"NNC" (space) message & send to 7575

دو رپورٹیں-ایک تکلیف

بجٹ کا موسم ہے۔ وزیرخزانہ جناب اسحق ڈار ہیں۔ حکمرانی صنعت کاروں کی ہے۔ دو رپورٹیں آپ کے سامنے ہیں۔ ایک کا تعلق عام آدمی سے ہے اور دوسری کاشتکاروں کے بارے میں ہے۔اس طرح کے اعدادوشمار اور سرویزبہت خشک ہوتے ہیں۔ اس بار خشک ہونے کے ساتھ ساتھ تکلیف دہ بھی ہیں۔ عوام کو حکومت تکلیف دے رہی ہے اور حکمرانوں کو قدرت۔ جس کی قسمت میں جو لکھا ہے‘ بھگت رہا ہے۔ذیل میں بی بی سی اردو سے دو رپورٹیں پیش کی جا رہی ہیں۔ایک سارہ حسن اوردوسری شمائلہ جعفری کی ہے۔ پاکستان میں مالی سال2015---2016ء کی اقتصادی جائزہ رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ اس کے اہم نکات پیش خدمت ہیں۔
''پاکستان کی مجموعی آبادی 19 کروڑ 54 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ ملک کی 29.5 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔پاکستانیوں کی فی کس سالانہ آمدن 1560 ڈالر ہے۔ملک میں اوسط شرح افزائش تین اعشاریہ ایک فیصد ہے۔پاکستان میں خواتین کی اوسطً عمر 67 سال اور سات ماہ ہے اور مردوں کی عمر 65 سال 5 ماہ ہے۔اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد آبادی کی عمر 15 سے 64 سال کے درمیان ہے۔ملک کی افرادی قوت کی تعداد 6 کروڑ 10 لاکھ ہے، جس میں سے 36 لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔بے روزگاری کی شرح 5.9 فیصد ہے۔ پنجاب آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے اس لیے یہاں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ 2.23 فیصد ہے۔
پاکستان اقتصادی سروے کے مطابق خام ملکی پیدوار کا 0.42 فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کیا گیا۔ملک میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد ایک لاکھ 84 ہزار 711 ہے۔ اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ 1038 افراد کے علاج معالجے کے لیے ملک میں محض ایک ڈاکٹر موجود ہے۔ہسپتالوں میں علاج معالجے کے لیے درکار سہولیات بھی بہت کم ہیں اور 1613 افراد کے علاج کے لیے ہسپتال میں ایک بستر موجود ہے۔پاکستان میں ایک لاکھ خواتین میں سے 178 خواتین زچگی کے دوران مر جاتی ہیں اور نوزائیدہ بچوں میں بھی اموات کی شرح زیادہ ہے۔ پاکستان میں ایک ہزار بچوں میں سے اوسطاً 67 بچے پیدائش کے بعد پہلے پانچ برس میں فوت ہو جاتے ہیں۔سال 2015ء میں ملک بھر میں پولیو کے 54 کیسز رپورٹ ہوئے اور سال 2016ء میں اب تک پولیو کے مجموعی طور پر نو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
پاکستان کی 60 فیصد آبادی لکھنا پڑھنا جانتی ہے۔ مردوں میں شرح خواندگی 70 فیصد اور عورتوں میں 44 فیصد ہے۔دیہات میں رہنے والی آبادی میں سے 51 فیصد افراد خواندہ ہیں۔پاکستان کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ 63 فیصد آبادی پنجاب میں ہے جبکہ بلوچستان کی شرح خواندگی محض 44 فیصد ہے اور بلوچستان میں خواتین میں خواندگی کی شرح 25 فیصد ہے۔اس وقت سکول جانے والی عمر کے 4 کروڑ 39 لاکھ بچوں کا سکولوں میں اندراج ہے۔ ملک بھر میں 163 یونیورسٹیاں، 36 ہزار تکنیکی تربیت فراہم کرنے والے ادارے اور دو لاکھ 60 ہزار ڈگری کالج ہیں۔ملک میں اساتذہ کی تعداد 16 لاکھ 24 ہزار ہے۔
پاکستان میں 13 کروڑ 14 لاکھ افراد موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد تین کروڑ سے زیادہ ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میںپاکستان کو اب تک مجموعی طور پر 118 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔مالی سال 2015-2016ء کے دوران دہشت گردی سے ہونے والے نقصانات کا خسارہ 5 ارب 56 کروڑ ڈالر رہا۔گذشتہ مالی سال کے دوران پاکستان کی معیشت کو دہشت گردوں کے حملوں سے 9 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا تھا۔‘‘
جب تک ملک میں جاگیرداروں کی حکمرانی تھی‘ کسان روٹی کھا لیتے تھے۔ اب صنعتکاروں کی حکمرانی ہے۔ مزدور اور کسان ایک ہی تھالی میں کھانا کھائیں گے۔دونوں رپورٹیں ''بی بی سی‘‘ نے دی ہیں۔ 
''کاشتکاری جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے رانا نذیر کا شوق بھی ہے اور ذریعہ معاش بھی۔گذشتہ سیزن میں جب انہوں نے کپاس کی کاشت شروع کی تو انہیںتوقع تھی کہ وہ معمول کے مطابق فی ایکڑ 30 من سے زائد کپاس حاصل کر لیں گے تاہم جب انہوںنے فصل اٹھانی شروع کی تو ان کی فی ایکڑ پیداوار چار سے پانچ من فی ایکڑ تھی۔''میں نے فصل کو کھاد بھی پوری دی تھی اور 11 سپرے کروائے تھے لیکن کسی دوائی نے اثر نہیں دکھایا۔ بنولے میں کوئی تیل بھی نہیں تھا اور پھٹی میں گلابی سنڈی تھی اس لیے اس کا وزن نہیں تھا۔ اگر کوئی ٹینڈا کھڑا تھا تو اس میں کیڑے تھے۔‘‘ پاکستان میں کپاس کی کاشت کے حوالے سے 2015-2016ء کو بدترین برسوں میں سے ایک گردانا جارہا ہے کیونکہ اس برس پیداواری ہدف سے تقریباً 34 فیصد کم کپاس کاشت ہوئی۔
فصل خراب ہونے کی پہلی قیمت رانا نذیر کی طرح پنجاب کے کاشتکاروں نے ادا کی اور ناقص کیڑے مار ادویات اور اچھا بیج نہ ہونے کو اس بحران کی بنیادی وجہ قرار دیا۔
پاکستان کسان اتحاد کے مرکزی صدر خالد محمود کھوکھر کے مطابق گذشتہ برس حکومت کی جانب سے ڈیڑھ کروڑ گانٹھوں کی کاشت کا ہدف مقرر کیا گیا تھا، جس میں سے محض 96 لاکھ گانٹھیں کاشت ہو سکیں اور وسیع رقبے پر لگی کپاس کیڑوں کے حملوں اور مختلف بیماریوں کے باعث ضائع ہوگئی۔خالد محمود کہتے ہیں ''ہمارے پاس اچھا بیج نہیں ہے اور جو بی ٹی بیج گذشتہ کئی سال سے ہمارے ہاں چل رہا ہے وہ چوری کا ہے۔‘‘ان کا کہنا ہے ''اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ملتان میں کوئی مستقل افسر تعینات نہیں کیا گیا۔ وہاں جو ڈائریکٹربیٹھا ہے وہ تین سال سے عارضی چارج پر ہے۔ اسلام آباد میں کاٹن ریسرچ کو زراعت کے بجائے وزارتِ ٹیکسٹائل کے حوالے کر دیا گیا ہے جہاں پر کام بالکل نہیں ہو رہا۔‘‘
ایسی صورت حال میں کپاس کی پیداوار کا جو حال ہے وہ خلاف توقع نہیں لیکن فصل کی کٹائی کے چھ ماہ بعد جاری ہونے والے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کپاس کی قلت سے مجموعی ملکی پیدوار میں اعشاریہ پانچ فیصد کی کمی ہوئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ کپاس درآمد کرنا پڑی۔معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر سلمان شاہ کا کہنا ہے ''بجلی، کھاد، ڈیزل ہر چیز ہی بہت مہنگی ہے۔ ایسی صورت حال میں کپاس کی پیداوار میں کمی سے برآمدات میں کمی آئی ہے اور درآمدات بڑھی ہیں لیکن یہ بحران ظاہر کرتا ہے کہ ہماری کوئی ٹیکسٹائل یا کاٹن پالیسی ہے ہی نہیں اور زراعت کے شعبے کی حالت خراب ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اب حکومت کی آنکھیں کھل جائیں۔‘‘
حالیہ برس کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی سے یورپی منڈیوں تک ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی ڈیوٹی فری رسائی کے تحت ملنے والے آرڈر پورے کرنے کے لیے مل مالکان کو بھارت سے کپاس درآمد کرنا پڑی۔بھارت میں مختلف سبسڈیز بجلی اور کھاد کی قیمتیں پاکستان کی نسبت کئی گنا کم ہونے کے باعث درآمد کی جانے والی کپاس سستی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کسانوں کو اس پر شدید تحفظات ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر موجودہ صورت حال برقرار رہی تو وہ کپاس کی کاشت ترک کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
پاکستان کسان اتحاد کے مرکزی صدر کہتے ہیں ''ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے اب بھارت سے کپاس آ رہی ہے۔ جب ڈیوٹی فری کپاس آئے گی تو ہمارا کاشتکار تو مر ہی جائے گا۔ وہ بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا '' کپاس کی کاشت کے علاقے میں گنے کی کاشت کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے کیونکہ شوگر ملیں سیاستدانوں کی ہیں۔‘‘ کپاس کو ایک نقد آور فصل سمجھا جاتا ہے۔ تاہم حکومت کی جانب سے اسے مسلسل نظرانداز کیے جانے کے باعث اب بہت سے کاشتکار دوسری فصلوں کو کاشت کرنے پر ترجیح دینے لگے ہیں۔ ڈاکٹر سلمان شاہ کے مطابق ''یہ بہت پیچیدہ معاملات ہیں جس میں بہت محنت اور توجہ کی ضرورت ہے لیکن حکومت کی زراعت پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ باتیں تو بڑی بڑی کی جاتی ہیں لیکن کاشتکاروں کو اپنی شنوائی کے لیے سڑکوں پر آنا پڑتا ہے اور ایسے مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومتی قابلیت ناکافی ہے۔‘‘
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے حال ہی میں مختلف محکموں کو تاکید کی ہے کہ وہ کپاس کی پیداوار میں اضافے کے لیے تجاویز دیں اور بہتر بیج اور کیڑے مار ادویات کی فراہمی کو یقینی بنائیں لیکن ان کی یہ ہدایات کپاس کے حالیہ بحران پر قابو پانے میں کس حد تک مددگار ہوں گی، اس کا اندازہ تو چند ماہ بعد اگلی فصل کی کٹائی پر ہی ہو سکے گا۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں