گزشتہ دو دنوں سے اخبار پڑھتے پڑھتے‘ ٹیلیویژن پر نظر جاتی ہے‘ تو دل تڑپ جاتا ہے۔ سامنے معمر‘ مفلوک الحال اور خرابی صحت کے شکار بزرگوں کا ایک ہجوم نظر آتا ہے۔ گرمی ان دنوں اپنے عروج پر ہے اور خصوصاً جہاں پر نیم جاں افراد کا مجمع ہو‘ وہاں انسانی جسموں اور سانسوں کی آنچ‘ معمول کے موسم سے زیادہ تیز ہوتی ہے۔ پاکستان کا حکمران خاندان‘ صرف ایک ہی دلچسپی رکھتا ہے اور وہ ہے زیادہ سے زیادہ روپیہ جمع کیا جائے اور پھر اسے نامعلوم طریقوں سے‘ نہ معلوم مقامات پر بھیج کر خفیہ کھاتوں میں جمع کرا دیا جائے۔ یہ کھاتے دنیا کے کونے کونے میں کھلے ہیں۔ آسٹریلیا سے پاناما تک۔ ہانگ کانگ سے ملائشیا تک۔ سپین سے برطانیہ تک۔ جنوبی افریقہ سے دبئی تک۔یورپ کے دیگر ملکوں میں‘ ساحلی کمپنیوں تک کونسی ایسی جگہ ہے؟ جہاں کالا سرمایہ ''محفوظ‘‘ نہ کیا گیا ہو؟ پاکستان میں جتنا سرمایہ جمع ہوتا رہا ہے‘ اس کی انتہا نہیں۔ ہمارے کھیت سونا اگلتے ہیں اور ان سب کی دولت مختلف محکموں سے ہوتی ہوئی‘ اعلیٰ اختیارات والے گھرانوں تک پہنچتی اور وہاں سے سرحدیں پھلانگ کر‘ خفیہ کھاتوں میں جمع ہوتی رہتی ہے۔
ہمارے وزیرخزانہ‘ جناب اسحق ڈار نے منی لانڈرنگ پر ایک '' تھیسس‘‘ لکھ رکھا ہے‘ جو ساری دنیا میں اپنے معیار کی ایک مثالی اور مستند تصنیف ہے۔ ڈار صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ سرکاری اور نجی شعبے سے‘ سرمایہ سمیٹ کر بیرون ملک پہنچانے کی راہیں آسان کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران‘ انہوں نے جتنی تیزی سے ‘پاکستان میں جمع سرمایہ کھرچ کھرچ کر باہر نکالا‘ اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔یہ اہل پاکستان کی بدنصیبی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اسحق ڈارکو ماہر معاشیات سمجھ کر ملک کانظام مالیات ‘ ان کے حوالے کر رکھا ہے‘ حالانکہ ڈار صاحب ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں۔یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں۔ ایک محض منشی ہوتا ہے جو بہی کھاتوں کو درست رکھتا یا ہیر پھیر کرتا ہے۔جبکہ دوسرا معیشت کی منصوبہ سازی کرتا ہے۔ آنے والے دور میں مضمر امکانات کا جائزہ لے کے‘ مالیاتی نظام کو تشکیل دیتا ہے۔ مارکیٹ کے رجحانات کا تعین کرتا ہے۔گویا ایک طرح سے وہ عالمی‘ ملکی اور علاقائی معیشت میں پیدا ہونے والے امکانات اور رجحانات کے اندازے لگا کر‘ انہیں وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالتا اوراس کے رخ کا تعین کرتا ہے۔پاکستان کی معیشت بنیادی طور پر زرعی ہے۔ گویا پاکستان کا وزیرخزانہ قومی معیشت کوزرعی شعبے کی بنیاد پر مرتب کرتا ہے۔ہماری سب سے بڑی فصل‘ جس نے ایک مدت تک ہماری مالیاتی طاقت کو مستحکم رکھا۔یہ وہ فصل ہے‘ جس نے پاکستانی معیشت کواندرون ملک بھی تندرست و توانا رکھا اور بیرونی منڈیوں سے زرمبادلہ کما کرعالمی تجارت میں‘ہمیں خسارے اور قرضوں سے محفوظ رکھنے میں مدد دی۔ کپاس کی فصل ‘ہماری معیشت کی ریڑھی کی ہڈی تھی۔ جبکہ دوسری فصلیں مددگار کا کردار ادا کرتی تھیں۔جس طرح بھارت ہمارے ایٹم بم سے خائف ہے۔ بالکل ا سی طرح معیشت کے میدان میں‘ کپاس کی فصل بھارت کے لئے تکلیف دہ تھی۔جب تک زراعت سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادت با اختیار رہی‘ اس نے زراعت کے شعبے کو زوال کا شکار نہیں ہونے دیا۔ مگر جب سے سیاسی قیادت صنعتی اور کاروباری لوگوں کے ہاتھوں میں گئی‘پاکستانی معیشت کا حلیہ بگڑ گیا۔آج صورت حال یہ ہے کہ ہم اپنی بنیادی طاقت یعنی زرمبادلہ کمانے والی فصلوں کو تباہ و برباد کر بیٹھے ہیں۔مثلاً مجھے کسی حد تک اس بات کا پتہ ہے کہ بھارت نے اپنے زرعی سائنس دانوں کو یہ ذمہ داری دے رکھی تھی کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے ‘پاکستان کی بنیادی فصل کپاس کو جس قدر ممکن ہو‘ نقصان پہنچائے۔اس مقصد کے لئے طرح طرح کے حربے اختیار کئے گئے۔
سب سے پہلا حملہ ‘کپاس پر کیا گیا۔ہمارے جس زرعی علاقے میں کپاس کی فصل کاشت ہوتی ہے‘ اس سے ملحقہ بھارتی علاقوں میں وہ فصلیں کاشت کی گئیں‘ جن میں ایسا وائرس ''پیدا‘‘ کیا گیا‘ جس سے ہماری کپاس کی فصل کو نقصان پہنچا یا جاسکے۔ مثال کے طور پر ایک فصل بھنڈی کی تھی۔ سننے میں آیا ہے کہ کپاس اور بھنڈی کی فصلوں میں بعض جزئیات میں مماثلت ہے۔بھارت نے اپنے علاقوں میں ایسی بھنڈی کاشت کی‘ جس میں کپاس کے لئے خطرناک وائرس پیدا کیا جا سکتا تھا۔یہ بہت عرصہ پہلے کی بات ہے‘ جب اس وائرس کے آزمائشی تجربے کئے جا رہے تھے۔ زمینداروں اور کاشتکاروں کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ جب بھارتی وائرس کا پہلا تجربہ کیا گیا تو ہماری کپاس کی فصل کو نقصان پہنچنا شروع ہوا۔ کپاس کی حالیہ فصل کی تباہی دیکھ کر‘ مجھے بھارت کا تجربہ یاد آگیا‘ جب پہلی مرتبہ وائرس کا تجربہ کیا گیا۔ اس کے بعدمزید کتنے تجربے ہوئے؟ان کے بارے میں مجھے علم نہیں لیکن حالیہ فصل کی تباہ کاری دیکھ کر‘ مجھے پرانی بات یاد آگئی اور مجھے شک ہے کہ بھارت نے پاکستانی کپاس کی فصل تباہ کرنے کے لئے مزید تجربے کئے ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ کپاس کو پہنچنے والا نقصان‘ بھارت کے انہی تجربوں کا نتیجہ ہو۔ اگر ہماری وفاقی کابینہ میں خصوصاً وزارت خزانہ کا انچارج‘ کوئی ماہر معاشیات ہوتا تو وہ‘ہمارے مالیاتی نظام کی دیکھ بھال کر کے اسے مضبوط کرتا۔ فصلوں کا حفاظتی نظام تیار کرتا اور اس طرح پاکستان کی معیشت ناقابل شکست ہوتی۔ ہم زراعت کے شعبے میں نقدآور فصلیں پیدا کرکے‘ اپنے زمینداروں اور کاشتکاروں کی مالی حالت سدھارتے۔جس کے ساتھ قومی معیشت میں توانائی آتی۔ زمینداروں اور کاشتکاروں کے پاس جمع ہونے والا پیسہ ‘فصلوں کی جدید کاری پر صرف ہوتا۔ ہم اپنی کھادیں خود تیار کرتے۔اس شعبے میں ہمارے زرعی سائنس دان‘ نئی نئی ایجادات کر کے‘ فصلوں کی پیداواری طاقت میں اضافہ کرتے۔ بھارتی پنجاب کی زمین ہم سے زیادہ زرخیز نہیں۔ وہاں ایک ایکٹر میں جتنی گندم پیدا کی جاتی ہے‘ ہم اس سے کہیں زیادہ پیدا کر سکتے ہیں لیکن ہمارا مسئلہ پانی کا ہے۔
اگر زراعت کی ترقی میں سرمایہ کاری کے لئے اس پیشے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے پاس پیسہ آتا ۔ ان کی قوت خرید میں اضافہ ہوتا اور وہ نئی نئی ایجادات کرتے ہوئے زمین کی پیداواری صلاحیت بڑھاتے۔ فصلوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے والی ادویات ایجاد کرتے۔ گندم کے ساتھ دیگر فصلوں کی پیداواری صلاحیت بھی بڑھاتے۔ گلف کے ملکوں میں سبزیوں کی ضروریات پاکستان سے پوری کی جاتیں تو ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کہیں سے کہیں پہنچے ہوتے۔ کپاس کی فصل کی بنیاد پر ہم نے کپڑے کی جو ملیں‘ انتہائی مفلوک الحالی کے دور میں تعمیر کی ہیں‘ ان سے کہیں بہتر اور جدید ترین ملیں تیار کر سکتے تھے۔ زرعی سائنس میں ترقی کر کے ہم کپاس کی نئی نئی اقسام کو پیدا کر سکتے تھے۔ جو مصر کی کپاس سے بہتر ہوتیں اور جس سے تیار کئے گئے کپڑے کی ساری دنیا میں مانگ ہوتی۔ ہم کپاس سے تیار ہونے والی مصنوعات سے‘ عالمی مارکیٹ میں زیادہ طلب پیدا کرکے کثیر زرمبادلہ کماتے۔ہمارے کاشتکاروں اور زمینداروں کی مالی طاقت میں اضافہ ہوتا۔ وہ نہ صرف جدید صنعتی اور کیمیاوی ایجادات کی مدد سے اپنی مالی حیثیت کو مستحکم کر کے‘جدید پیداواری طریقوں سے اپنی آمدنی بڑھاتے اور کاشتکاروں کے مالی حالات میں بہتری آتی تو ان کا معیارزندگی بھی بہتر ہوتا۔وہ بھی اپنے دیہات میں بودو باش کا نظام سدھارتے۔ ان میں بچوں کو پڑھانے کی استطاعت پیدا ہوتی تو نئے نئے سکول بھی بنتے۔ڈاکٹر ‘کسانوں کی خوش حالی دیکھ کر دیہات کا رخ کرنے لگتے۔ قدرت نے ہمیں زمین اور زراعت کی صور ت میں جو خزانے دئیے تھے۔ ہم نے ان کو تباہ و برباد کر کے‘ اپنا ملک تاجروں اور دکانداروں کے حوالے کر دیا۔ حکمرانوں نے ایک منشی کو ماہر معاشیات کی حیثیت دے کر‘ ملکی معیشت کی کمر تڑوا دی۔ بجائے اس کے کہ ہم اپنی زرعی پیداوار اور مصنوعات برآمد کرکے‘ترقی اور خوش حالی سے فیض یاب ہو رہے ہوتے‘ مقروض اور مفلوک الحال ہیں۔قرضوں نے ہماری کمر دوہری کر رکھی ہے۔ کاشت کارفاقوں پر مجبور ہیں۔ زمینداروں کی آمدنی میں دن بدن کمی آتی جا رہی ہے اور ان کی فصلوں کے بل بوتے پر صنعت کار‘ امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال گنے کی فصل ہے۔ جو زمیندار گنا پیدا کرتا ہے۔ اس کی فصل ‘شوگر ملوں کے مالکان ایک پیسہ دئیے بغیر اٹھا لیتے ہیں۔فوراً ہی اس گنے کی مصنوعات بنا کر نفع کے ساتھ بیچتے ہیں۔ حکومت سے بھی سبسڈی لیتے ہیںاور زمیندار کو اس کی رقم ترسا ترسا کر دیتے ہیں۔یہی صورت حال دھان کی ہے۔ یہی کچھ سبزیوں میں ہوتا ہے۔ جس نے کولڈ سٹوریج بنا رکھا ہے‘ وہ سبزیاں من مانے نرخوں پر فروخت کرتا ہے جبکہ سبزیاں پیدا کرنے والا کسان انہیں ‘ بیوپاریوں کے ہاتھ اونے پونے بیچنے پر مجبور ہوتا ہے کیونکہ بیشتر سبزیاں ایسی ہوتی ہیں ‘جنہیں شام ہونے سے پہلے پہلے فروخت نہ کیا جائے تو وہ گل سڑجاتی ہیں۔پاکستانی قوم کو کسی منصوبے یا سازش کے ذریعے‘ تباہی کی غار میں دھکیلا جا رہا ہے اور ہم سمجھ نہیں پا رہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟