پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف‘ جنرل راحیل شریف نے ا مریکہ سے کہا ہے کہ ''وہ افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ ‘ملا فضل اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے‘‘۔ اس مطالبے کے ساتھ ہی ‘سیاسی تجزیہ نگاروں نے اچانک امریکیوں کو تنقید کا نشانہ بنا کر‘ طعنہ زنی شروع کر دی ہے۔حکومتوں کی پالیسیاں‘ برسر اقتدار لوگوں کے ذاتی مفادات کی روشنی میں بنائی جاتی رہی ہیں جبکہ آزادانہ تجزیے کرنے والے ‘وسیع تر قومی مفادات کی روشنی میں‘ اپنی رائے دیتے ہیں۔گزشتہ بیس سالوں سے پاکستان کی افغان پالیسی‘ مسلسل حکمران طبقوں کے ذاتی مفادات کی روشنی میں مرتب ہوتی رہی ہے‘ جس کی قیمت پاکستانی عوام اور فوج کو ادا کرنا پڑی۔ جبکہ حکمران‘ امریکی انتظامیہ سے اپنی خدمات سے صلے میں ‘انعام و اکرام سے‘ فیض یاب ہوتے رہے۔ جنرل ضیا‘ جو افغان پالیسی کے بانی تھے‘ ان کی کہانی منظر عام پر آچکی ہے۔نام نہاد افغان ''مجاہدین‘‘ میں تقسیم کرنے کے لئے ڈالروں سے بھرے ہوئے سوٹ کیس ‘ضیا انتظامیہ کے حوالے کئے جاتے تاکہ وہ ''مجاہدین ‘‘ میں تقسیم کریں۔لیکن کون جانتا ہے؟ کہ وہ سارے ڈالر ‘مجاہدین میں تقسیم ہوئے ہوں گے۔ عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو یہ ڈالر تقسیم کرنے کی ذمہ داریاں دی گئیں تھیں‘ درمیان میں وہ خود بھی ان ڈالروں سے فیض یاب ہوتے رہے۔ آج بھی ڈالر وں کی تقسیم پر مامور عہدیداروں کے بچے‘ اربوں کھربوں میں کھیل رہے ہیں‘جبکہ ذاتی مفادات کی قیمت پاکستانی عوام کو چکانا پڑی ۔ پہلے اس پالیسی کے بانی‘ ضیا الحق کوامریکیوں نے بہت سمجھایا کہ وہ جس کام کا معاوضہ لے رہے ہیں‘ وہ دیانتداری سے انجام دیں مگر ایسا نہ ہو سکا اور پھر امریکیوں نے بتا دیا کہ ان کے ساتھ‘ دغا بازی کا انجام کیا ہوتا ہے؟
جنرل ضیا کے بعد ایک نیم جمہوری نظام‘ فوجی سربراہوں کی نگرانی میں قائم کیا گیا لیکن جلد ہی فوج کے سابق سربراہ‘ جنرل پرویز مشرف نے ‘افغان پالیسی کا کنٹرول خود سنبھال لیا۔ انہوں نے ضیا الحق کی دوغلی پالیسی بحال کر کے‘ امریکیوں کو چکما دینا شروع کر دیا۔اسی چکمے بازی کو جنرل پرویز مشرف نے‘ زیادہ دیدہ دلیری کے ساتھ آگے بڑھایا۔ فوج کے یہ دونوں سربراہ ‘اپنی محدود فہم کے تحت‘ امریکیوں کو چکمادے رہے تھے جبکہ امریکی حقیقت حال سے بخوبی واقف تھے۔ وہ جنرل ضیا کو بھگت چکے تھے اور پھر مشرف اور کیانی کی چال بازیوں کو بھی بھانپ گئے تھے۔ہوتا یوں تھا کہ وہ افغان مجاہدین کو کچلنے کے لئے امریکیوں سے مال بٹورتے اور عملاً اسی پیسے سے خریدا ہوا اسلحہ ‘ مجاہدین کے حوالے کرتے اور ساتھ انہیں ڈالر بھی مہیا کر دیتے۔اس رقم سے انہوں نے‘ اپنے پیٹ بھی خوب بھرے اور پاکستان کے فنڈز سے جو اسلحہ خریدا‘مسلح افواج کی جونیئر قیادت کو تاثر دیا کہ ہم امریکیوں سے ڈالر لے کر‘ اسلحہ خرید رہے ہیں۔امریکیوں سے ایسی چال بازیاں چھپی نہیں رہ سکتیں۔کئی فوجی سربراہوں کو بھگتنے کے بعد‘ امریکیوں کا اعتبار اٹھ گیا اور پھر انہوں نے ایبٹ آباد کی واردات کر کے‘ بتا دیا کہ وہ دوہری پالیسی کا را زاچھی طرح جانتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران اور فوجی کمانڈرز گھروں میں سو رہے تھے اور امریکی فوجیوں نے اسامہ بن لادن کے کمپائونڈ پر آپریشن کر کے‘ اسے بھی موت کی نیند سلا دیا اور اس کے راز بھی سمیٹ کرساتھ لے گئے۔میں نے طویل کہانی چند لفظوں میں سمیٹ کر بیان کر دی ہے۔بتانا یہ مقصود تھا کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادتوں پر امریکیوں کا اعتماد کمزور پڑ گیا تھا۔آصف زرداری کی حکومت نے امریکیوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے بجائے‘ اپنے اقتدار کو ترجیح دی۔ جنرل پرویز مشرف بھی‘ اپنی دوہری پالیسیوں کی وجہ سے امریکیوں کا اعتماد کھو چکے تھے۔ زرداری اور نوازشریف دونوں نے مل کر‘ پرویز مشرف کو اقتدار سے باہر کر دیا۔
2013ء کے انتخابات میں‘ نوازشریف بر سراقتدار آگئے اور انہوں نے اپنے فوجی سرپرستوں کی پالیسی اختیار کر لی۔اس دوران جنرل راحیل شریف‘ فوج کے سربراہ بن گئے۔ یہ صاف اور کھرے سپاہی ہیں۔وزیراعظم نوازشریف نے‘ دہشت گردوں کے ساتھ خفیہ رابطوں کے نتیجے میں باضابطہ مذاکرات شروع کر دیے لیکن جنرل راحیل شریف نے آپریشن ضرب عضب شروع کرکے‘ حقیقت میں دہشت گردوں کی کمرتوڑ دی۔جنرل راحیل کے واضح اور کھلے اقدامات کو دیکھ کر‘ان پر پاکستانی عوام اور عالمی طاقتوں کا اعتماد بڑھنے لگااور انہیں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔لیکن خارجہ پالیسی بنانا جنرل راحیل کے دائرہ اختیار سے باہر تھا۔ پاکستان کے قومی اداروں کے درمیان‘ باہمی عدم اعتمادی کا نتیجہ یہ نکلاکہ امریکیوں نے پاکستان کی سرزمین پرڈرون حملہ کر کے‘ ملا منصور کو ہلا ک کر دیا۔ جس پر پاکستانی حکومت نے شدید ردعمل کے اظہار کے لئے‘ جنرل راحیل کا انتخاب کیا۔ وہ سیدھے سادے فوجی ہیں۔ جنرل راحیل نے امریکیوں سے شدید احتجاج کر کے‘ پاک فوج کے حقیقی جذبات ان تک پہنچا دیے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ملک کے وزیراعظم جو بفضلِ خدا‘ صحت یاب ہو کرمعمول کی زندگی گزار رہے ہیں‘ خود منظر عام پر آکر امریکیوں کے ساتھ رابطے سے‘ اب تک گریزاں ہیں۔
اب وہ مرحلہ آگیا ہے جس میں خلوص اور نیک دلی سے کھیل کو آگے بڑھانا ‘ مجبوری ہے۔ جبکہ سیاست دانوں کی پالیسیاں ہمیشہ پیچ دار ہوتی ہیں۔ظاہر ہے جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ میں قریباً چھ ماہ رہ گئے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم‘ نریندر مودی نے‘ خطے میں ایک بڑے کھلاڑی کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ افغانستان میں اس نے‘ بھار ت کی جڑیں پھر تیزی سے پھیلانا شروع کر دی ہیں۔عین اس موقع پر جنرل راحیل شریف سے ‘ملا فضل اللہ کو ہلاک کرنے کے مطالبے نے‘ ایک نئی الجھن پیدا کر دی ہے۔اصولاً یہ مطالبہ ملک کی منتخب حکومت کو کرنا چاہئے تھا۔سرتاج عزیز‘ موجودہ حکومت میں کتنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں؟ یہ سب کو معلوم ہے۔وزن صرف ایک شخصیت کے الفاظ میں ہے اور وہ ہیں‘ جنرل راحیل شریف۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مطالبے کوعملی جامہ کون پہناتا ہے؟ امریکہ؟ پاک فوج ؟یا افغان حکومت؟ایک سچے اور کھرے فوجی نے‘ ملا فضل اللہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر کے‘اپنے آپ کو امتحان میں ڈال لیا ہے۔ اب اگر امریکہ‘ ملا فضل اللہ کو نشانہ بناتا ہے تو پاکستان کی راہ کا کانٹا ہٹائے گا۔مگر وہ ایسا کیوں کرے گا؟ملا فضل اللہ نے ایسے کس گروپ کو نقصان پہنچایا ہے؟ جو امریکیوں کا اتحادی ہو۔ملا فضل اللہ کے خلاف‘ پاکستان نے امریکہ سے مدد مانگ کر‘ بڑے کھلاڑیوں کو کیا پیغام دیا ہے؟ وزیراعظم نوازشریف کے عارضہ قلب کا علاج ہو چکا۔ اب وہ اپنے معمولات کب شروع کریں گے؟ سوال ہی سوال ہیں۔ جواب مشکل ہے۔