دیکھتا ہوں اور کہتا ہوں کہ مجھے اپنی زندگی از سرِنو تعمیر کرنے کے لیے انہی کی ضرورت ہے۔دنیا کا ایک مضبوط حصہ دوسروں کا درد محسوس کرنے کی صلاحیت، سچائی کی خاطر اٹھ کھڑا ہونے اور انسانی روح کی آزادی کی خوشی منانا ہے۔ اس لیے میری بات، علی حیدر گیلانی اور دوسرے تمام قیدی سنیں۔ آپ کو زیادہ دن پابند سلاسل نہیں رکھا جا سکتا۔ ایک نہ ایک دن آپ واپس لوٹیں گے۔ساری زندگی تند و تلخ سوچوں میں گزاری جا سکتی ہے کہ یہ سب کچھ میرے ساتھ ہی کیوں ہوا؟ یہ درست ہے کہ ہمارے ساتھ جو برے حالات پیش آتے ہیں ان میں سے بہت سوں کے ذمہ دار ہم نہیں ہوتے، بلکہ اس کا سبب دوسروں کالالچ، بدنیتی اور بے رحمی بھی ہو سکتے ہیں۔ شاید اس سب کے پیچھے کوئی آفاقی مقصد موجود ہے۔ میں نہیں جانتا، لیکن مجھے یہ ضرور معلوم ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ آپ حالات کا سامنا کیسے کرتے ہیں، آپ بدقسمتی سے کس آن بان سے نمٹتے ہیں، مشکلات کا مقابلہ کس مضبوطی اور حوصلے سے کرتے ہیں؟مجھے یقین ہے کہ یہی چیزیں ہیں جنہیںخدا دیکھتا اور ان کی بنیاد پر فیصلے صادر کرتا ہے۔ ممتحن انہی سوالوں کے جوابات دیکھتا ہے اور ان کے مطابق نمبر دیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس بنیاد پر میرے نمبر ٹھیک آئیں گے۔ کم از کم علامات سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے۔
ذرا سوچیے...29 فروری کی صبح جب ایک افغان بزرگ مجھے رہا کرنے کے لیے قیدخانے کا دروازہ کھول رہے تھے، تو اسی وقت سینکڑوں میل دور ایک اور زندان کا دروازہ کھولا جا رہا تھا اور جلاد میرے والد کے قاتل کو پھانسی دینے کی تیاریاں کر رہا تھا۔یہ مارچ کا وہ غیر معمولی دن تھا جب میں ایک پکی سڑک پر سفر کر رہا تھا، اور ساتھ ہی ساتھ اس لمحے کے بارے میں سوچتا جا رہا تھا جب میں نے قید کے چھ ماہ بعد اپنی بیوی اور ماں سے بات کی تھی۔مجھے کہا گیا تھا کہ مجھے گولی ماری جانے والی ہے، اس لیے میں خدا حافظ کہہ لوں۔ ان سے بات کرنے سے مجھے سکون ملا تھا کہ اب چاہے جو بھی ہو جائے، کم از کم میں نے انہیںخداحافظ تو کہہ دیا ہے۔ یہی بات مجھے چار برسوں تک سہارا دیتی رہی۔وقت ضرور لگ گیالیکن آخر کار وہ دن آن پہنچا ہے جب میں 'خداحافظ‘ کو 'ہیلو‘ میں بدلنے آ رہا ہوں۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں